اسلام آباد( آن لائن) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاہے کہ پاک امریکہ تعلقات میں جمود ٹوٹ گیاہے اور امریکہ نے پہلی بارپاکستان سے ڈو مور کا مطالبہنہیں کیا ، ہم اپنے لوگوں کو دال ر وٹی کھلا سکتے ہیں اس لئے میں نے امدادی فنڈ روکے جانے سے متعلق بات نہیں کی ،پاکستان کا موقف ذمہ داری سے پیش کیاہے ، پومپیو نے مجھے دورہ امریکہ کی دعوت دی ہے ،امریکہ کو بتا دیا ہے کہ بلیم گیم اور شیم گیم سے کچھ نہیں ملے گا ،
افغان مسئلے کا حل سیاسی ہے اور اس حوالے سے امریکہ کی سوچ تبدیل ہوئی ہے جو ایک مثبت اشارہ ہے ،پاکستان نے مذاکرات سے انکار نہیں کیا لیکن تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ بدھ کو اسلام آباد میں امریکہ وزیر خارجہ مائیک پومیپوکے دورہ پاکستان کے دوران پاکستانی حکام سے ملاقاتوں کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ آج امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات میں ماحول یکسر بد لا ہوا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا رویہ مثبت تھا اور میں نے پاکستان کا موقف پیش کیا اور حقیقت پسندانہ موقف پیش کیاہے ۔ قوم سے غلط بیانی نہیں کرنا چاہتا ۔ پاکستان کے موقف کا دفاع کرنا میری ذمہ داری ہے ۔میں نے پاکستان کا موقف ذمہ داری سے پیش کیا ۔ میں یہ عرض کر سکتا ہوں کہ ملاقات خوشگوار رہی اور اختتام کس بات پر ہوا ؟ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ پومپیو نے مجھے امریکہ کے دورے کی دعوت دی ہے، جب میں اقوام متحدہ میں جاں گا تو اسی موقع پر امریکی وزیر خارجہ سے ایک ملاقات کا ارادہ رکھتاہوں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ اس مثبت ماحول کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ نے اپنی خارجہ پالیسی کا از سر نو جائزہ لیا ہے اور انہوں نے سوچا ہے کہ افغانستان کا جو مستقل حل ہے وہ سیاسی ہے اور یہ وہ موقف ہے جوعمران خان برسوں سے کہہ رہے ہیں کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور ہمیں سیاسی حل کی طرف جانا ہوگا ۔
امریکی وزیر خار جہ نے کہا کہ یہ معاملہ ہمارا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ڈیل کرے گا ۔ اس میں دیگر اداروں کی معاونت بھی ہوگی ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے عندیہ ملا ہے کہ آج امریکہ طالبان کے ساتھ ڈائریکٹ مذاکرات کے لئے تیار ہے ۔ امریکی وزیر خار جہ کی دوسری بات بہت معنی خیز ہے کہ امریکہ افغانستان میں زیادہ عرصہ قیام نہیں رکھنا چاہتا ۔ اس کے لئے واضح ٹائم فریم نہیں دیا جا سکتا لیکن اس میں ایک بہت واضح اشارہ موجودہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے امریکی وزیر خارجہ سے کہاہے کہ موقف سچائی پر مبنی ہونا چاہئے
جب ہم ایک دوسرے کے تحفظات سنیں گے نہیں تو پیش رفت نہیں ہوگی ۔ ہم نے اچھے انداز میں ان کی خواہشات کوسمجھا اور اپنے توقعات بھی پیش کیں۔ میں نے پومپیو کو واضح اشارہ کیا کہ آپ کو اس نئی حکومت کے مینڈیٹ کو سمجھنا چاہئے ۔ یہ ایک نئی حکومت ہے اور اس سے نئی توقعات وابستہ ہیں اور اس سے ایک نئی اپروچ ہوگی۔ اس نئی اپر وچ سے مراد یہ ہے کہ ہم اپنی خارجہ پالیسی کو از سرنو دیکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اپنے ہمسایہ ممالک سے مثبت اپروچ کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہماری حکومت کا ایجنڈا ایک کام پاکستانی کی بہتری ہے ۔
