اسلام آباد (آئی این پی) قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے حکومت کو ملکی معاشی پالیسی بنانے کے لئے مل بیٹھنے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپوزیشن یہ پیشکش دے رہی ہے کہ ملک کی معیشت کے لئے ہمیں بیٹھنا چاہئے‘ سیاستدان گندے نہیں ہیں وہ لوگ گندے ہیں جو سیاست کو گندہ کرتے ہیں‘ ٹیکس پر چھوٹ 184 بلین کی دی گئی ہے اور 400بلین کا نیا ٹیکس لگا دیا گیا ہے ۔
ملک میں صرف 7 لاکھ ٹیکس گزار ہیں‘ چیئرمین ایف بی آر کی تعیناتی پارلیمنٹ کے ذریعے ہونی چاہئے‘ اپنا بندہ لگاتے لگاتے پاکستان 24 ٹریلین کا مقروض ہوگیا ہے‘ 2015 میں سگریٹ پر 115 ارب ٹیکس وصول کیا گیا جو 2017 میں 80 ارب ہوگیا‘ 30ارب کا ڈاؤن فال کیوں ہوا‘ ایف بی آر سے کوئی پوچھے گا کہ یہ کیوں کیا؟ سستی روٹی دینے کی پالیسی بہترین تھی وہ ابھی کیوں نہیں دے رہے‘ سستی روٹی پر تو نیب بھی نہیں آئے گا۔ ان خیالات کا اظہار وہ جمعرات کو ایوان میں بجٹ پر بحث کے دوران کررہے تھے۔خورشید شاہ نے کہا کہ بجٹ سارے ملک کا ہوتا ہے پارلیمنٹیرینز پر بھی ذمہ داری ہونی چاہئے افسوس ہورہا ہے تیس سالہ سیاست میں ایسا حال نہیں دیکھا کہ وزیراعظم موجود ہوں مگر ان کے وزراء موجود نہ ہوں۔ کل وزیراعظم نے کہہ دیا کہ پارلیمنٹری پارٹی کو آنا چاہئے ان کی بات بھی نہیں مانتے۔ ٹیکس میں چھوٹ 184 بلین کی دی گئی اور چار سو بلین کا نیا ٹیکس نافذ کیا گیا۔ ایک لیوی ٹیکس لگائی گئی تھی پٹرول پر اس وقت کی اپوزیشن کا دباؤ ہوتا تھا کہ یہ جگا ٹیکس ختم کرو ہم نے کم بھی کیا تھا وہ ٹیکس آج اعلان ہوا کہ ٹیکس فری بجٹ دیا ہے تین سو بلین کا لیوی ٹیکس لگایا گیا ہے ایڈوائز کی تقریر سے سارے غریب لوگوں کا پیٹ بھر گیا جب آپ خود کہتے تھے آج آپ نے تیس روپے اس پر ٹیکس لگا دیا تین فیصد لوگوں پر اس کا اثر نہیں ہوگا ستانوے فیصد لوگوں پر یہ عذاب ڈال دیا آپ نے لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گئی ہائی سپیڈ ڈیزل پر تیس روپے لیوی ٹیلس ڈال دیا ہے۔
لائٹ ڈیزل پر نو سو فیصد ٹیکس لگایا گیا سات لاکھ ٹیکس دینے والے ٹوٹل میں آبادی اکیس کروڑ ہے ہم نے اپنے زمانے میں کوشش کی کہ اپوزیشن کو اس پر پر اعتماد میں لیں اس حکومت نے ایمنسٹی سکیم دی اس کا بھی کوئی پتہ نہیں آپ بڑے لوگوں پر ٹیکس لگانے کے لئے تیار نہیں ہیں غریب آدمی سے تیس سولینے کا کہتے ہیں خورشید شاہ نے کہا کہ بھارت میں چھ کروڑ چھبیس لاکھ ٹیکس دینے والے ہیں۔
ان کی آبادی 1.25 بلین ہے پانچ فیصد یہاں کا ریشو بنا دیں ٹیکس میں اعشاریہ تین فیصد ہیں ہم ایف بی آر بڑا ادارہ ہے ہم نے کہا تھا چیئرمین ایف بی آر کی تعیناتی پارلیمنٹ کے ذریعے ہونی چاہئے اپنا بندہ لگاتے لگاتے پاکستان چوبیس ٹریلین کا مقروض ہوگیا ہے کیوں نہیں پارلیمنٹ سپریم بنتی ہمارے پاس ماہرین بیٹھے ہوئے ہیں بنگلہ دیش تو ہمارا حصہ تھا بنگلہ دیش کے بھی ستائیس لاکھ ٹیکس دینے والے ہیں ان کی سترہ کروڑ آبادی ہے۔
