کوئٹہ (آن لائن)بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر میں پھیلی ہوئی بیماری نے وبء ا کی شکل اختیار کر لی ہے مرض پر قابو پانے کے لئے صوبائی حکومت نے عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے چار ٹیمیں علاقے میں روانہ کر دی ہیں، کوشش کے باوجود مرض پر قابو نہیں پایا جا سکاضلع گوادر کے مقامی ڈاکٹروں کے بقول، گزشتہ
ڈیڑھ ماہ سے متعدد مریض بخار کے ساتھ گھٹنوں اور کمر درد کی شکایت لے کر ہسپتالوں میں آتے رہے لیکن مقامی سرکاری ضلع ہسپتال سمیت کسی بھی صحت مرکز میں اس بیماری کی تشخیص کے لئے سہولتیں دستیاب نہیں تھیں اس کے بعد، عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے انتیس مریضوں کے خون کے نمونے نیشنل انسٹیٹوٹ آف ہیلتھ، اسلام آباد بھیجوا دیے گئے جن میں سے 22 مریضوں کے خون میں چکن گونیا مرض کے وائرس کی تصدیق ہو گئی محکمہ صحت ضلع گوادر کے اہل کار، ڈاکٹر بشیر علی نے بتایا کہ علاقے کے مریضوں میں مرض کی تصدیق کے بعد پورے ضلع میں ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کا آغاز کیا گیا ہے چکن گونیا ایک وبا کی صورت میں پورے ضلع میں پھیلا ہے یکم اپریل تک پورے ضلع کے سرکاری ہسپتالوں میں 1500 سے زائد مریض رجسٹر ہو چکے ہیں اور ابھی تک آ رہے ہیںچکن گونیا میں بخار، سر درد ہوتا ہے، پورا جسم دکھتا ہے اور الرجی ہوتی ہے بقول ان کے، ڈی
جی آفس سے امدادی سامان پہنچ چکا ہے۔ اسپرے کرنے کے لئے دوائی بھی آچکی ہے ہم نے پانچ روز سے اسپرے بھی شروع کیا ہوا ہے جس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد بھی کم ہوگئی ہے قدرتی وسائل سے مالامال صوبے کے ساحلی ضلع گوادر میں چکن گونیا کے وائرس سے رواں سال جنوری میں لوگ
متاثر ہونا شروع ہوگئے تھے مقامی ڈاکٹروں کے مطابق، ابھی تک گوادر بازار، جیونی، پشوکان سمیت دیگر قریبی علاقوں سے لائے جانے والے مریضوں میں اس وائرس کی علامات ظاہر ہو چکی ہیں کوئٹہ میں صوبائی حکومت کی طرف سے جاری کئے گئے بیان میں بتایا گیا ہے کہ چکن گونیا جان لیوا مرض نہیں،
البتہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے لوگ اس مرض سے بچ سکتے ہیں اختیاطی تدابیر میں اردگرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنا، ذخیزہ کئے گئے پانی کو ڈھانپنا، اپنے گھروں، محلے میں متواتر اسپرے کرنا روشن دانوں، دروازوں میں جالی لگانا شامل ہے پاکستان اور چین اقتصادی راہداری اور دیگر
مدوں میں ہونے والے 50 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے منصوبوں میں سرمایہ کاری سے گوادر کی بندرگاہ کو کلیدی حیثیت حاصل ہے لیکن، وفاقی اور صوبائی حکومتیں اب تک اس ضلع میں پینے کے پانی اور صحت عامہ کے مسائل حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