لاہور ( نیوز ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ پنجاب میں اب ٹو ہارس ریس ہے اور انتخابات میں اب صرف پی ٹی آئی اور (ن) لیگ کا مقابلہ ہو گا ،انتخابات سے قبل بہت سے سیاستدان پی ٹی آئی میں آنا چاہتے ہیں جن میں کچھ بدنام ہیں تو بہت سے اچھے نام بھی ہیں۔بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ لاہور جلسے کا مقصد ایک تو آئندہ انتخابات کے لیے پارٹی کے گیارہ نکات عوام کو بتانے تھے اور دوسرا مقصد اس تاثر کو غلط ثابت کرنا تھا کہ
لوگ عدلیہ کے فیصلوں سے ناخوش ہیں۔یہ (ن) لیگ کا گڑھ ہے اور میں یہاں یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ لوگ خوش ہیں، پہلی مرتبہ ایک طاقتور کو کوئی قانون کے نیچے لے کر آیا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہاں تو رول آف لاء ہی نہیں ہے، یہاں طاقتور کے لیے ایک اور کمزور کے لیے دوسرا قانون ہے۔ اسی لیے اس ریلی کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم ایک پاکستان، ایک جیسا تعلیمی نظام، ایک ہی قانون اور طاقتور اور کمزور کے لیے ایک سا نظام چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم تو 2013ء سے پہلے مسلسل لگے ہوئے تھے لیکن ایسے لوگ پی ٹی آئی میں آتے ہی نہیں تھے، ایسے سیاستدان تب آپ کی جماعت میں آتے ہیں جب وہ یہ سمجھتے ہیں کہ میرا اتنا ووٹ بینک ہے اور پارٹی کے ووٹ بینک سے میں الیکشن جیت سکوں گا، اب تک تو وہ یہ سمجھتے تھے کہ پارٹی کا تو ووٹ بینک ہی نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ 2013ء اور اب میں یہ فرق ہے کہ پنجاب میں یہ ٹو ہارس ریس ہے، (ن) لیگ اور تحریک انصاف کا مقابلہ ہے۔ اس سے پہلے پیپلز پارٹی اور (ق) لیگ بھی تھی۔ ٹو ہارس ریس کی وجہ سے اب ہمارے پاس موقع ہے کہ ہم ایسے سیاستدانوں میں سے انتخاب کریں جن کچھ ایسے ہیں جو بدنام ہیں اور بہت اچھے نام بھی ہیں، لیکن ہم نے انتخاب کرنا ہے اور واقعی لوگ ہمارے پاس آ رہے ہیں۔گذشتہ انتخابات اور آئندہ انتخابات کا تقابل کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اس بار ہمارے پاس تجربہ کار ٹیم ہے،
وہ لوگ ہیں جن کو الیکشن لڑنے کی سمجھ بوجھ ہے۔ اس سے پہلے تو 80 فیصد ایسے لوگ تھے جنہوں نے پہلے انتخاب لڑا ہی نہیں تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ جمہوریت اور آمریت میں فرق ہی یہ ہے کہ جمہوریت میں قیادت جوابدہ ہوتی ہے، آمریت میں نہیں ہوتی۔ تو ہم ان سے جواب مانگتے ہیں اور وہ کہتے ہیں مجھے کیوں نکالا۔ مطلب یہ ہے کہ اگر وہ سمجھے ہیں کہ لوگ بھیڑ بکریاں، بیوقوف ہیں، لوگوں کو آپ پاگل بنا لیں گے کہ میں بڑا مظلوم ہوں۔ وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس سے وہ منڈیلا بن جائیں گے،
تو وہ مارکوس تو بن سکتے ہیں منڈیلا نہیں۔اکتوبر 2011ء اور پھر 29اپریل کے جلسے میں فرق بتاتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ 30اکتوبر 2011ء کی ریلی میں ہماری جماعت پہلی بار ابھر کے سامنے آئے تھی، اور اب کی ریلی میں یہ دکھانا تھا کہ اب یہ ایک بڑی پارٹی بن چکی ہے، یہ اب ایک ملکی پارٹی بن چکی ہے، چاروں صوبوں میں پھیل چکی ہے۔اس سوال پر کہ (ن) لیگ اپنے جلسوں میں اپنے ترقیاتی کاموں کو بیان کرتی ہے اور اسی کا نعرہ لگاتی ہے، پاکستان تحریک انصاف کا نعرہ کیا ہوگا؟۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا اور ان کا بنیادی فرق یہ ہے کہ وہ فیتے کاٹتے رہتے ہیں، کہتے ہیں کہ میٹرو بنا دی،سڑکیں بنا دیں، ہم کہتے ہیں اصل ڈویلپمنٹ انسانوں کی ڈویلپمنٹ ہوتی ہے، تو انسانوں کی ڈویلپمنٹ آپ نہ کریں اور یہ پل بناتے رہیں، ایسے تو کوئی ملک آج تک ترقی نہیں کر سکا۔وہ یہ میگا منصوبے اس لیے نہیں بناتے کہ وہ ملک کی ضرورت ہے بلکہ اس لیے بناتے ہیں کہ اس میں بڑی رشوت ملتی ہے، جس بھی ملک نے ترقی کی ہے اس نے اپنے عوام پر پیسہ خرچ کیا ہے۔