ہم 9لاکھ لاکھ دے رہے ہیں اس بات پر کسی کو جوں تک نہیں رینگتی پاکستان نیوکلیئر پاور ہے ہمارا ٹیکس دینے والا اعشاریہ تین ہے کبھی احسن اقبال نے اس پر لیکچر دیا ہے پارلیمنٹ میں بات ہوتی ہے ہمیں دنیاکے ساتھ دوڑنا پڑے گا ساری چیزیں مل کر بیٹھ کر حل کرنے والی ہیں یہ فیصلہ ہم سب کا ہے اپوزیشن یہ آفر دے رہی ہے کہ آؤ بیٹھو پاکستان کی اکانومی کے لئے ہمیں بیٹھنا چاہئے میں آفر دے رہا ہوں ۔
ساری سیاسی جماعتیں ایسی پالیسی بنائیں جو سارے پاکستان کے لئے ہو ہم ہنستے ہاتھ ملاتے ہیں تو میڈیا کہتا ہے فرینڈلی اپوزیشن ہے اس دن یہاں لڑائیاں ہورہی تھیں۔ خورشید شاہ نے کہا کہ الیکشن میں بھی جائیں تو ایسی ایسی سنائیں گے منشور پر نہیں بات کریں گے کبھی تو ہمیں سوچنا پڑے گا کہ کیا قصور ہے غریبوں نے کہ ان کو روٹی نہیں ملتی‘ سستی روٹیدینے کی بہترین پالیسی دی گئی کیوں ابھی نہیں دے رہے۔
سستی روٹی ختم ہوگئی یہ تو دھوکہ ہوا قوم کے ساتھ۔ آپ سستی روٹی دیں آشیانہ سکیم میں پچاس لاکھ گھر کہاں گئے‘ سستی شہرت ہمیں مار رہی ہے‘ سستی روٹی پر نیب بھی نہیں آئے گا‘ سیاستدان قوم کا باپ ہوتا ہے سیاستدان اور سیاست گند نہیں وہ لوگ گندے ہیں جو سیاست کو گندا کرتے ہیں آپ لوگوں نے آج تک ضیاء الحق کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ انہوں نے کہا کہ ایک کیس پی اے سی میں آیا ہے 2015 میں سگریٹ پر ایک سو پندرہ ارب روپے ٹیکس وصول ہوا اب وہ اسی بلین ہوگیا ہے۔
کہا جارہا ہے 93 بلین پر لے جائیں گے تیس ارب کا ایک دم ڈاؤن فال کیوں ہوا اپنے خزانے کو تیس ارب کا انجکشن لگا دیا ایف بی آر سے کوئی پوچھے گا کہ یہ کیوں کیا کون ذمہ دار ہے اس کا میں یہ فیصلہ پارلیمنٹ میں لے کر آیا ہوں۔ پارلیمنٹ اس کی انکوائری کرے تو ان کو ڈر تو ہوگا۔ 64 فیصد اس ملک میں نوجوان ہیں دس لاکھ ہر سال بے روزگار کی لائن میں آتے ہیں ان کے لئے کوئی بجٹ رکھا گیا ہے؟ ہم نے صوبوں کو این ایف سی دیا ۔
آج آپ این ایف سی دینے کو تیار نہیں 2012 میں ایکسپورٹ کا جی ڈی پی کا ریشو ایک فیصد تھا پانی خطرناک حد تک کم ہورہا ہے اسلام آباد میں بھی چار گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے ہم نے بجلی چوری پر سروے کرایا لاہور کی چوری حیسکو اور پیسکو سے زیادہ ہے لاہور میں 85 فیصد کمرشل کنکشن ہیں ہماری ہاں 85 فیصد ڈومیسٹک کنکشن ہیں اس لئے تینوں چھوٹے صوبوں کو چور کہا جاتا ہے۔
کون سی لوڈشیڈنگ ختم کی ہے حلف پر کہہ دیں۔ بلوچستان میں چالیس فیصد علاقے میں تو بجلی ہے ہی نہیں پانی ملک میں نہیں ہے منشور میں سرکاری اداروں کی بات کی گئی تھی اور وعدہ کیا کہ قومی خزانے کو چار سو ارب کا نقصان ہے۔ آج سترہ بلین کے ذخائر ہیں 2010-11 میں یہ اٹھارہ بلین تھے دو ارب ڈالر باہر چلے گئے پالیسی تبدیل ہوتی رہی پی ایس ڈی پی میں انرجی فار آل میں ایک سو بارہ ارب پچاس کروڑ تھا۔
اس سال زیرو ہے صاف پانیکے پروگرام میں بھی زیرو۔ تین وزراء اعلیٰ نے پی ایس ڈی پی پر واک آؤٹ کیا۔ زرعی سبسڈی آٹھ ارب تھی اس کو پانچ ارب کردیا گیا گندم کی خریداری دو ارب سے ختم کرکے 1.5 کیا ہے جو غیر آئینی بجٹ پیش کیا ہم نے فرض سمجھا کہ اپنا نقطہ نظر دیں اس پر یہ ملک ہمارا ہے ادارے ایک دوسرے کا احترام کریں پارلیمنٹ فیڈریشن کو بچا سکتی ہے اور مضبوط کرسکتی ہے فیڈریشن کمزور ہوگی تو وفاق کمزور ہوگا۔