کراچی(این این آئی)کراچی کے علاقے لیاقت آباد نمبر9 میں 3منزلہ رہائشی عمارت گر گئی جس کے نتیجے میں 6 افراد جاں بحق،15زخمی ہوگئے جبکہ متعددافراد کے ملبے تلے دبے ہونے کی اطلاعات ہیں، ملحقہ عمارتوں کو خالی کرا لیا گیاہے۔میئروسیم اختر، ڈپٹی میئر ارشدووہرا اور سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خواجہ اظہارالحسن
، چیئرمین ضلع وسطی ریحان ہاشمی اور ڈپٹی کمشنرضلع وسطی فریدالدین مصطفی نے حادثے کی جگہ کا دورہ کر کے امدادی کاموں کا معائنہ کیا۔تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے لیاقت آباد 9 نمبرسریا والی گلی میں واقع 3 منزلہ خستہ حال رہائشی عمارت زوردار دھماکے کے ساتھ نیچے آگری جس کے نتیجے میں باپ بیٹے سمیت 6افراد جاں بحق جبکہ15شدید زخمی ہوگئے، جنہیں ملبے سے نکالنے کے بعد فوری طبی امداد کیلیے عباسی شہید اسپتال منتقل کردیا گیا ہے جہاں ان میں سے 2 افراد کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ امدادی ٹیموں کی مسلسل کوششوں سے 8 گھنٹے بعد ملبے سے ایک شخص کو زندہ نکال لیا گیا ہے، ملبے سے نکالے جانے والا شخص ارشد عمارت کا رہائشی نہیں تھا۔جاں بحق افراد میں 13 سالہ عیان،50سالہ فیصل اور ایک نامعلوم شخص شامل ہے۔ زخمیوں کو عباسی شہید منتقل کر دیا گیا، زخمی ہونیوالوں میں نذر حسین، صفدرعلی، محمدعلی، شعیب، زین، اکبر سمیت دیگرشامل ہیں جبکہ متعدد افراد کے ملبے تلے دبے ہونے کی اطلاع ہے۔عباسی اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹرمحمدانورکے مطابق عباسی اسپتال میں جاں بحق افراد کی تعداد6 ہوگئی جبکہ اب تک15زخمیوں کو اسپتال لایا جاچکا ہے۔ڈاکٹر محمد انور نے بتایا کہ ایک زخمی کوانتہائی نگہداشت کیوارڈ میں منتقل کیا گیا ہے۔علاقہ مکینوں کے مطابق عمارت کافی مخدوش تھی، علاقے میں غیرقانونی تعمیرات جاری ہیں
اور اس رہائشی بلڈنگ میں بھی ناقص میٹریل استعمال کیا گیا تھا جس کے باعث پوری عمارت زمین بوس ہوگئی۔ریسکیو ادارے اور پولیس بڑی تعداد میں جائے حادثہ پر پہنچ گئے اورامدادی کام شروع کیا، عمارت گرنے کی وجہ اس کے مخدوش ہونے کے ساتھ ساتھ برسات کے موسم کو بھی قرار دیا جارہا ہے۔اس عمارت سے ملحقہ دیگر عمارات کو بھی نقصان پہنچا ہے جن کے گرنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے جس کے بعد متصل عمارات کو خالی کرا لیا گیا ہے۔ایک متاثرہ شخص نے بتایا کہ میرا بیٹااہل خانہ کے ساتھ عمارت میں رہائش پذیر تھا،جو اب بھی ملبے تلے دبا ہوا ہے۔ادھرعلاقے کی رہائشی عینی شاہد خاتون نے بتایاکہ گرنے والی عمارت کافی مخدوش تھی،جو رات ڈھائی بجے زوردار آواز سے زمین بوس ہوگئی، جس کی آواز سے ہماری آنکھ کھل گئی۔انہوں نے بتایا کہ اس عمارت میں متعدد خاندان رہائش پذیر تھے، جبکہ اس کے نیچے دکانوں میں ہوٹل بھی قائم تھا۔میئروسیم اختر، ڈپٹی میئر ارشدووہرا اور سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خواجہ اظہارالحسن نے حادثے کی جگہ کا دورہ کر کے امدادی کاموں کا معائنہ کیا۔میڈیا سے بات چیت میں میئر کراچی وسیم اختر نے کہاکہ لیاقت آباد میں جہاں عمارت زمین بوس ہوئی ہے
وہاں گلیاں تنگ ہیں اور امدادی کام کے لیے بڑی مشینری نہیں آسکتی۔انہوں نے کہا کہ عمارتیں تعمیر کرنے والے بالکل آزا دہیں۔عمارتوں کی زائد منزلیں تعمیر کی جا رہی ہیں،بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی زائد منزلوں کی تعمیر روکے۔میڈیا سے بات چیت میں ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما خواجہ اظہارالحسن نے کہاکہ لوگوں کو ریسکیو کرنا اولین ترجیح ہے۔انہوں نے کہاکہ ملبے تلے دبے افراد کی حتمی تعداد نہیں بتائی جاسکتی۔ ڈپٹی کمشنر فریدالدین مصطفی نے میڈیا سے بات چیت میں کہاکہ عمارت کے ملبے سے8افراد کوریسکیو کیاگیاہے،امید ہے کہ ملبے تلے دبے افرادکو نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔انہوں نے کہاکہ مشینری 2گھنٹے لیٹ نہیں تھی،پہلے مینوئل کام کیاجاتاہے،ہیوی مشینری کے استعمال سے مزید جانی نقصان ہوسکتا تھا۔