اسلام آباد (آئی این پی) سابق اٹارنی جنرل پاکستان عرفان قادر نے کہا ہے کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ سپریم کورٹ اور (ن)لیگ آمنے سامنے آ کھڑے ہوگئے،دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں،عدالت کو یہ حق کسی نے نہیں دیا کہ وہ غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر کسی پارلیمنٹیرین کو تاعمر کیلئے نا اہل کردے، خدا کو حاضر ناضر جان کر کہتا ہوں کہ پاکستان میں وکالت ختم ہو چکی ،
کوئی وکیل سپریم کورٹ کے آگے قانونی نقطہ اٹھا ہی نہیں سکتا ،اگرکوئی اٹھانے کی جرات کرے گا تواس کا لائسنس معطل کر دیا جائے گا،پانامہ فیصلے میں مکمل طور پر تضادات پر مبنی باتیں ہیں اور مدعہ علیہ کو برا بھلا بھی کہا گیا، اب جو عدلیہ ہے یہ چوہدری عدلیہ کا تسلسل ہے،ان کا ایسے فیصلے کرنے کا طریقہ کار بن گیا ہے، عدلیہ نے وکیلوں میں ہمت ہی نہیں چھوڑی کہ وہ ججز کے سامنے ان کے نا پسندیدہ نکات پر دلائل دیں، میں کورٹ کے سامنے کھڑا ہو کر دلائل دے سکتا ہوں مگر وہ مجھے وہاں ایک منٹ کیلئے بھی برداشت نہیں کریں گے،مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی میں قانون لا سکتی ہے کہ 184(3) میں لوگوں کو سنے بغیر آپ فیصلہ نہیں سنا سکتے، یا بغیر سنے سپریم کورٹ کوئی فیصلہ دے تو ایسے تمام فیصلوں کو کالعدم کرنے کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہو، نیب کیس میں جو ایشوز 184(3)کے دائرے کار میں لائے گئے اور فیصلہ دیا گیا وہ اس دائرے کار میں ہی نہیں آتے، سپریم کورٹ نے اپنے سینکڑوں مقدمات میں لکھا کہ یہ ٹرائل کورٹ نہیں ،اس کیس میں سپریم کورٹ نے پورا ٹرائل کر کے ان کو نا اہل کر دیا، عدلیہ نے چیئرمین نیب کو ہدایت دی کہ ریفرنس فائل کریں مگر قانون میں تو ایسی کوئی بات نہیں جس کے مطابق سپریم کورٹ نیب کو ہدایت دے سکے، اس کیس میں 184(3) کا بے دریغ استعمال کیا گیا، سپریم کورٹ کو لائسنس کیسے مل گیا کہ وہ کسی بھی طرح 184(3)کا استعمال کر کے منتخب رکن کو نا اہل کر دیا جائے، اثاثے چھپانے پر الیکشن کمیشن فیصلہ کر سکتا ہے نہ کہ عدالت خود ہی سارے فیصلے کرے۔وہ منگل کو نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کر رہے تھے۔ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ اگر احتساب عدالت شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کر سکتی ہے تو پھر یہ 400یا500صفحوں کی آبزرویشن لکھنے کی کیا ضرورت تھی،
عدالت کی طرف سے کہا گیا کہ ہم نظرثانی نہیں کریں گے مگر پھر سارے فیصلے کی نظرثانی بھی کرلی گئی، فیصلے میں مکمل طور پر تضادات پر مبنی باتیں ہیں اور مدعہ علیہ کو برا بھلا بھی کہا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی فیصلے پر ریویوپٹیشن کا مقصد ہوتا ہے کہ فیصلے میں غلطیوں کی نشاندہی کی جاتی ہے اور عدالت غلطیوں کا ازالہ کرتی ہے یا پھر غلطیوں کو رد کر دیتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس فیصلے میں کوئی قانونی سقم نہیں ہے، یہ فیصلہ نہ ادھر ہے نہ ادھر ہے، میرے خیال میں وقت آگیا ہے کہ سپریم کورٹ اور (ن)لیگ آمنے سامنے