اسلام آباد (این این آئی)سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے ملکی تاریخ میں اب تک معاف کرائے گئے قرضوں کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے رکن رانا محمد حیات کی طرف سے پیش کئے گئے توجہ مبذول نوٹس کو قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے سپرد کرتے ہوئے 15 دنوں میں رپورٹ ایوان میں پیش کر نے کی ہدایت کی ہے جبکہ توجہ مبذول نوٹس کے محرک رانا محمد حیات نے کہاہے کہ قوم کی لوٹی ہوئی اربوں روپے پر مبنی دولت ملک میں واپس لائی جائے‘ یہ بہت بڑی خدمت ہوگی۔ جمعہ کو قومی اسمبلی کے
اجلاس میں رانا محمد حیات کے حکومت کی جانب سے قرضوں کی وصولیابی کے لئے ناکافی قوانین بشمول قرضوں کی معافی سے متعلق توجہ مبذول نوٹس کا جواب دیتے ہوئے وزیر مملکت برائے خزانہ رانا محمد افضل خان نے کہا کہ حکومت کوئی قرضہ معاف نہیں کرتی ٗقرضوں کی ریکوری کے حوالے سے 2001ء کا قانون موجود تھا۔ بنکوں کو اس کے تحت یہ اختیار تھا کہ وہ رہن میں رکھی ہوئی جائیداد فروخت کر سکتی تھی ٗمگر سپریم کورٹ نے یہ ختم کردیا۔ ہماری حکومت نے برسراقتدار آکر بنکوں کا یہ اختیار واپس دلا دیا ہے۔ بینکو ں کو ان کے بورڈز چلاتے ہیں ان کا سارا کاروبار نفع و نقصان پر چلتا ہے۔ بنکوں کی بعض دفعہ سرمایہ کاری ڈوب بھی جاتی ہے۔ بنکوں کے بورڈز کے پاس اختیار ہے کہ وہ کوئی قرضہ ان حالات میں معاف کر سکتا ہے۔ قرضوں کی فراہمی کے حوالے سے بنکوں کی مقرر کردہ اپنی حدود اور طریقہ کار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں کہ قرض لینے والا شخص جان بوجھ کر بنک کا قرضہ ہڑپ کرنے کے لئے حالات پیدا کرتا ہے۔ ایسے لوگ نیب کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں میں 50 ہزار قرض نادہندگان کے مقدمات زیر التواء ہیں۔ اگر ان مقدمات کی فوری پیروی کی جائے تو بنکوں کی رقم واپس آسکتی ہے۔ رانا محمد حیات نے کہا کہ قرضہ معاف کرنے والے خود کو دیوالیہ ڈیکلیئر کرتے ہیں۔ ماضی میں سیاسی حکومتوں نے ساٹھ ساٹھ کروڑ معاف کئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ پرویز مشرف دور میں بھی قرضے معاف ہوئے ٗپارلیمنٹ کو اس حوالے سے قانون سازی کرنی چاہیے۔ یہ توجہ مبذول نوٹس کمیٹی کے سپرد کرکے آٹھ دنوں میں اس پر رپورٹ طلب کی جائے ٗپاکستانی قوم کی اربوں روپے لوٹی ہوئی رقم واپس لانے کے لئے ہمیں کردار ادا کرنا چاہیے ٗ اگر اس اسمبلی نے یہ قانون نہ بنایا تو پوری قوم سے کہتا ہوں کہ آئندہ الیکشن میں کسی کو ووٹ نہ دیا جائے۔
قومی پیسہ واپس لایا جائے۔ جو اس بل کی حمایت نہیں کرے گا قوم اس کو ووٹ نہیں دے گی۔ اگر یہ پیسے واپس نہ آئے تو ہم قومی مجرم ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک قرضے معاف کرانے والوں کی فہرست ایوان میں پیش کی جائے تاکہ کروڑوں کی گاڑیوں میں پھرنے والے لوگوں کو بے نقاب کیا جاسکے۔ یہ ایک بہت بڑی قومی خدمت ہوگی۔ لوٹی ہوئی رقم واپس لانے سے ہر گھر میں پینے کا صاف پانی فراہم کیا جاسکے گا۔ وزیر مملکت برائے خزانہ رانا محمد افضل خان نے کہا کہ یہ معاملہ سینٹ کی کمیٹی میں بھی ہے۔ 1990ء سے معاف کرائے گئے قرضوں کی فہرست سینٹ کی کمیٹی کو فراہم کردی گئی ہے۔ سپیکر نے توجہ مبذول نوٹس قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بھجوا دیا اور ہدایت کی کہ 15 دنوں میں اس پر رپورٹ ایوان میں پیش کی جائے۔ سپیکر نے کہا کہ جن کے پاس قرضوں کے حوالے سے 50 ہزار مقدمات زیر التواء ہیں انہیں بھی کردار ادا کرنا چاہیے۔وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی سینیٹر مشاہد اللہ خان نے اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کے پونے 5 سال پورے ہوگئے ہیں‘ انتخابات میں تین ماہ سے کم وقت رہ گیا ہے۔ ہم نے انتہائی نامساعد حالات میں پانچ سال پورے کئے ہیں۔ حکومت کے پہلے دن سے ہی مختلف حیلے بہانوں سے مسائل کھڑے کئے گئے اور حکومت کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ کبھی دھرنے دیئے گئے اور کبھی کینیڈا سے لوگوں کو بلوایا گیا‘ یہ ساری صورتحال قوم کے سامنے ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں احتساب کا دور ہے اور احتساب ہونا بھی چاہیے لیکن کیا تمام احتساب اور تعزیریں اس پارلیمان کے لئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں قائداعظم محمد جناح‘ لیاقت علی خان اور فاطمہ جناح کا احتساب ہوا لیکن کسی نے غلام محمد خان کا احتساب نہیں کیا۔ ملک کے آئین کو توڑنے والوں کا کوئی احتساب نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس ملک میں جسٹس کیانی اور جسٹس کارنیلس جیسے ججز تھے تو جسٹس منیر بھی عدلیہ میں شامل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ محمد نواز شریف نے اس ملک کو جو کچھ دیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ میرا سوال اس پارلیمان سے یہ ہے کہ گورننس کا اختیار پارلیمان کے پاس ہے یا کسی اور کے پاس ہے۔ آج یہ صورتحال ہے کہ چھوٹی چھوٹی عدالتیں بھی گورننس کے معاملات میں داخل ہو گئی ہیں اور حکم امتناعی دیئے جارہے ہیں۔ پی آئی اے میں حکمت امتناعی کے 400 احکامات موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انتظامی اختیارات پارلیمان اور حکومت کا حصہ ہیں۔ اس کو اگر کوئی دوسرا ادارہ اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرے گا تو اس سے مسائل پیدا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ سزا جرم کے مطابق ملنی چاہیے تاہم اس ملک نے ایسا بھی دیکھا ہے کہ کروڑوں ووٹ لینے والے وزیراعظم کو اس بات پر سزا دی گئی کہ انہوں نے اپنے بیٹے سے تنخواہ کیوں نہیں لی۔ نواز شریف کو نکالنے سے ملک کی معیشت اور اقتصادی ترقی کے سفر کو نقصان پہنچا ہے ٗسٹاک ایکسچینج اور معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب لاکھوں کیسز عدالتوں میں زیر التواء پڑے ہوں اور ایسے میں گورننس کے ایشوز کو اٹھایا جائے تو اسے انصاف نہیں کہا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کیسا انصاف ہے کہ پاناما پیپرز میں 456 افراد کا نام آیا تاہم ان میں سے کسی کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔ کارروائی ہوئی بھی تو اس شخص کے خلاف ہوئی جس کا نام اس میں شامل نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ تمام اداروں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے ٗاگر ایسا نہ کیا گیا تو اس سے مسائل پیدا ہوں گے اور پھر پارلیمان بھی اس بات کا جائزہ لینے پر مجبور ہوگی کہ مختلف اداروں کے حوالے سے جرمنی‘ برطانیہ ‘ فرانس ‘ سپین اور دیگر ممالک میں کیا طریقہ کار اختیار کیا جارہا ہے۔ چھوٹی چھوٹی عدالتوں سے اگر گورننس کو روکا گیا تو اس سے لازمی مسائل پیدا ہوں گے۔ مشاہد اللہ خان نے کہا کہ ججز کے ضابطہ اخلاق میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ وہ کسی اختلافی امور میں نہیں پڑیں گے ٗ جب جج صاحبان اپنا کام نہیں کرتے تو اختلافی امور سامنے آجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فیصلے ایسے ہونے چاہئیں جنہیں عوام تسلیم کرے ٗپاکستان کے عوام نواز شریف کے حوالے سے فیصلے کو تسلیم نہیں کر رہے۔ یہ کیسے فیصلے ہیں کہ ایک شخص پہلے کہتا ہے کہ اب ایسا ہوگا اور ایسا ہوگا اور ایسا ہی ہو جاتا ہے۔ ان فیصلوں کے بارے میں لوگ عجیب عجیب باتیں کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس پارلیمان کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ یہ تمام اداروں کی ماں ہے‘ وہ کہتے ہیں کہ آئین سپریم ہے لیکن یہ آئین بھی پارلیمان بناتی ہے۔ یہاں پارلیمان کی کوئی عزت نہیں اور ان کے فیصلوں کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ نواز شریف کو ہٹا کر پورے ملک کا نقصان کیا گیا ہے۔ ایک ایسی ٹرین کو روکا گیا ہے جس میں تمام مسافر اطمینان سے بیٹھے تھے اور انہیں یقین تھا کہ وہ منزل کی طرف جارہے ہیں۔ اس ٹرین کو منزل کی طرف جانے سے روکا گیا ہے اور اب پوچھا جارہا ہے کہ مسافر پریشان کیوں ہیں۔ آپ نواز شریف کو نہیں روک سکتے۔ وزارت عظمیٰ کے عہدے سے جانے کے بعد بھی ان کی مقبولیت میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس ملک کو چلانا ہے تو پارلیمان‘ عدلیہ اور ایگزیکٹو کو اپنا اپنا کام کرنا ہوگا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا اور پارلیمان کی بجائے کسی اور ادارے نے گورننس اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش جاری رکھی تو اس کے اچھے اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ میں انتہائی ادب سے جج صاحبان سے کہتا ہوں کہ آپ اپنا کام کریں اور پارلیمان اور حکومت کو اپنا کام کرنے دیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر اصلاح احوال اور قانون سازی کی گنجائش موجود رہتی ہے۔ اجلاس کے دور ان پیپلز پارٹی کے رکن نواب یوسف تالپور نے کہا کہ زیریں سندھ کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے‘ حکومت اس معاملے کا سنجیدگی سے نوٹس لے۔ نواب محمد یوسف تالپور نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ ارسا بورڈ کا وفاقی نمائندہ سندھ سے ہوگا‘ سندھ نے نام تین ماہ قبل بھجوائے تھے مگر تاحال اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ میں اپیل بھی نہیں کی گئی۔ پورے سندھ کے لئے صرف 9 ہزار کیوسک پانی جارہا ہے اس میں سے چار ہزار کیوسک فلڈ کینال میں جارہا ہے۔ سندھ کے ساتھ زیادتی نہ کی جائے۔ سپیکر نے وزیر آبی ذخائر کو ہدایت کی کہ وہ نواب محمد یوسف تالپور کے تحفظات سنیں۔اجلاس کے دور ان وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان چوہدری برجیس طاہر نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) پارلیمنٹ کا حصہ ہے۔ ایوان بالا بھی پارلیمنٹ کا حصہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) سب سے بڑی جماعت ہے جسے سینٹ الیکشن میں حصہ لینے سے روک دیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ کہاں سپریم رہ گئی ہے۔ گزشتہ روز ہمارے حمایت یافتہ امیدوار نے پنجاب اسمبلی سے 298 ووٹ لئے مگر ہمارے امیدوار سے شیر کا نشان چھین لیا گیا۔ اسی پارلیمنٹ نے الیکشن قوانین کی منظوری دی۔ پارلیمنٹ سے اتنی نفرت کا اظہار کیوں کیا جارہا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد ججوں کی تعیناتی کے لئے کمیٹی قائم کی گئی مگر ایک حکم کے بعد اس کمیٹی کو بھی کام سے روک دیا گیا۔ بعد ازاں قومی اسمبلی کا اجلاس کورم پورا نہ ہونے کے باعث غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی کردیا گیا۔