اگر یہ ہمار ا ایجنڈ ہے تو پھر ہماری خارجہ پالیسی کو اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے معاون بننا ہو گا ۔ ا س لئے ہم ایک نئی اپر وچ کے ساتھ آگے بڑھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس لئے میں نے فیصلہ کیاہے کہ میرا پہلا غیر ملکی دورہ افغانستا ن کاہوگا ۔ افغانستان ہمارا پڑوسی ہے ۔ مذہب اور کلچر نے ہم کو جوڑا ہوا ہے ۔ پاکستان اگر ترقی کرے گا تو اس کے فوائد افغانستان کو بھی پہنچیں گے ۔ آج کی ملاقات میں جو گفتگو ہوئی پہلے دفتر خارجہ میں ہوئی اور اس کے بعد وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں ہوئی ، جب پومپیو سے ملاقات ہورہی تھی
اس میں وزیر اعظم عمران خان ، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود تھے ۔ ہم نے مل کر تبادلہ خیال کیا ۔ پہلے ایسا ہوتارہاہے کہ وہ آئے، پہلے یہاں ملے اور پھر جی ایچ کیومیں تشریف لے گئے اور پھر وہاں ملاقاتیں ہوئیں۔ آج مشترکہ ملاقات میں یہ پیغام گیاہے کہ ہم سب ایک پیچ پر ہیں اور پاکستان کا مفاد سب سے مقدم ہے اور ہم مل جل کر آگے چلیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے افغانستان سے مذاکرات میں آگے بڑھناہے تو پاکستان کی مدد درکار ہوگی اور پاکستان اس میں ایک مثبت کردار ادا کرے گا ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے واضح طور پر کہاہے کہ اگر ہم نے مغرب کی جانب دیکھتاہے تو پھر ہم کومشرقی سرحد پر سہولت درکار ہے ۔
کنٹرول لائن پر جو فائرنگ ہوتی ہے اس سے معصوم لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے ڈومور کا کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا، ہم ملے ایک دوسرے کو سنا ، سوچا اور سمجھا اور مستقبل میں مقاصدکاتعین کرنے کے لئے واشنگٹن میں دوسری ملاقات کا فیصلہ کیا ۔ میں نے امریکی وزیر خارجہ سے کہاہے کہ الزام لگانے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا ۔ میں نے جو مثبت چیز محسوس کی وہ یہ ہے کہ پاک امریکہ تعلقات میں تعطل ٹوٹ گیاہے اور آج کی ملاقات نے تعلقات کو نئے سرے سے استوار کرنے کیلئے ماحول بنا دیا ہے ۔ انہوں نے کہ امدادی فنڈ روکنے کا فیصلہ اس حکومت کے وجود میں آنے سے پہلے ہوچکا تھا ۔
اس فیصلے کے تحت یہ رقم روکی گئی ہے ۔ میں نے اس حوالے سے امریکی وزیر خا رجہ سے بات نہ کرنے کا فیصلہ کیاتھا ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا رشتہ لینے دینے کا نہیں اور خوددار قومیں مختلف طرح سے سوچتی ہیں۔ اللہ نے ہم کوایسا ماحول دیاہے کہ ہم اپنے لوگوں کو عزت کی دال روٹی کھلا سکتے ہیں اور اس کی بڑی گنجائش موجود ہے ۔اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ اس حوالے سے بات نہیں کرنی ۔انہوں نے کہا کہ پاک امریکہ تعلقات میں جمی بر پگھل گئی ہے ۔ پاکستان نے مذاکرات سے انکار نہیں کیا لیکن تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے ۔ میں نہ کریڈ ٹ لینا چاہتا ہو ں اور نہ دینا چاہتا ہوں۔ اب آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے ۔
کتنا عرصہ تو پاک امریکہ گفتگو ہی نہیں ہوئی اور آج اس کا آغاز ہواہے ۔ آج کی نشست میں کوئی منفی پہلودکھائی نہیں دیا ۔ ہم نے مغربی سرحد پر کامیاب آپریشن کئے ہیں اور ہمارے عوام نے اس کے لئے قربانیاں دی ہے ۔ ہم بہتر ماحول سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں ۔ ہم نے افغانستا ن سے تعلقات کا ایک نیا ڈھانچا ترتیب دیاہے جو اس سے قبل موجود نہ تھا ۔ بہت سے ایشوزہیں لیکن ان کو حل کرنے کا ایک طریقہ کار وضع ہوچکا ہے لیکن اگر ہمارے ساتھ مشرقی سرحد پر چھیڑ چھاڑ جاری رہی تو پھر ہماری توجہ بٹی رہے گی ۔وزیر خارجہ شا ہ محمو د قریشی کا کہنا تھا کہ ہماری طرف سے امریکہ کوبڑا واضح پیغام گیاہے کہ ہم امن سے رہنا چاہتے ہیں اور اپنے ملک کی غربت کومٹانا چاہتے ہیں ۔