کراچی (این این آئی) متحدہ قومی موومنٹ کے مرکزی رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ 18 ویں ترمیم کے بعد این ایف سی ایوارڈ اور مردم شماری پر دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان مک مکا ہوگیا ہے۔ اگر صحیح معنوں میں سندھ میں مردم شماری ہوئی تو پہلی مرتبہ سندھ کا وزیراعلیٰ کوئی وڈیرہ نہیں بلکہ شہری علاقوں سے کسی متوسط طبقے سے ہوگا۔ اگر موجودہ ملکی صورت حال میں سولو فلائٹ اڑائی گئی تو جمہوریت کو کوئی بھی حادثہ پیش آسکتا ہے۔آج کل صحافت میں بڑی خبر کی اہمیت ہے، اہم خبر کی نہیں۔ مجھے دیکھتے ہی صحافیوں کے ایسے چہرے کھل اٹھے جیسے آج فاروق ستار کوئی بڑی خبر دیں گے۔ میں بڑی خبر کے لئے آفتاب احمد کہاں سے لاؤں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو مقامی ہوٹل میں ٹرپل ای کے زیر اہتمام کراچی پریس کلب کے اشتراک سے صحافت کے عالمی دن کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب سے سینیٹر نہال ہاشمی، سینئر صحافی محمود شام، ادریس بختیار، سلمان غنی، کترینہ حسین اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ فاروق ستار نے کہا کہ اس وقت حکومت اور اپوزیشن کے پاس کوئی قومی پالیسی نہیں ہے۔ اگر موجودہ ملکی صورت حال میں سولو فلائٹ اڑائی گئی تو جمہوریت کو کوئی بھی حادثہ پیش آسکتا ہے۔ جوسچ سننا یا دیکھنا نہیں چاہتے وہ تصویر تحریر پر پابندی لگادیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں شفاف مردم شماری ہوئی تو شہری آبادی دیہی آبادی سے زیادہ ہو جائے گی اورپہلی بارسندھ کا وزیراعلی کوئی وڈیرہ نہیں بلکہ شہری علاقوں سے متوسط طبقے کا کوئی نمائندہ ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں بلدیاتی اداروں کوبااختیارنہ بنایا گیا تو پھر18ویں ترمیم کا طیارہ زمین پرلینڈ نہیں کرسکے گا۔ فاروق ستار نے کہا کہ نئے صوبوں کی تشکیل اورشفاف مردم شماری کی طرف قدم نہ بڑھایا گیا تومسائل حل نہیں ہونگے ۔ انہوں نے کہا کہ نئے صوبوں اورمردم شماری جیسے موضوعات میڈیا پر کیوں زیربحث نہیں آتے؟ انہوں نے کہا کہ ملک کی دونوں بڑی جماعتوں میں مک مکا کی وجہ سے این ایف سی ایوارڈ کے اجراء میں تاخیرہورہی ہے۔ پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ نون میں این ایف سی ایوارڈ پرمک مکا ہوچکا ہے۔ اپنے اپنے سیاسی مفادات کی وجہ سے دونوں پارٹیاں این ایف سی ایوارڈ پرسیاست کررہی ہیں۔ ڈاکٹرفاروق ستارنے کہاکہ اس وقت حکومت اوراپوزیشن کے پاس کوئی قومی پالیسی نہیں ہے۔ سب قومی جماعتوں کے پاس علاقائی مینڈیٹ ہے۔ قوموں کے آئینی اورجمہوری حقوق چھینے جارہے ہیں ۔اگرملک میں یہی صورتحال رہی توآئین کوالٹا کرکے چلانا پڑے گا اورآرٹیکل 19کوتبدیل کرنا پڑے گا۔ پاکستان لسانی، سیاسی، مسلکی اور صوبائی اعتبار سے منقسم ہے۔ اب سب کہہ دوکی پالیسی اپناناہوگی۔ انہوں نے کہاکہ نیشنل ایکشن پلان کومانیٹرکرنے کے لیے کوئی نگران کمیٹی نہیں ہے اورنہ ہی حکومت کے پاس کوئی قومی اقتصادی پروگرام ہے۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں میرا سلطان ڈرامہ چل رہا ہے جس کے تحت پنجاب میں سنبل آغاکی حکومت قائم ہے۔ انہوں نے کہا کہ صولت مرزا کے ویڈیو بیان میں انکشافات کے بعد تو اسکو زندہ رکھنا چاہیے تھا۔ جمہوریت خود ہی کمزورہے۔ جمہوریت میں سقم کی نشاندہی نہ کرنا دھوکہ دینے کے مترادف ہے ۔انہوں نے کہا کہ آفتاب احمد کاواقعہ ہوالیکن جمہوری حکومت حرکت میں نہیں آئی،56کارکنان ماورائے عدالت قتل ہوئے کیایہ بڑی خبر نہیں۔ ہمارے 165آفتاب لاپتہ ہیں۔ہم پریشان ہیں کہ 165دیگر آفتاب کو گرہن نہ لگ جائے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) سندھ کے جنرل سیکریٹری سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے میڈیا پر کوئی پابند نہیں لگائی۔ ضابط اخلاق بنانے اور ان پر عمل کا اختیار بھی صحافی برادری اور پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کے حوالے کردیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سیاسی طبقہ بہت کمزور ہے اور صحافت بہت مضبوط ہے۔ پاکستان میں ٹرپل ون اور ٹرپل ای کی بڑی لمبی کہانیاں موجود ہیں۔ ٹرپل ون جب بھی آتی ہے تو سب کچھ ختم ہوجاتا ہے لیکن لولی لنگڑی ہی صحیح جمہوریت آزادی صحافت کے لئے بہتر رہتی ہے ۔ ا نہوں نے کہا کہ بد قسمتی کے ساتھ جھوٹا پروپیگنڈا کرنے والے بھی صحافی کہلواتے ہیں لیکن سچ بتانے والے آزاد صحافت کا آئینہ ہوتے ہیں ۔ صحافی کی تحریر کی حرمت کسی جج کے فیصلہ سے کم نہیں۔محمود شام نے کہا کہ آزادی صحافت کے لیے گرانقدر قربانیاں دی گئیں ۔ آزادی صحافت کسی نے دی نہیں بلکہ برسوں کی جدوجھد کا نتیجہ ہے۔ کترینہ حسین نے کہا کہ پاکستان میں صحافت بالکل آزاد نہیں ہے۔ ہم یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ ایڈورٹائزمنٹ میں سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اینکر ہونے کی وجہ سے ہم زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ ایک لوز ٹاک کے باعث ادارے میں کام کرنے والے دیگر افراد غیر محفوظ ہوجاتے ہیں۔ ہم خوف کے ماحول میں رہ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا انڈسٹری بن گئی ہے اور یہ مالکان کی ذمہ داری ہے کہ اپنے ورکرز کی حفاظت کریں۔ حکومت کا کام صرف صحافی کی حفاظت کرنا نہیں بلکہ پوری قوم کا تحفظ کرنا ہے۔ اس طرح صنعتوں کے مالکان اپنے ورکرز کا تحفظ کرتے ہیں، اسی طرح میڈیا انڈسٹری بھی اپنے ورکروں کا تحفظ کرے۔ اس موقع پر ادریس بختار نے کہا کہ ہم آزادی صحافت کی بات کرتے ہیں بلکہ صحافیوں کی آزادی کی بات نہیں کرتے۔ یہ آزادی مالکان کی حد تک رہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ویج بورڈ کے حوالے سے اخبارات کو ا شتہارات پر پابند کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ صحافیوں کی باقاعدگی سے تربیت کرنی چاہئے۔ بی بی سی اپنے رپورٹر کی ہر تین سال بعد تربیت کرتی ہے۔ آج کی صورت حال ماضی کے مقابلے میں بہت خراب ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل دو صحافیوں کو اٹھالیا گیا۔ ان پر تشدد کیا گیا، کوئی خبر نہیں چلی بلکہ دھمکی دی گئی کہ اگر آپ بیرون ملک چلے گئے تو آپ کے اہل خانہ کہاں جائیں گے۔ سلمان غنی نے کہا کہ ہمیں آزادی صحافت کے دن عہد کرنا چاہئے اور اپنا محاسبہ کرنا چاہئے کہ آزادی صحافت کے حوالے سے کتنے مواقع مل چکے ہیں۔ آزادی صحافت کا یہ مقصد ہونا چاہئے کہ قومی مفادات کا تحفظ اور عوام کے مسائل کے حل کے لئے جمہوریت اور جمہوری عمل ہونا چاہئے۔ آج ہم آزادی صحافت کے حوالے سے 147 ویں نمبر پر ہیں۔ ایتھوپیا جیسے ممالک سے بھی پیچھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں ظالمانہ قوانین بنائے جارہے ہیں۔سینئر صحافی سجاد میر نے کہا کہ تمام چینلز اپنے اپنے اینگل سے بات کرتے ہیں۔ سی پی این ای واحد ادارہ ہے جو آزادی صحافت پر بات کرسکتا ہے، لیکن سی پی این ای بھی اے پی این ایس کا ادارہ بن گئی ہے۔ آج کل ایڈیٹرز کا انسٹی ٹیوٹ ختم ہورہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اہم صحافی کی آزادی کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحافت پر چند لوگ قابض ہیں جو اپنی مرضی کے لوگ منتخب کرکے اپنا کام نکلواتے ہیں۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ 8کارپوریشنز میڈیا پر قابض ہیں پھر 5 ہوئیں اور اب تین رہ گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کل پاکستان میں کچھ مالکان پر وفاقی حکومت اور کچھ پر ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔ کچھ مالکان بیرونی فنڈز حاصل کررہے ہیں۔ پہلے صحافت میں گنے چنے لوگ بلیک میلر ہوتے تھے، اب الیکٹرونک میڈیاآزادی صحافت کے نام پر متعدد لوگ ملیں گے۔ ہمیں مالکان کی تربیت ضرورت ہے۔ ہمیں پتہ لگنا چاہئے کہ ہم کس کے غلام ہیں۔ کراچی میں صحافت ایک مشکل کام ہے۔ آپ اپنی مرضی کی خبر نہیں چلا سکتے۔ مظہر عباس نے کہا کہ ہم جب صحافت میں آئے تھے تو لوگ ہمیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ پہلے اخبارات میں دو کالم خبر کی اہمیت ہوتی تھی۔ حکمران طبقہ ڈرتا تھا۔ اس میں لکھے ہوئے الفاظ چبھتے تھے۔ اب سینکڑوں چینل ہیں، ہر ایک کا اپنا اپنا ایجنڈا ہے اور اسی لئے حکمران طبقہ بھی ڈرتا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے میڈیا ہاؤسز بھی ہیں اگر کل مارشل لاء لگ جائے تو اس کے حق میں بولیں گے۔ ہمارے لوگ بیروزگار ہوتے جارہے ہیں۔ ہم احتجاج بھی نہیں کرسکتے کیونکہ ہم خود تقسیم ہوگئے ہیں۔ ہم ایک آواز نہیں بن سکے ہیں۔ لوگ آپ کی باتوں پر اپنے خیالات بناتے ہیں۔ لیکن ہم خبر کا فالو اپ نہیں رکھتے۔ مظہر عباس نے کہا کہ جے آئی ٹیز کے ذریعے بہت سے ملزمان کو بڑا مجرم دکھایا جاتا ہے لیکن جب وہ عدالت میں جاتے ہیں تو قانونی طور پر ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر صحافیوں کے خلاف ایک مہم چلائی گئی اور لسٹیں جاری کی گئیں کہ آپ نے پلاٹ لئے ہیں۔ ہم سپریم کورٹ گئے اور سپریم کورٹ سے کہا کہ آپ جو فیصلہ کریں گے ہمیں منظور ہے۔ سپریم کورٹ نے وزارت اطلاعات سے سیکریٹ فنڈ کی تفصیلات منگوائیں جس کے بعد سیکریٹ فنڈ ختم کردیئے گئے۔ موجودہ دور میں جسٹس ناصر اسلم زاہد اور سابق وفاقی وزیر جاوید جبار نے میڈیا کے حوالے سے رپورٹ پیش کی ہے جس میں تمام میڈیا کے حوالے سے بہترین نشاندہی کی گئی ہے۔