جمعرات‬‮ ، 23 جنوری‬‮ 2025 

مصری شہری نے ایگزیکٹ سے جعلی ڈگری کیلئے 31 لاکھ روپے سے زائد لٹادیئے

datetime 13  فروری‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) ایک مصری شہری محمد صابری مصطفیٰ یوسف جس کےبارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تعلیم پر وقت ضائع کئے بغیر پی ایچ ڈی اسکالر بن گیا۔ اس نے اپنی ماسٹرز اور پی ایچ ڈی ڈگریوں ریسرچ جرنلز میں پہلے سے تیار آرٹیکلز کی اشاعت اور حاصل شدہ ڈگریوں کی امریکی محکمہ خارجہ کے ساتھ ساتھ مصر اور کویت کے سفارت خانوں سے تصدیق پر31لاکھ 27ہزار روپے ادا کئے۔ اسے برج خلیفہ دبئی میں کنونشن میں اہل خانہ سمیت مدعو کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا لیکن اس کے خواب اس وقت چکنا چور ہوگئے جب یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی کہ ڈگریاں جاری کرنے والی جامعات، ریسرچ جرنلز اور سفارت خانے کراچی میں ایگزیکٹ کی ایک عمارت کے تحت پیسہ کمانے یا بنانے کے کاروبار کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔جنگ رپورٹر عمر چیمہ کے مطابق یوسف کی اس حوالے سے آواز اٹھانے کی دھمکی رائیگاں گئی۔ اس کی گفتگو کا تحریری ریکارڈجو ایف آئی اے نے ضبط اور عدالت میں پیش کیا۔ اس میں کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ فیس کی منتقلی کا ثبوت بھی شامل ہے۔ ایک ملازم کے عدالت میں بیان کے مطابق آن لائن ایجوکیشن کی آڑ میں ماہانہ آمدنی 65لاکھ ڈالرز تک تھی۔جمعرات کو جب ایف آئی اے نے وزیر داخلہ کے سامنے ایگز یکٹ کے فراڈگری کیس میں قابل کارروائی شہادتیں اپنی تحویل میں ہونے کا دعویٰ کیا، اس میں ہر لفظ ثبوت کے ساتھ پیش کیا گیا۔ صرف مصرف شہری ہی واحد شخص نہیں جس سے دھوکہ کیا گیابلکہ اس شیطانی چکر کا شکار افراد کی فہرست بڑی طویل ہے کہ پہلے ڈگری کے لئے ادائیگی کی جائے، تب منظور شدہ اداروں سے توثیق اور سفارت خانوں سے انکی تصدیق کرائی جائے۔ اس عمل میں کسی فائدے کے بغیر بھاری رقوم کی ادائیگی ملوث ہوتی ہے۔ متاثرین میں پاکستانی بھی شامل ہیں۔ ان میں سے بعض نے عدالت کے روبرو اعتراف بھی کیا کہ انہیں ایگزیکٹ کی بدولت گائنا کولوجی میں ایم بی بی ایس کی ڈگری ملی، ایک ناخواندہ روحانی معالج ہیلتھ سائنسز میں گریجویشن کیا اور کمپیوٹر ٹیکنیشن انجینئر بن گیا۔ اب یہی لوگ عدالتوں میں اپنے بیانات کے ذریعہ ایگزیکٹ کو بددعائیں دے رہے ہیں۔ گزشتہ سماعتوں کے دوران عدالتوں میں جو ٹیلی فونک گفتگو پیش کی گئی، اس نے اسکینڈل کی وسعت اور حجم کو پہلے ہی کھول کر رکھ دیا کہ کس طرح سے متاثرین کو ڈگریوں کے حصول کا لالچ دیا گیا۔ اس کے بعد ڈگری ہولڈرز کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔ ایگزیکٹ کے اہلکار مختلف سفارت خانوں کے افسران کے بھیس میں انہیں ڈگریوں کی توثیق کرانے کے لئے کہتے ہیں یہ کام بھی ایگزیکٹ کے تحت مختلف قیمتیں لگاکر انجام دیا جاتا رہا۔ یہ باتیں ریکارڈ کی گئی کالز کے نتیجے میں سامنے آئیں جن کا مستند ہونا فورنسک تجزیوں کے ذریعہ طے کیا گیا۔ حاصل کردہ تفصیلات کو ایگزیکٹ کے ایک انٹرنل آڈیٹر رحیم صدر الدین کے بیان سے مزید تقویت ملی جو150ملازمین پر مشتمل ایک شعبہ کا سربراہ تھا۔ جس کا کام کلائنٹس (متاثرین) اور ایگزیکٹ کے سیلز ایجنٹس (جعلی جامعات، اداروں اور سفارتخانوں کے نمائندوں کے بھیس میں) کے درمیان کوالٹی ایشورنس کے لئے گفتگو کو مانیٹر کرنا رہا۔ عدالت میں داخل ایک بیان میں رحیم صدر الدین نے کہا کہ اس نے50سے زائد بار شعیب احمد شیخ سمیت ایگزیکٹ انتظامیہ سے سیلز ایجنٹس کے ذریعہ طلبہ کو بلیک میل کئے جانے پر بات کی جواب میں اسے خاموش رہنے کے لئے کہا گیا کہ جو کچھ ہورہا وہ ان ہی کی نگرانی میں کیا جارہا ہے۔ اس نے مزید ان اقدامات کی وضاحت کی کہ جب17 مئی2015 کو اسکینڈل کی خبر نیویارک ٹائمز میں شائع ہوئی تو19مئی کو شعیب احمد شیخ کی زیر صدارت اجلاس میں ڈگریوں کی شپمنٹ 5دنوں کے لئے روک لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ دو ہفتوں کے لئے تصدیق کا عمل اور امریکی طلبائ سے فیسوں کی وصولی بھی روک دی گئی۔ رحیم صدر الدین نے مزید انکشاف کیا کہ بلیک میلنگ اور طلباءسے بھتوں کی مد میں وصول رقوم گلوبل اکیڈمک مولیوشنز ایل ایل سی کے اکاﺅنٹ نمبر 898063612362کے تحت بینک آف امریکا (سوئفٹ کو ڈبی اور ایف اے یو ایس3 این) فلوریڈا۔ امریکا میں جمع کرائی جاتی۔ دو کاروباری یونٹس کے ذریعہ آن لائن ایجوکیشن کی ماہانہ اوسط فروخت60سے65لاکھ ڈالرز مالیت کی تھی۔ یہ بات رحیم صدر الدین نے عدالت کو بتائی۔ کلائنٹس اور سیلز ایجنٹس کے درمیان ٹیلیفونک بات چیت کے دوران اس نے طریقہ واردات کے بارے میں جو بات نوٹ کی کہ بعض سیلز ایجنٹس ذیشان احمد(آن لائن ایجوکیشن کے ایک کاروباری یونٹ کا سربراہ) کی کمان میں طلباءکو بلیک میل اور دھمکی آمیز کالز کرتے۔ وہ خود کو سفارت خانوں اور منظور شدہ اداروں کا عملہ ظاہر کرکے مزید ادائیگیوں کے لئے انہیں بلیک میل کرتے۔ وہ انہیں ڈگریاں جعلی ہونے کی دھمکیا ں دیتے، انہیں مقدمات کے اندراج اور اپنے ممالک واپس بھیج دیئے جانے کے خوف سے ڈرایا جاتا۔ اس نے مزید بیان ریکارڈ کرایا کہ کلائنٹس کو جاری کردہ ڈگریاں ان ہی کی کمپنی کی جاری کردہ ہوتی ہیں۔ طلباءسے کہا جاتا ہے کہ وہ معاملہ حل کرنے کیلئے ڈگری دینے والی یونیورسٹی سے رابطہ کریں، وہ یونیورسٹی کے نمائندے کو کال کرتے جو درحقیقت ایگزیکٹ ہی کا سیلز ایجنٹ ہوتا ہے۔ وہ انہیں سفارت خانوں اور منظور شدہ اداروں سے معاملہ حل کرانے کیلئے چند دن انتظار کا کہتا ہے جو خود ایگزیکٹ کے تحت ہی چلتے ہیں۔ چند دنوں بعد سیلز ایجنٹ طلباء سے دوبارہ رابطہ کرکے کہتا ہے کہ ان کا معاملہ حل کرادیا گیا ہے جس کے لئے انہیں اضافی ادائیگی کرنی ہوگی۔ جو ہزاروں ڈالرز میں ہوتی۔ جس کی ادائیگی کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



اسی طرح


بھارت میں من موہن سنگھ کو حادثاتی وزیراعظم کہا…

ریکوڈک میں ایک دن

بلوچی زبان میں ریک ریتلی مٹی کو کہتے ہیں اور ڈک…

خود کو کبھی سیلف میڈنہ کہیں

’’اس کی وجہ تکبر ہے‘ ہر کام یاب انسان اپنی کام…

20 جنوری کے بعد

کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب…

افغانستان کے حالات

آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…

پہلے درویش کا قصہ

پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…