اسلام آباد (این این آئی)سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی کی جانب سے اپنے تین سالہ دور میں 78 احکامات جاری کیے گئے جن میں زیادہ تر احکامات ملکی مفادات سے متعلق اہم معاملات پر کیے گئے۔خیال رہے کہ رضا ربانی کی جانب سے پارلیمان کے ایوان بالا کی تکریم اور خدمات کو بڑھانے کے لیے بڑی تعداد میں اصلاحات متعارف کرائی گئی تھیں۔سینیٹ میں سب سے زیادہ احکامات جاری کرنے کا ریکارڈ اس وقت حبیب اللہ خان کے پاس ہے۔
جو 1973 کے آئین کے بعد سینیٹ کے پہلے چیئرمین تھے تاہم ان کے زیادہ تر فیصلے کاروباری نوعیت کے تھے جو اہمیت کے حامل تھے، تاہم اراکین کی جانب سے ان کے ان فیصلوں پر متعدد سوالات اٹھائے گئے تھے جو انہوں نے ایوان بالا کو چلانے کے حوالے سے دئیے تھے۔خیال رہے کہ چیئرمین سینیٹ کی جانب سے کیے گئے فیصلے ہمیشہ پارلیمان کیلئے اہم تصور کیے جاتے ہیں اور یہ فیصلے ایوان کی حاکمیت، انتظام اور حرمت کی عکاسی کرتے ہیں اس حوالے سے سینیٹ سیکریٹریٹ کے سرکاری ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی) سے تعلق رکھنے والے پہلے چیئرمین سینیٹ حبیب اللہ خان نے اگست 1973 سے جولائی 1977 کے درمیان اپنے 4 سالہ دور میں 279 احکامات جاری کیے اس کے علاوہ ایک اور سابق چیئرمین سینٹ وسیم سجاد نے اپنے 11 سالہ طویل دور میں 193 احکامات جاری کیے ساتھ ہی وہ سینیٹ چیئرمین کی نشست پر سب سے لمبے عرصے تک موجود رہے۔ان کے بعد غلام اسحق خان نے مارچ 1985 سے دسمبر 1988 تک اپنے تقریباً 4 سالہ دور میں 139 احکامات جاری کیے تاہم سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور اقتدار میں رہنے والے مسلم لیگ (ق) کے چیئرمین سینیٹ محمد میاں سومرو کی کارکردگی سب سے بری رہی۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنے والے محمد میاں سومرو نے 2003 سے 2009 میں اپنے 6 سالہ دور میں صرف 22 احکامات جاری کیے۔
محمد میاں سومرو کے بعد 2009 سے 2015 تک پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے فاروق نائیک اور نیئر بخاری نے تین، تین سال اپنی مدت پوری کی اور اس دوران فاروق نائیک نے 10 اور نیئر بخاری نے 33 احکامات جاری کیے تاہم ایک محتاط تجزیے کے مطابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کے جاری 78 احکامات میں سے زیادہ تر قومی معاملات کے مسائل تھے جن میں صوبائی خودمختاری، ملازمتی کوٹے پر عمل درآمد نہ ہونا، غیر فعال مشترکہ مفادات کونسل ، بلدیاتی حکومت کے انتخابات اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ شامل تھا۔
ان احکامات میں رضا ربانی کی جانب سے وزراء اور بیورو کریٹس کو غیر حاضر ہونے یا اپنی متازع باتوں سے ایوان کے استحقاق کو مجروح کرنے پر خبردار بھی کیا گیا تھااس کے ساتھ ساتھ سرکاری گیلری کے باہر ایک رجسٹر بھی رکھا گیا تھا تاکہ وزارتوں اور محکموں کے حکام کی دوران اجلاس حاضری لگائی جاسکے ان اہم فیصلوں کے علاوہ رضا ربانی کی جانب سے پارلیمانی منصوبے میں شفافیت اور وقار بحال کرنے کے تحت سینیٹ میں بڑی تعداد میں اصلاحات متعارف کرائی گئیں ۔
اپنے 3 سالہ دور میں عوامی درخواست کے نظام کو متعارف کرنا رضا ربانی کے اہم اقدامات میں سے ایک ہے جس کے تحت کوئی بھی شخص سینیٹ، کمیٹی اور چیئرمین تک براہ راست رابطہ کرسکتا اور اس نظام کے ذریعے کوئی بھی مسئلہ اجاگر کرسکتا ہے ٗاس کے ساتھ ساتھ ایوان بالا نے پہلی مرتبہ اخلاقی کمیٹی کے ارکان اور آئین کیلئے ضابطہ اخلاق جاری کیا تھا جو انہیں خود احتسابی کے لیے شفاف نظام فراہم کرتا ہے۔سینیٹ کے فیصلوں میں قومی معاملات پر ایوان کو کمیٹی میں تبدیل کرنے کے حوالے سے ترمیم بھی کی گئی جبکہ ملکی تاریخ میں پہلی بار سینیٹ نے پارلیمان کی تمام پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں نمائندگی کی۔