اسلام آباد(آئی این پی) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کم ترقیاتی علاقے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ فاٹا کے22 سو دیہاتوں میں بجلی کا نفراسٹرکچر ہی موجود نہیں جبکہ 80 فیصد علاقوں میں روزانہ 20گھنٹے سے زائد لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے، ۔فاٹا کے اندر صوبائی یا وفاقی حکومت نے آج تک ایک میگا واٹ کا منصوبہ بھی نہیں لگایا ،کمیٹی نے فاٹا میں جاری بجلی کے منصوبوں اور
پاکستان کے تمام کم ترقی یافتہ علاقوں میں بجلی کے مسائل پر تفصیلی رپورٹ اور تجاویز طلب کر لیں، چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ فاٹا کے عوام کو بجلی فراہم کرنا ریاست اور اداروں کا کام ہے، فاٹا اصلاحات کر کے حکمران سمجھتے ہیں کو فاٹا جنت بن گیا تو یہ ان کی بھول ہے،فاٹا کو706میگا واٹ کی بجائے1000میگا واٹ بجلی کی فراہمی کیلئے اقدامات کیے جائیں۔جمعہ کو سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ کی سربراہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کم ترقیاتی علاقے کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں جوائنٹ سیکریٹری وزارت پانی وبجلی اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے نمائندوں نے شرکت کی ۔ قبائلی علاقوں سے متعلق تقسیم کار کمپنی(ٹیسکو) کے نمائندے نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ خیبر ایجنسی میں روزانہ 4سے20گھنٹے لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔ فاٹا کیلئے بجلی کی طلب 706میگا واٹ جبکہ سپلائی صرف220میگا واٹ ہے۔ فاٹاکے80 فیصد علاقوں میں روزانہ 20گھنٹے لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے۔علاقے میں بجلی کی ٹرانسمشن، گرڈ اور فیدڑز کے مسائل عام ہیں۔ فاٹا میں بجلی کی ترسیل کا نظام اتنا ناقص ہے کہ اس کے باوجود تمام فیڈرز اوور لوڈ ہیں اور اگر فاٹاکو طلب کے مطابق 706میگا واٹ بجلی دے بھی دی جائے تو یہ نظام اتنی بجلی کی ترسیل کرنے کے قابل ہی نہیں ہے۔ اس پر کمیٹی کے چئیرمین سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ فاٹا کے عوام کو بجلی فراہم کرنا ریاست اور اداروں کا کام ہے۔
فاٹا اصلاحات کر کے حکمران سمجھتے ہیں کو فاٹا جنت بن گیا تو یہ ان کی بھول ہے۔ ہماری کمیٹی کا مقصد ہے کہ فاٹا میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کو کم کر کے 20سے4گھنٹوں پر لایا جائے۔ فاٹا کو706میگا واٹ کی بجائے1000میگا واٹ بجلی کی فراہمی کیلئے اقدامات کیے جائیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ علاقے میں لائن لاسز 80فیصد میں جس کی وجہ پرانا سسٹم ہے۔
اس سسٹم کی مکمل اپ گریڈیشن کیلئے 9بلین روپے درکار ہیں تاکہ علاقے کی بجلی ٹرانسمشن لائنوں کو این ٹی ڈی سی ایل کے ساتھ منسلک کیا جا سکے۔ اس وقت 2660ملین کی لاگت کے 11منصوبوں پر کام جاری ہے۔ بریفنگ میں مزید بتایا گیا کہ فاٹا کے2200دیہات ایسے ہیں جن میں ابھی تک بجلی پہنچائی نہیں جا سکی۔فاٹا کے اندر صوبائی یا وفاقی حکومت نے آج تک ایک میگا واٹ کا منصوبہ بھی نہیں لگایا
کیونکہ فاٹا حکمرانوں کی ترجیحات میں کبھی شامل ہی نہیں رہا۔ اس پر کمیٹی نے فاٹا میں جاری بجلی کے منصوبوں کی تفصیلات طلب کر لیں ۔ محمد عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ دیکھنا ہو گا کہ 3سال کے اندر فاٹا میں 24گھنٹے بجلی کی ترسیل کیلئے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ جو لوگ جو فاٹا کے انضمام کیلئے اتنے بے چین ہوئے جا رہے تھے وہ اب فاٹا کی ترقی کیلئے بھی کوئی کام کریں۔
فاٹا کو ایک جنگ میں جھونک دیا گیا ہے جس میں 30ہزار لوگ شہید ہو چکے ہیں لیکن حکومت ان کو بجلی کیلئے10ارب روپے نہیں دے سکتی۔کوئٹہ سے متعلق تقسیم کار کمپنی(قیسکو) نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ صوبے میں زراعت بہت ضروری ہے لیکن صوبائی حکومت اس سلسلے میں ہمیں کوئی سبسڈی دینے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ ہمیں ہمارے حصے کی بجلی بھی نہیں دی جا رہی۔
فاٹا اور کوئٹہ کے مسائل ایک جیسے ہیں۔ بلوچستان 1040میگا واٹ بجلی قومی گرڈ سسٹم کو فراہم کر رہا ہے۔ صوبے میں بجلی کی طلب1700میگا واٹ اور سپلائی 1000میگا واٹ ہے۔ صوبائی حکومت نے واجبات کی مد میں قیسکو کو 12بلین روپے ادا کرنے ہیں جو اس نے نہیں کیے۔ بلوچستان میں زراعت وہاں کی عوام کیلئے اہم ہے لیکن 80فیصد سے زائد ٹیوب ویلز کہ روزانہ4گھنٹے سے زیادہ بجلی نہیں دی جاتی
جسسے وہاں پانی کی شدید قلت ہے۔ اس کے علاوہ کمیٹی کو حیدرآباد کی بجلی تقسیم کار کمپنی(حیسکو)، اور پشاور کی بجلی تقسیم کار کمپنی(پیسکو ) نے بھی بریفنگ دی۔ چئیرمین سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ اس ملک کے اندر دو پاکستان ہیں، ایک وہ جہاں سب سہولیات دی جاتی ہیں اور ایک وہ پاکستان جس کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے71فیصد سے زائد
علاقے کم ترقی یافتہ ہیں جہاں سے 90فیصد سے زائد کے زخائر دریافت کیے جاتے ہیں۔اس وجہ سے یہ علاقے دہشتگردوں کا گڑھ بن گئے ہیں جہاں سے دہشتگرد اپنے مزموم مقاصد کیلئے غریب لوگوں کو استعمال بھی کرتے ہیں۔ کمیٹی نے فاٹا اور بلوچستان سمیت پاکستان کے تمام کم ترقی یافتہ علاقوں سے بجلی کے مسائل پر آئندہ تفصیلی رپورٹ اور تجاویز طلب کر لیں