چلاس:پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں ایک بچے کی ہلاکت کا الزام جنات پر لگانے کے بعد پولیس نے روزنامچے میں جنات کے خلاف رپورٹ درج کردی ہے۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ بچے کے والدین نے پولیس کو بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ 20 ستمبر کو چلاس کے گاؤں سومال سے جنات نے ان کے پانچ سالہ بیٹے احمد کو اس وقت اغوا کیا جب وہ اپنی ماں کے ساتھ قریبی چشمے سے پانی لانے جارہا تھا۔تاہم اغوا کے دو ہفتے بعد بچے کی لاش جنگل سے ملی۔بچے کے والدین نے علاقے کیعاملوں سے رابطہ کیا اور دیگر شہروں سے بھی عاملوں کو بلوایا گیا تاہم عاملوں کا کہنا تھا کہ بچہ جنات کے قبضے میں ہے۔عاملوں نے مسلسل ایک ہفتے تک بچے کو بازیاب کرانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوئے لیکن دو ہفتے بعد بچے کی لاش قریبی جنگل سے ملی۔پولیس کا کہنا ہے کہ بچے کے ہاتھ کٹے ہوئے تھے اور جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔پولیس کا کہنا ہے کہ وہ دفعہ 174 کے تحت کارروائی کر رہے ہیں اور موت کی وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔کیس کے تفتیشی افسر اے ایس ائی مجیب الرحمان کا کہنا ہے کہ بچے کے والدین قتل کا الزام جنات پر لگا رہے ہیں تاہم جنات کے خلاف ایف آئی ار درج نہیں کرسکتے۔ڈی آئی جی دیامر اور پولیس خصوصی ٹیم کی قیادت میں منگل کو بچے کی قبر کشائی کی گئی اور لاش کا پوسٹ مارٹم کرایاگیا۔ پولیس کے مطابق میڈیکل رپورٹ آنے میں چار سے پانچ دن لگ سکتے ہیں۔علاقے کے مقامی صحافیوں نے بتایا کہ پولیس نے روزنامچے میں جنات کے خلاف رپورٹ درج کی ہے۔ تاہم پولیس اس حوالے سے بات کرنے سے گریزاں ہے۔دوسری جانب میڈیا رپورٹس کے مطابق گلگت بلتستان کے صوبائی وزیر خوراک جانباز خان نے مقامی صحافیوں کو بتایا کہ بچے کو جنات نے ہی قتل کیا ہے اور ان کے سامنے جنات کئی بچوں کو اٹھا کر لے گئے ہیں اور بعد میں ان کو چھوڑ دیا۔
صوبائی وزیر خوراک کے مطابق یہ جنات غیر مسلم تھے اس لیے ان پر عملیات کا کوئی اثر نہیں ہوا اور انھوں نے بچے کو قتل کردیا۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے جانباز خان کا اپنے بیان کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’بیان چلا ہے تو چلا ہوگا مجھے کچھ علم نہیں ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔میں گلگت میں ہوں آپ چلاس اپنے نمائندے بھیجیں اور بچے کے والدین سے پوچھیں۔‘مقامی لوگو ں کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی اس علاقے میں اس قسم کے واقعات پیش آتے رہے ہیں اور ’جنات نے کئی بچوں اور بچیوں کو نقصان پہنچایا‘