کھڑے ہوئے ہیں، اس وقت دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔سابق اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس فیصلہ کرنے کا اختیار ہے مگر غیر قانونی فیصلے کریں اور 500صفحے لکھ کر گاڈ فادر کا حوالہ بھی دیں، پھر کہیں کہ کوئی عدالت اس کا اثر بھی نہ لے، سپریم کورٹ اپنے فیصلے کی خود ہی نفی بھی کر رہی ہے اور مدعہ علیہ کو برا بھلا بھی کہہ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے گیلانی صاحب کی نا اہلی کے فیصلے پر کہا تھا کہ یہ غیر قانونی فیصلہ ہے، حکومت کے اٹارنی جنرل کو کہنا چاہیے کہ یہ فیصلہ آئین و قانون سے متصادم ہے اور اس کے آئین کی مناسب شقوں کے حوالے دیئے جائیں تو سپریم کورٹ اسے رد نہیں کر سکتی، سپریم کورٹ خود آن ٹرائل ہے اور آئین و قانون سے مبرا نہیں ہے، عرفان قادر نے کہا کہ خدا کو حاضر ناضر جان کر کہتا ہوں کہ پاکستان میں وکالت ختم ہو چکی ہے،کوئی وکیل سپریم کورٹ کے آگے قانونی نقطہ اٹھا ہی نہیں سکتا جو ان کو پسند نہیں آتا، یہ والا سپریم کورٹ اپنی ناپسند کے قانونی نقاط اٹھانے کی اجازت ہی نہیں دیتا اور اگر کوئی اٹھانے کی جرات کرے تو ہو سکتا ہے کہ اس کا لائسنس معطل کر دیا جائے یا نوٹس جاری کر دیا جائے۔ عرفان قادر نے کہا کہ اب جو عدلیہ ہے یہ چوہدری عدلیہ کا تسلسل ہے
،ان کا ایسے فیصلے کرنے کا طریقہ کار بن گیا ہے، پاکستان میں آزاد وکالت ختم ہو چکی ہے، پاکستان میں کوئی وکیل آزادانہ طور پر کیس کو لیڈ نہیں کر سکتا، میں یہ بار بار کہتا رہا ہوں اور بار بار کہوں گا کہ خدا را لوگوں کے دلائل مکمل سنیں،عدلیہ کی جانب سے کہا گیا کہ وکیلوں نے دلائل ہی نہیں دیئے، اس لئے وکیلوں نے دلائل نہیں دیئے کیونکہ عدلیہ نے وکیلوں میں ہمت ہی نہیں چھوڑی، میں کورٹ کے سامنے کھڑا ہو کر دلائل دے سکتا ہوں مگر وہ مجھے وہاں ایک منٹ کیلئے بھی برداشت نہیں کریں گے۔ عرفان قادر نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی میں قانون لا سکتی ہے کہ 184(3) میں لوگوں کو سنے بغیر آپ فیصلہ نہیں سنا سکتے، یا بغیر سنے سپریم کورٹ کوئی فیصلہ دے تو ایسے تمام فیصلوں کو کالعدم کرنے کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہو۔سابق اٹارنی جنرل نے کہا کہ نیب کیس میں جو ایشوز 184(3)کے دائرے کار میں لائے گئے اور فیصلہ دیا گیا وہ اس دائرے کار میں ہی نہیں آتے، بغیر کسی ٹرائل کے ایک پارلیمنٹیرین کو ساری زندگی کیلئے نا اہل کر دیا گیا، سپریم کورٹ نے اپنے سینکڑوں مقدمات میں لکھا ہے کہ یہ ٹرائل کورٹ نہیں ہے اور اس کیس میں سپریم کورٹ نے پورا ٹرائل کر کے ان کو نا اہل کر دیا، عدلیہ نے چیئرمین نیب کو ہدایت دی کہ ریفرنس فال کریں مگر قانون میں تو ایسی کوئی بات نہیں ہے جس کے مطابق سپریم کورٹ نیب کو ہدایت دے سکے، اس کیس میں 184(3) کا بے دریغ استعمال کیا گیا، سپریم کورٹ کو لائسنس کیسے مل گیا کہ وہ کسی بھی طرح 184(3)کا استعمال کر کے منتخب رکن کو نا اہل کر دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اثاثے چھپانے پر الیکشن کمیشن فیصلہ کر سکتا ہے نہ کہ عدالت خود ہی سارے فیصلے کرے۔