اسلام آباد(آن لائن)شہباز شریف دور حکومت میں پنجاب کی وزارت لائیوسٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ کے روس سے ڈیڑھ ارب روپے کی ویکسین خریدنے کا انکشاف ہوا ہے جس کے خلاف نیب حکام نے تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ ویکسین ترکی سے سستے داموں خریدنے کی بجائے روس سے خریدی گئی ۔ ویکسین خریدنے کا مقصد پنجاب سے جانوروں کی منہ کھر کی بیماریو پر کنٹرول حاصل کرنا تھا
اس بیماری کے باعث بیرونی ممالک نے پاکستان سے ڈیری مصنوعات کی درآمد پر پابندی عائد کر رکھی ہے ۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ اس سکینڈل کا اہم کردار سابق سیکرٹری نسیم صادق تھے جو آج کل وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے قائم کی گئی ڈیری ٹاسک فورس کے اہم ممبر ہیں ۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ اس سکینڈل کی تحقیقات میں نسیم صادق اور شہباز شریف کو طلب کیا جا سکتا ہے اس حوالے سے نسیم صادق نے بتایا کہ یہ ویکسین روس سے خریدی گئی تھی اور یہ خریداری ایف اے ڈبلیو کے توسط سے کی گئی اس ویکسین سے جانوروں کو محفوظ بنایا گیا ۔ پاکستان کو سالانہ300 ملین ویکسین کی ضرورت ہے لیکن 10 ملین جانوروں کے ویکسین موجود ہے جو کہ حکومت کی عدم توجہی کا باعث ہے ۔ نیب حکام نے تحقیقات کیں تو یہ سکینڈل بھی صوبہ کا بڑا کرپشن ثابت کر سکتی ہے ۔ ڈیڑھ ارب روپے کی ویکسین صرف بہاولپور ، شیخوپورہ ، وہاڑی اور ملتان کے کاشتکاروں کے جانور کو دی گئی ۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ یہ کرپشن فائبر سکینڈل بن سکتا ہے اس حوالے سے وزیر اعلی کے مشترکہ لائیو سٹاک فیصل جیوانہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب ہی نہیں دیا جبکہ پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے بھی خاموشی اختیار کر لی ۔ انہوں نے بھی سوال کا جواب نہیں دیا۔ نسیم صادق حکومت کے اہم گرو جہانگیر ترین کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں جنہوں نے جہانگیر ترین کے زرعی فارمز پر یہ ویکسین فراہم کی تھی۔
جانوروں کو یہ چھ ماہ کے لئے بعد یہ ویکسین لگانی چاہئے تاکہ وہ بیماریوں سے محفوظ رہیں ۔ منہ کھر سے بیمار جانوروں کا گوشت اور دودھ استعمال سے انسانوں میں موذی مرض جنم لیتے ہیں۔اس حوالے سے جب ماہر لائیوسٹاک اور وٹرنری ایجوکیشن ڈاکٹر علمدار حسین ملک سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ پاکستان میں منہ کھر بیماری کے بچاؤ کے حوالے سے تقریباً10ملین ویکسین بنانے کی اہلیت ہے جو کہ صرف4فیصد موجودہ ضرورت کی بنتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس بیماری سے تقریباً10ارب روپے کا سالانہ نقصان ہورہا ہے جبکہ اس ویکسین کا پلانٹ لگانے کی لاگت تقریباً8ارب روپے بنتی ہے۔
ڈاکٹر علمدار نے مزید کہا کہ بھارت نے70 کی دہائی سے ہی اس ویکسین بنانے کے پلانٹ لگانے شروع کر دئیے تھے اور بھارت اپنے لائیوسٹاک کو اس بیماری سے بچانے کیلئے ویکسین بنانے کی ضرورت کے مطابق صلاحیت رکھتا ہے۔ڈاکٹر علمدارنے مزید بتایا کہ ترکی نے1984ء میں ویکسین بنانے کا پلانٹ لگا لیا تھا اور اب ترکی ایک مزید پلانٹ بھی لگا رہا ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ جب ویکسین کے بغیر منہ کھر بیماری کو کنٹرول ہی نہیں کیا جاسکتا تو پھر یہ مجرمانہ غفلت کے اسباب جاننے کیلئے بھی وزیراعظم پاکستان کو ایک ٹاسک فورس بنانی چاہئے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی سطح پر انیمل ہیسبنڈری کمشنر(AHC) کی نااہلی بھی کھل کر سامنے آتی ہے۔یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ سابقہ تمام انیمل ہیسبنڈری کمشنرز ریٹائرمنٹ کے بعد FAO کے ساتھ ملازمت کر رہے ہیں جو کہ ایک سوالیہ نشان ہے