2013 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے اس حلقے سے سردار ایاز صادق 93,389 ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے تھے اور ان کے مدِ مقابل تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان 84,517 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ اس طرح عمران خان 8872 ووٹوں کے فرق سے ہارے تھے۔حیران کن طور پر 11 اکتوبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 4 لاکھ 88 ہزار 529 ہے۔ جبکہ 2013 کے انتخابات میں اسی حلقے میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 3 لاکھ 26 ہزار 28 تھی۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد میں یہ زبردست اضافہ تحریکِ انصاف کو فائدہ دیتا ہے یا حکمران جماعت کو۔2013سے قبل ہونے والے انتخابات پر نظر ڈالی جائے تو پتہ لگتا ہے کہ 2008 کے انتخابات میں اس حلقے سے سردار ایاز صادق 79,506 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے عمر مصباح الرحمان دوسرے نمبر پر تھے۔ تحریک انصاف نے 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے ٹیک اوور کے بعد 2002 میں ہونے والے انتخابات میں بھی اس حلقے سے سردار ایاز صادق ہی کامیاب ہوئے تھے۔ جبکہ تحریک انصاف کے عمران خان 18,638 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر تھے۔قومی اسمبلی کے اس حلقے میں صوبائی اسمبلی کے دو حلقے پی پی 147 اور 148 آتے ہیں جن میں ایک سیٹ پی پی 148 سے تحریک انصاف کے میاں اسلم اقبال جیتنے میں کامیاب رہے۔ جبکہ 11اکتوبر کے ضمنی انتخاب میں پی پی 147 کی سیٹ پر مقابلہ نواز لیگ کے محسن لطیف اور تحریک انصاف کے شعیب صدیقی کے درمیان ہوگا۔ پی پی 147 سے سردار ایاز صادق بھی 2008 کے انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے۔ تاہم ایاز صادق کے سیٹ چھوڑنے کے بعد ہونے والے ضمنی انتخاب میں علیم خان جیت کر پرویز الہٰی کی کابینہ کا حصّہ بنے تھے۔ضمنی انتخابات کے لیے چلائی جانے والی انتخابی مہم میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اپنے چنے گئے امیدوار علیم خان کی مہم چلانے کود پڑے ہیں جبکہ سردار ایاز صادق کی انتخابی مہم شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز چلا رہے ہیں اور ان کا ساتھ خواجہ سعد رفیق، عابد شیر علی اور طلال چوہدری دے رہے ہیں۔ماضی قریب میں ہونے والے انتخابی نتائج اور موجودہ سیاسی پس منظر پر نظر ڈالی جائے تو لگتا ہے کہ سردار ایاز صادق جیتنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ مگر عمران خان کے دعووں کے مطابق اہلیانِ لاہور ان ضمنی انتخابات میں ووٹ تحریک انصاف کو دیں گے۔ویسے تو ہر ضمنی انتخاب سے پہلے عمران خان دعویٰ کرتے ہیں کہ تحریک انصاف ہی جیتے گی مگر انتخابی حقائق بتاتے ہیں کہ 2013 کے بعد ہونے والے چھ میں سے پانچ ضمنی انتخابات میں کامیابی نواز لیگ کو ملی ہے۔اس حلقے میں پیپلز پارٹی کی مضبوط سیاسی تاریخ دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ 1990 کے بعد ہونے والے انتخابات میں یا تو پیپلز پارٹی کے ووٹرز نے ووٹ دینا چھوڑ دیا ہے یا پھر وہ تحریک انصاف کو اپنے ووٹوں کا حقدار سمجھنے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے ووٹرز کی پسند اب تحریک انصاف ہے، جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کا امیدوار مضبوط انتخابی مہم چلانے میں بھی ناکام ہے۔ضمنی انتخابات کے نتائج کا سوچتے ہوئے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ قومی اسمبلی کے اس حلقے میں آنے والی دو صوبائی سیٹوں میں سے ایک سیٹ تحریک انصاف کے میاں اسلم اقبال 54893 ووٹ لے کر جیت چکے ہیں۔کراچی کے حلقہ این اے 246 میں ہونے والے ضمنی انتخابات کی طرح اس بار بھی سارا میڈیا حلقہ این اے 122 میں ہونے والے ضمنی انتخابات کی تفصیلی کوریج پر لگ گیا ہے۔ 11 اکتوبر کو اوکاڑہ کے حلقہ این اے 144 میں بھی ضمنی انتخاب ہو رہا ہے مگر وہاں پر ذرائع ابلاغ کی کوئی توجہ نہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس حلقے میں دونوں بڑی جماعتوں کی ذاتی دلچسپی ہے، اور دھاندلی کیس کا فیصلہ ہونے کے بعد اب یہ حلقہ ایاز صادق اور عمران خان دونوں ہی کے لیے زندگی، موت اور عزت کا مسئلہ بن چکا ہے۔اب 11اکتوبرکوعوام کوایک بارپھرانتظارہے کہ اب عمران خان کی جماعت تحریک انصا ف کامیاب ہوتی ہے یاکہ پاکستان مسلم لیگ(ن) جبکہ میڈیارپورٹس کے مطابق پیپلزپارٹی جوکہ اس حلقے میں کئی بارالیکشن لڑچکی ہے اس باراس کی اعلی قیادت نے کوئی دلچسپی نہیں لی ہے ۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں