اسلام آباد ( آن لائن ) پاکستان کے بیرونی ممالک کے سفارتی تعلقات کے حوالے سے سال 2018ء نشیب وفراز کا سال رہا۔ امریکہ ، چین ، سعودی عرب، ایران اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں اس سال اتار چڑھاؤ آتا ہے۔ سال 2018ء کے اوائل میں ملک میں سیاسی عدم استحکام ، کمزور سفارتی تعلقات اور کمزور خارجہ پالیسی کی وجہ سے اس وقت کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے دورہ سعودی عرب کے دوران مالی امداد کی درخواست مسترد کردی گئی تھی۔
جبکہ جولائی میں ہونے والے نئے الیکشن کے بعد قائم ہونے والی حکومتی وفد کو بھی سعودی قیادت نے امداد دینے سے انکار کردیا تاہم سال 2018ء کے اختتام پر سعودی عرب نے پاکستان تقریبا 6ارب ڈالر کا امدادی پیکج دینے کا اعلان کیا اور پاکستان کو یمن اور سعودی عرب کے مابین مفاہمتی عمل میں اپناکردار اد ا کرنے کی بھی درخواست کی۔سال 2018ء کے شروع میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا کی ویب سائٹ ٹویٹر کے ذریعے ایک پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ پاکستان کو بیوقوفوں کی طرح گزشتہ پندرہ سال کے دوران 33ارب ڈالر دے چکا ہے، اور پاکستان نے امریکی راہنماؤں کو بیوقوف بناتے ہوئے جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا اور امریکہ کو افغانستان سے دہشتگردوں کو بھگاتا رہا جبکہ پاکستان دہشتگردوں کو پناہ دیتا رہا ۔سال 2018ء کے دوران پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات میں اتارچڑھاؤ جاری رہا جبکہ دوسری جانب مصالحتی عمل بھی جاری رہا ۔ تاہم سال کے آخری مہینوں کے دوران دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتر ی آئی اور امریکہ صدر نے وزیر اعظم عمران خان کے نام لکھے جانے والے خط میں افغانستان میں مصالحتی عمل میں تعاون کی بھی درخواست کی اور کہا کہ ا مریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کروانے میں پاکستان امریکہ کی مدد کرے۔ پاکستان اور امریکہ دونوں نے جنگ کی بھاری قیمت ادا کی ہے، پاکستان اور امریکہ کو مل کر کام کرنے اور اتحاد کو مضبوط کرنے کے مواقع ڈھونڈنے چاہئیں۔2018ء کے آخر میں متحدہ عرب امارات کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں بھی بہتری آئی۔
وزیراعظم پاکستان نے کئی سالوں بعد متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا۔ جبکہ متحدہ عرب امارات کے شیخ بھی جنوری 2019 میں پاکستان آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بہترین خارجہ پالیسی اور سفارتی تعلقات کو سمجھداری سے آگے بڑھانے کے نتیجے میں متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو تین ارب ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے۔ جس نے پاکستان کی ڈگمگاتی معیشت کو سہارا دینے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔اگر پاکستان اور ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ تعلقات کی بات کریں تو 2018 شاندار اور بہترین سال تھا۔
2018 میں پاکستان نے بھارت کے لیے کرتارپور بارڈر کھولنے کا اعلان کیا جسے پوری دنیا میں سراہا گیا۔ اس فیصلے نے دونوں ممالک کے مابین بات چیت کے جمود کو توڑا۔اگرچہ بھارت نے اقوا م متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزرائے خارجہ ملاقات کی حامی بھرنے کے باوجود بھی ملاقات سے انکارکردیا تاہم کرتارپور راہداری کھلنے سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں بہتری آئی ۔ کرتاپور راہداری کی افتتاحی تقریب کے دوران بھارتی صحافیوں کی پاکستان آمد ہوئی
اور وزیراعظم پاکستان سے پاک بھارت تعلقات پر کھل کر سوال و جواب ہوئے۔ مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کئی روز تک پاک بھارت تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات پر گفتگو کرتا رہا۔ اگرچہ بھارت کے شدت پسند ذہنوں نے اس پر بھی تنقید کی، لیکن امریکہ سمیت پوری دنیا یہ کہنے پر مجبور ہوگئی کہ پاکستان کا کرتار پور بارڈر کھولنے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ پاکستان اور چین کے تعلقات 2018 کے شروع میں بھی مضبوط تھے اور آخر میں بھی بہترین ہیں۔ پاکستان میں عام انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت پاکستان کے سی پیک پر غیر ذمہ درانہ بیانات کی وجہ سے تعلقات سرد مہری کا شکار ہوئے،تاہم جلد ہی پاکستان اور چین کے مابین بحال ہوگئے۔
یہ تعلقات اب بہتری کی جانب رواں دواں ہیں۔اس سال کے دوران پاکستان نے افغانستان میں امن واستحکام کیلئے اپنا کردار ادا کیا،وزیر خارجہ شاہ محمودقریشی نے افغانستان کے دوسرکاری دوروں کے دوران اعلی افغان قیادت کے ساتھ ملاقاتیں کیں اور دونوں ممالک کے مابین تعلقات اور خطے میں پائیدار امن کیلئے بات چیت کی۔اس کے علاوہ وزیر خارجہ شا ہ محمود قریشی نے سال کے آخر میں چین، ایران ، افغانستان اور قطر کے ہنگامی دورے کیے۔ جبکہ وزیر اعظم عمران خان نے وفد کے ہمراہ چین ، سعودی عرب اور ملائشیاکا سرکاری دورہ بھی کیا۔اس کے علاوہ یورپی یونین نے بھی پاکستا ن کے ساتھ باہمی تعاون کو فروغ دینے کا عندیہ دیاہے۔ دوسری جانب پاکستان میں تعینات یورپی ممالک کے سفیروں نے پاکستان میں کام کرنے والی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں پر پابندیوں کے حوالے حکومت پر عدم اعتماد کا اظہا ربھی کیا اور اس سلسلے میں حکومت کو باقاعدہ طور پر خط لکھا گیا۔