اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)آئین کے آرٹیکل62ایف ون کے تحت سزا یافتہ کوئی بھی شخص حکومتی عہدے کیلئے نا اہل قرار دے دیا جاتا ہے مگر یہ نا اہلی تاحیات ہوتی ہے یا اس کی مدت مقرر ہے اس حوالے سے آئین کے آرٹیکل 62ایف ون میں مبہم ہے جس کے تعین اور تشریح کیلئے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ان دنوں کیس زیر سماعت ہے۔ یہ کیس اہمیت اس لئے اختیار کر چکا ہے کیونکہ
سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فیصلے میں آئین کے اسی آرٹیکل کا استعمال کیا گیا ہے جبکہ تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین بھی آئین کے اسی آرٹیکل کی زد میں آئے ۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 62ایف ون مبہم ہے لیکن عدالت کسی مبہم آرٹیکل کو کالعدم کیسے قرار دے سکتی ہے؟آئینی تشریح مشکل کام ہو گا، اس لئے ممکن ہے کہ نا اہلی کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مدت کا تعین کر دیں۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کے ریمارکس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عدالت نا اہلی مدت کا تعین کرنے کا مصمم ارادہ رکھتی ہے ۔کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں پاکستان کے نامور وکلا نے دلائل دئیے۔ ان وکلا کے دلائل میں ایک نقطہ مشترکہ تھا کہ تاحیات نا اہلی نہیں ہونی چاہئے۔اپنے دلائل دیتے ہوئے ملک کی صف اول کی معروف خاتون وکیل مرحوم عاصمہ جہانگیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ووٹرز کیلئے کوئی نا اہلیت نہیں ہوتی،آرٹیکل 62ایف ون میں ابہام ہے، پاکستان میں جو لوگ ہیں انہیں سے کام چلانا ہے ، اتنے اعلیٰ معیار کے لوگ چاہئیں تو باہر سے لے آئیں پاکستان سے ملنا مشکل ہے، یہ واضح نہیں کہ کسی شخص کی شہرت کے اچھے اوربرے ہونے کا تعین کیسے ہو گا؟جو کام پارلیمنٹ نے نہیں کیا وہ عدالت کیسے کر سکتی ہے،سیاسی معاملات پر فیصلہ سازی
پارلیمنٹ کو کرنا چاہئے، آرٹیکل 62ایف ون کے تحت نا اہلی کی مدت زیادہ سے زیادہ مدت 5سال ہونی چاہئے۔ وسیم سجاد کا کہنا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 62ایف ون اہلیت سے متعلق ضرور ہے مگر اس میں سزا نہیں زیادہ سے زیادہ نا اہلی 5سال کی ہونی چاہئے، نواز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑنے جواب داخل کیا اور کہا کہ تاحیات نا اہلی نہیں ہو سکتی، جہاں آئین خاموش ہے وہاں نا اہلی صرف
ایک مرتبہ کیلئے ہے، نااہلی صرف اس الیکشن کیلئے لاگو ہوگی جسے چیلنج کیا گیا ہو کیونکہ پارلیمنٹ نے مدت کا تعین نہیں کیا۔ معروف وکیل کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 62اور 63کو ملا کر پرکھا جائے اور صرف ایک ٹرم کیلئے نااہلی ہونی چاہئےجبکہ نا اہل شخص اگلا ضمنی الیکشن لڑ سکتا ہے کیونکہ توبہ کا تصور موجود ہے، ڈیکلریشن کاغذات نامزدگی کے وقت سے نا اہلی تک موثر ہو گا۔
تحریک انصاف کے نا اہل رہنما جہانگیر خان ترین کے وکیل سکندر بشیر مومند نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نیب قانون اور روپا قانون میں نا اہلی تاحیات نہیں ہے، سنگین جرائم پر بھی الیکشن لڑنے کی قدغن کا تعین ہے، آرٹیکل 62ایف ون کے تحت نا اہلی دائمی نہیں ہوتی۔ کیس ٹو کیس مدت کے تعین کا حامی نہیں ہوں، تاحیات نا اہلی کی قدغن پارلیمنٹ نے نہیں عدالت نے لگائی ہے۔
کیس میں سپریم کورٹ کے معاون معروف وکیل منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ الیکشن لڑنا کسی بھی پاکستانی شہری کا آئینی حق ہے۔ آرٹیکل 62میں الیکشن لڑنے میں رکاوٹ کی بات نہیں۔ اٹھارویں ترمیم میں تاحیات نا اہلی کو ’’ٹائم بائونڈ‘‘کر دیا گیاہے۔ اٹھارویں ترمیم میں پارلیمنٹ کی تاحیات نا اہلی کی بھول بھلیوں سے نکلنے کی نیت واضح ہے پھر بھی دیکھنا ہو گا کہ عدالتی ڈیکلریشن سے
امیدوارپر الیکشن لڑنے کی قدغن کتنے عرصےکی ہے۔