اسلام آباد (آئی این پی) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ اور حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ نہیں کر رہے ، وزیراعظم نوازشریف کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں ، نئے وزیراعظم کے انتخاب سے جمہوریت اور پارلیمنٹ مضبوط ہوگی ، وفاقی کابینہ میں وزیراعظم کا استعفیٰ زیر بحث آنے کے بعد تو نوازشریف کا اس عہدے پر براجمان رہنے کا کوئی جواز نہیں ،2014
میں خود بازو پکڑ کر نوازشریف کو استعفیٰ دینے سے روکا تھا اس وقت ہمارا اقدام جمہوریت کے مفاد میں تھا ، نوازشریف سانپوں کو آستینوں میں بٹھا کر دودھ پلاتے رہے، انہی سانپوں نے ڈس ڈس کر وزیراعظم کو یہاں تک پہنچادیا،وزیراعظم نوازشریف عدلیہ سے محاز آرائی اور ٹکراؤ چاہتے ہیں انہیں اس پر اکسانے والے ملک اور اداروں کے دشمن ہیں ، آئندہ کا لائحہ عمل متحدہ حزب اختلاف کی وسیع مشاورت سے طے کیا جائے گا ، تحریک انصاف ضرور سڑکوں پر آئے اس کا لیڈر ضرور اس کی قیادت کرے ہم اس سے آگے ہوں گے ،مولانا فضل الرحمان کے علاوہ کوئی بھی اتحادی وزیراعظم نوازشریف سے خوش نہیں ، 6ماہ قبل وزیراعظم نوازشریف کے پاس محفوظ راستہ تھا مگر وہ یہ موقع گنوا چکے ہیں ۔ وہ جمعرات کویہاں زرداری ہاؤس میں پیپلزپارٹی کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے ۔قائدحزب اختلاف نے کہا کہ نوازشریف نے ماضی میں بھی عدلیہ سے محاذ آرائی کی ، چیف جسٹس آف پاکستان پر حملہ کیا ، اس وقت عدلیہ کے کچھ لوگ بھی ان کی جیبوں میں آگئے تھے ، اسلام آباد اور کوئٹہ کے درمیان طیاروں کی پراسرار پروازیں ریکارڈ پر ہیں ، ججز کو بے عزت کیا گیا، عدلیہ پر حملہ ہوا اور اب بھی نوازشریف عدالت سے محاذ آرائی چاہتے ہیں ،آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ یہ 1990کی دہائی نہیں بلکہ 2017ہے ،پوری قوم اداروں کے پیچھے کھڑی ہے ، چھ ماہ قبل نوازشریف کے پاس سیف گارڈ تھے وہ یہ موقع گنوا چکے ہیں ،
آمرانہ ادوار میں بھی جان بوجھ کر اداروں سے ٹکراؤ کی کوشش نہیں کی گئی ، وزراء کی جانب سے پاکستان کے اداروں کو مسلسل بدنام کیا جا رہا ہے جس سے ریاست کو نقصان پہنچا ہے جس کے ازالے کیلئے وقت درکار ہوگا ، ہم نے 2014میں پارلیمنٹ اور جمہوریت کو بچانے کیلئے نوازشریف کا ساتھ دیا اور آج تک ہم پر اس حوالے سے الزام لگ رہا ہے ، جمہوریت کی بحالی کیلئے نوازشریف نے کوئی قربانیاں نہیں دیں اس لئے اسے ان قربانیاں کا علم ہے نہ احساس ہے
،1999میں بھی نوازشریف کی جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی کسی نے وفاداریاں تبدیل کر لیں کسی نے جماعت بنا لی کوئی خاموشی سے بیٹھ گیا ،کسی نے گھر میں فرمائشی نظر بندی اختیار کر لی مگر بڑی بڑی بڑھکیں مارنے والے نوازشریف کی سیاست کو بچانے نہ آئے ۔ خورشید شاہ نے کہا کہ جے آئی ٹی نے اپنا کام مکمل کرلیا، آپ محاذ آرائی کس سے کریں گے؟ میاں صاحب آپ محاذ آرائی کی طاقت نہیں رکھتے، کیا آپ عواماور عدلیہ سے محاذ آرائی کریں گے، ماضی میں عدلیہ کے خلاف آپ نے محاذ آرئی کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم میں جرات نہیں کہ سیاسی جماعتوں سے محاذ آرائی کر سکیں، مسلم لیگ (ن)نے ماضی میں تمام اداروں سے تصادم کی پالیسی اختیار کی، پیپلز پارٹی اپنے اداروں کے پیچھے کھڑی ہے، حکمرانوں نے آئینی اداروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ خورشید شاہ نے کہا کہ عدالت پر حملہ کرنے پر نواز شریف کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی، 2014میں بھی ہم پر فرینڈلی اپوزیشن کا الزام لگا، نواز شریف کے خلاف کارروائی نہ ہونا بدقسمتی کی بات تھی، ہر حکومت کا ایک ترجمان ہوتا ہے مگر اسوقت کے سات آٹھ ترجمان ہیں،
یہ 90کی دہائی نہیں وقت بدل چکا ہے، آپ نے پاکستان کے اداروں کو بدنام کیا، جس سے ریاست کو نقصان پہنچا۔ انہوں نے کہا کہ جب سے جے آئی ٹی بنی ہے تب سے پیپلز پارٹی نے جے آئی ٹی پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا، ہماری خواہش تھی کہ جے آئی ٹی آزادانہ طور پر کام کرے، ہم نے جمہوریت کو بچانے کیلئے قربانیاں دیں، میاں صاحب41برسوں میں آپ نے ملک میں کیا کیا؟ انہوں نے کہا کہ نوازشریف کو ہٹنے دیں بڑے بڑے منصوبوں سے انہوں نے جو جیبیں بھری ہیں سب کچھ سامنے آجائے گا ،
