اسلام آباد (نیوز ڈیسک) معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں قدم جمانے سے پہلے ہی داعش کے نیٹ ورک کو سویلین اور ملٹری انٹیلی جنس ایجنسیوں کے حالیہ مشترکہ آپریشن کی مدد سے زبردست نقصان پہنچا دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ ہفتوں اور مہینوں میں بڑے کریک ڈاﺅن کے دوران داعش کے درجنوں کارکنوں کو ملک کے مختلف حصوں سے گرفتار کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کیلئے سنگین چیلنج بننے سے پہلے ہی یہ تنظیم شدید نقصانات سے دوچار ہوگئی ہے۔جنگ رپورٹر انصار عباسی کے مطابق اگرچہ امریکی صدر بارک اوباما اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے اپنے حالیہ بیانات میں خدشات ظاہر کیے تھے کہ پاکستان داعش کی سرگرمیوں کا مرکز بن سکتا ہے لیکن ملک میں حکام اس بات کی تردید کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ داعش کو پاکستان میں منظم ہونے نہیں دیا گیا۔ داعش یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ملکوں میں دہشت گردی کی کئی سرگرمیوں میں ملوث ہے لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ کراچی کے علاقے صفورا گوٹھ میں ہونے والے ہلاکتوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس واقعہ میں داعش ملوث تھی لیکن وہ کوئی دہشت گرد واقعہ نہیں کر سکتی اور اس کا نیٹ ورک دیگر ملکوں کے مقابلے میں یہاں کمزور ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ انٹیلی جنس بیورو اور ملٹری انٹیلی جنس نے پاکستان میں منظم ہونے سے قتل ہی داعش کے نیٹ ورک کو توڑ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کہا جاتا ہے کہ وزیر داخلہ اور ساتھ ہی دفتر خارجہ یہ اصرار کرتے رہے کہ پاکستان میں داعش کی منظم موجودگی نہیں ہے۔ انٹیلی جنس بیورو کے چیف آفتاب سلطان نے بدھ کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور داخلہ میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ داعش (اسلامک اسٹیٹ) کے نیٹ ورک کو پاکستان سے ختم کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، لشکرِ جھنگوی اور سپاہِ صحابہ پاکستان میں داعش کی حامی تنظیمیں ہیں۔ میڈیا کو دفتر خارجہ اور انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ کے بیانات میں اختلاف نظر آتا ہے لیکن سیکورٹی ایجنسیوں کے ذرائع کا اصرار ہے کہ پاکستان میں داعش کی منظم موجودگی نہیں ہے اور اس تنظیم کے درجنوں لوگوں کو اپنا نیٹ ورک چلانے سے پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا ہے۔سیکورٹی ایجنسیوں کے ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف ضرب عضب اور سویلین اور ملٹری قیادت کی سربراہی میں جاری ا?پریشن کے دوران تحریک طالبان پاکستان سمیت مختلف دہشت گرد گروپس کو انتہائی کمزور کر دیا گیا ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کی روک تھام اوردہشت گرد نیٹ ورکس بشمول ٹی ٹی پی، لشکر جھنگوی وغیرہ کے خلاف غیر معمولی اقدامات کیے ہیں لیکن اسی وقت امریکی صدر بارک اوباما کے اس بیان کو اشتعال انگیز سمجھا گیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ملک عدم استحکام کا شکار رہیں گے اور ان کیلئے دہائیوں تک غیر یقینی صورتحال رہے گی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے داعش اور القاعدہ کو امریکا کیلئے بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔ کچھ ہی دن قبل اسی طرح کا ایک بیان اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے دیاتھا۔ انہوں نے پاکستان سمیت کچھ ملکوں کے نام لیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ داعش سے جڑے گروپس کے اضافی حملوں کیلئے پہلے سے تیار رہیں۔ تاہم، امریکی صدر اور نہ ہی اقوام متحدہ کےسیکریٹری جنرل نے پاکستان کو کوئی ایسی معلومات فراہم کیں جن کی بنیاد پر انہوں نے اس طرح کے بیانات جاری کیے اور سرکاری ذرائع نے اس طرح کے بیانات کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے اوباما کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر نے پاکستان اور افغانستان میں عدم استحکام کے حوالے سے جو کچھ کہا وہ ان کی پیشگوئی ہے اور ان کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ بعد میں سابق وزیر داخلہ عبدالرحمٰن ملک نے صدر اوباما کو خط لکھا اور اس میں طنزیہ تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ آپ جیسی ساکھ کے حامل کسی بھی شخص کا بیان مصدقہ معلومات کی بنیاد پر ہونا چاہئے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں خطرات دہا ئیو ں تک برقرار رہیں گے۔ رحمٰن ملک نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ بین الاقوامی برادری بالخصوص دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اتحادی ایسی کوئی حکمت عملی مرتب نہ کر سکے جس سے دہشت گردی کو زبرد ست نقصان پہنچایا جا سکے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں دہشت گرد بڑھتے جا رہے ہیں اور ہمیں خطرات سے دوچار کر رہے ہیں