اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) نامور کالم نگار محمد عرفان صدیقی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیںکہوزیر اعظم سے یہ بھی درخواست ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم کے لیے جس طرح انھوں نے دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں سے امداد کی اپیل کی ہے اس میں کچھ تبدیلی کرتے ہوئے ہماری طرف سے نہیں بلکہ لاکھوں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ان دو اہم تجاویز کا ضرور جائزہ لیں تاکہ
اتنے بڑے منصوبے کے ساتھ چندہ ، امداد اور زکوۃ جیسے الفاظ استعمال نہ ہوںبلکہ دیامر بھاشا ڈیم ایک قومی منصوبہ کہلایا جاسکے جس میں پوری قوم کی سرمایہ کاری شامل ہو کیونکہ اس منصوبے کی تکمیل کے ساتھ ہی یہ منصوبہ سالانہ اربوں ڈالر کمانے والا منصوبہ بن جائے گا وجہ یہ ہے کہ اس منصوبے سے ساڑھے چار ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی ، ساڑھے آٹھ ملین ایکڑ فٹ پانی جمع ہوسکے گا۔ لہٰذا ہماری تجویز ہے کہ اس سے ہونے والی آمدنی منصوبے میں سرمایہ کاری کرنے والے پاکستانیوں میں تقسیم کی جائے یوں یہ ایک امدادی منصوبہ نہیں بلکہ سرمایہ کاری منصوبہ کہلانے کے قابل ہوسکے گا ۔ اس حوالے سے ایک معروف اوورسیز پاکستانی چارٹرڈ اکائونٹنٹ کے مطابق اگر حکومت پاکستان دیا مر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے ایک پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کمپنی بنا کر اس کے اکیاون فیصد شیئر ز اپنے پاس رکھے اور انچاس فیصد شیئر زپچاس لاکھ اسٹاک کی صورت میں اوورسیز پاکستانیوں کو فروخت کردے اور ہر اسٹاک کی قیمت ایک ہزار ڈالر رکھی جائے تو آپ دیکھیے گا کہ کتنی جلدی یہ پچاس لاکھ اسٹاک پاکستان کے لیے پانچ ارب ڈالر جمع کرنے کا سبب بن سکتے ہیں اور پھر جیسے ہی یہ ڈیم تیار ہوجائے اس سے ہونے والی آمدنی میںان اسٹاک ہولڈرز کو معقول منافع اور حصہ دیا جائے اس سے پاکستانی قوم کے اندر اس ڈیم کی اونر شپ کا احساس بھی ہوگا
اور دیا مر بھاشا ڈیم چندے اور زکوٰۃ کے پیسوں کا ڈیم بھی نہیں کہلائے گابلکہ یہ ڈیم پاکستانی عوام کا ڈیم کہلائے گا اس تجویز پر حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔دوسری اہم تجویز سنگا پور میں مقیم سینئر پاکستانی اور معروف شپنگ کمپنی کے مالک لطیف صدیقی نے دی ہے جبکہ اس کی تائید پاک جاپان بزنس کونسل کے صدر رانا عابد حسین اور سندھ کے ڈائریکٹر اشفاق احمد نے
بھی کی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے دیا مر بھاشا ڈیم عوام کے چندے اور امدادسے بنانے کا فیصلہ کرہی لیا ہے تو اس ڈیم کے ساتھ ہی ایک بہت بڑی یادگار بھی تعمیر کی جائے جس میں کم ازکم ایک لاکھ چھوٹے بڑے ماربل لگائے جائیں اور ڈیم فنڈ میں جو پاکستانی ایک لاکھ ڈالر یا اس سے زیادہ فنڈ دے تو ایک ماربل پر اس کا نام سنہرے حروف میں لکھا جائے پھر پچاس ہزار ڈالر یا
اس سے زائد کا کوئی فنڈ دے تو اس کا نام بھی ایک ماربل میں جلی حروف سے تحریر کیا جائےاور پھر اگر کوئی پاکستانی دس ہزار ڈالر یا اس سے زائد فنڈ دیتا ہے تو اس کا نام بھی جلی حروف میں تیسری رو میں تحریر کیا جائے پھر ایک ہزار سے دس ہزار ڈالر دینے والے پاکستانی کا نام بھی اس کے فنڈ کے حساب سے معقول جگہ پر تحریر کیا جائے ، اس طرح ڈیم میں حصہ ڈالنے والے پاکستانیوں کی
حوصلہ افزائی ہوسکے گی اور لوگ بڑھ چڑھ کر اس کار خیر میں حصہ لیں گے ۔میں سمجھتا ہوں کہ اوورسیز پاکستانیوں کی یہ دونوں تجاویز انتہائی سادہ اور قابل عمل ہیں کیونکہ دنیا میں ہر مسلمان اپنے یا اپنے والدین یا اپنی اولاد کے نام سے صدقہ جاریہ کرنا چاہتا ہے اور اگر دیا مر بھاشا ڈیم جیسے اہم ترین پانی کے منصوبے پر ان پاکستانیوں کے نام پر ایک یادگار تعمیر ہو اور ہر پاکستانی کا اس کے کردار کے حساب سے نام بھی تحریر ہوجائےتو یہ ایک قابل تعریف عمل کہلائے گا جس پر حکومت کا خرچہ تو کم ہوگا لیکن لوگوں کی بہت بڑی تعداد اس میں شامل ضرور ہوجائے گی۔