پانامہ سکینڈل میں اس طرح ریکارڈ میں ردوبدل کیا گیا کہ ایسے خط شامل کر لئے گئے جو ایسی سیاہی اور ٹائپ رائٹر سے لکھے گئے تھے جو اس زمانے میں موجود نہیں تھے ۔ جے آئی ٹی سے شہباز شریف سے قطری دولت کا پوچھا تو انہوں نے کہا کہ نوازشریف سے پوچھیں ، نوازشریف نے جے آئی ٹی سے کہا کہ حسین نواز اور حسن نواز کو پتہ ہوگا، کسی وزیراعظم کا ورکنگ ویزے پر دبئی جانا پاکستان کیلئے انتہائی شرمناک ہے اور اس وزیراعظم نے موقف اختیار کیا کہ اسے پاکستان میں مزدوری نہیں ملتی اس لئے وہ لیبر ویزہ پر دبئی جانا چاہتا ہے ،
جمہوریت اور پارلیمنٹ کو بچانے کیلئے ہم 2014میں حکومت کے ساتھ چلے تھے مگر نوازشریف کو اس کا احساس نہیں ہے ، پانامہ وہ پہلا اسکینڈل ہے جو باہر سے آیا ہے یہ کسی ادارے کی بجھوائی گئی فائل یا سوموٹو کی بنیاد پر نہیں ہے ۔ پاکستان کی بگڑتی معیشت کو بچانا اور ان میں زرا برابر بھی حب الوطنی ہے تو اخلاقی جواز بھی یہی ہے کہ یہ مستعفی ہوجائیں ، نوازشریف کا ایک منٹ کے لئے بھی وزیراعظم کے عہدے کو برقرار رکھنے کا جواز نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ کی پہلی کابینہ ہے جس میں وزیراعظم کا استعفیٰ ڈسکس ہوا اور جب کسی کابینہ میں وزیراعظم کا استعفیٰ زیر بحث آجائے تو یہ وزیراعظم کے لئے شرم کی بات ہے ، یہ بہت بڑی تبدیلی ہے ، وزیراعظم کو ایسی صورتحال کے بعد مستعفی ہو جانا چاہیے ،جن آستینوں کے سانپوں کو دودھ پلایا انہوں نے ڈس ڈس کر نوازشریف کو اس مقام پر پہنچایا ہے ، نوازشریف کے ہٹنے سے وزیراعظم کا عہدہ مضبوط ہوگا ،
میں نے خود 2014میں نوازشریف کو بازو سے پکڑ کر استعفیٰ دینے سے روکا تھا ایسا پارلیمنٹ اور جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں کیا۔ نوازشریف کو بچایا جاتا رہا تو اس سے پارلیمنٹ اور جمہوریت کمزور ہوگی انہیں جلد از جلد چلے جانا چاہیے ۔ مولانا فضل الرحمان کے علاوہ کوئی بھی اتحادی وزیراعظم نوازشریف سے خوش نہیں ہے ، مولانا کی سیاست کو سب جانتے ہیں ،فاٹا کے معاملے پر بھی جب وہ جذباتی ہوئے تو میں نے اس وقت بھی مولانا کو کہا کہ وہ جذباتی نہ ہوں آپ کو سب کچھ پتہ ہے ۔
ہمارے دور سے دو گنا زائد قرضے لئے گئے، ایک لاکھ25ہزار 700روپے کا ہر پاکستانی مقروض ہے، مزدور اور کسان بدحالی کا شکار ہیں، چار برسوں میں بے روزگاری میں اضافہ ہوا، میاں صاحب کیا آپ کے وعدے کے مطابق لوڈشیڈنگ ختم ہوئی، صرف وہ پراجیکٹ بنائے گئے جن سے جیبیں بھر لی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ جھوٹی دستاویزات بنائی گئیں، نواز شریف سے قطری خط کا پوچھا گیا تو کیا حسین نواز کو پتہ ہو گا، شرم کا مقام ہے کہ وزیراعظم دبئی سے ورک ویزہ لے، خوشی ہے کہ آج کابینہ میں استعفے کا مسئلہ اٹھا،
کابینہ میں وزیراعظم کے استعفے پر بات ہونا شرم کی بات ہے، میں نے ہمیشہ کہا میاں صاحب آپ کی آستینوں میں سانپ ہیں، انہی سانپوں نے وزیراعظم کو ڈس ڈس کر یہاں پہنچایا، وزیراعظم سانپوں کو آستینوں میں بیٹھا کر دودھ پلاتے رہے۔ خورشید شاہ نے کہا کہ پانامہ کیس پاکستان سے نہیں عالمی منظر پر سامنے آیا، نواز شریف غیور قوم کا وزیراعظم رہنے کا جواز کھو چکے ہیں، نواز شریف کا پارلیمنٹ میں رہنا جمہوریت کو کمزور کرے گا،
جمہوریت کو بچانے کیلئے نواز شریف کو جلد سے جلد جانا ہو گا، وزیراعظم کو جانا چاہیے، انہیں روکنے والے آئینی اداروں کے دشمن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ماڈل ٹاؤن کی جے آئی ٹی بنی، بتائیں اس کا کیاہوا تھا؟ ملک کا ماحول تبدیل ہوا ہے،نواز شریف فوری استعفیٰ دیں کسی دوسرے کو وزیراعظم بنائیں، اسمبلیوں کو اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہیے، جے آئی ٹی کے 6ارکان نے اچھا کام کیا، ہم انہیں سراہتے ہیں۔