کراچی (نیوز ڈیسک) امریکی جریدے کا کہنا ہے کہ سائبر حملے عالمی خطرات پیدا کر سکتے ہیں ، معمولی علاقائی تنازعات دنیا میںایک بڑی حقیقی جنگ میں بدل سکتے ہیں۔اس وقت زندگی کو سب سے زیادہ خطرہ سائبر دہشت گردی سے ہے، کئی دہشت گرد گروپ ایسے منظم سائبر حملے کرسکتے ہیں جو زندگی کو نقصان دے سکتے ہیں۔جنگ رپورٹر رفیق مانگٹ کے مطابق سرحد پار گولوں کی بجائے جنگیں آن لائن منتقل ہو گئیں ہیں۔ آج کل چھوٹے پیمانے کی جنگیں اور سرحدی تناز عا ت آن لائن اور ریڈار کے تحت لڑی جا رہی ہیں، لیکن یہ تنازعات دنیا میںحقیقی جنگوں کے خطرات میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ امریکا کے موقر بزنس جریدے ”فورچیون “ نے لکھا ہے کہ سائبر حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے گزشتہ برس بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک بھرپور ہیکنگ وار شروع ہوگئی۔ دونوں اطراف سے تعلق رکھنے والے گروپو ں نے مخالف تنظیموں کی ویب سائٹس کوڈی فیس کیا۔ بھارت کی پریس کلب (پی سی ا?ئی) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی ویب سائیٹس ہیک ہونے کے ساتھ دونو ں ممالک کے درمیان یہ ایک مختصر سائبر جنگ تھی۔ رواں برس کے اوائل میں جاری ایک رپورٹ کے مطابق سائبر حملوں کے ذریعے کارپوریٹ ڈیٹا کی چوری کے حجم میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ چین پر ان حملوں کا شبہ کیا جا رہا ہے جو نہ صرف سرکاری ایجنسیوں بلکہ کارپوریٹ اداروں اور یہاں تک کہ صحافیوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ ان میںحملوں کا آغاز ابتدائی طور پر 2005ئ میں ہوا جس میں بھارت، انڈونیشیا، ملائیشیا، نیپال، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ اور ویت نام سمیت تمام جنوب مشرقی ایشیا بھر کے کاروبار کو نشانہ بنا یا گیا۔ سائبر حملے اب تو کئی ممالک میں طاقت کے اظہار کاذریعہ بن چکے ہیں۔ ایڈورڈ اسنوڈن کی طرف سے افشا کی گئی دستاویزات سے واضح ہوتا ہے کہ کئی ممالک ایک دوسرے کی ہروقت جاسوسی کرتے نظر آتے ہیں، ان میں تحادی ممالک بھی شامل ہیں۔ بڑی عالمی طاقتوں کے درمیان سرد جنگ کبھی بھی گھمبیر صورتحال میں تبدیل نہیں ہوئی۔ ایشیا بھر میں سرحدی تنازعات اور دیگر علاقائی چھوٹی جنگوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ جس کی واضح مثال ہے کہ بھارت اور پاکستان کئی سرحدی تنازعات میں الجھے ہیں۔ چین بھی بھارت اور روس کے ساتھ اسی طرح کی جنگوں میںمصروف ہے۔ ٹھنڈے مزاج کے سربراہان ابھی غالب ہیں جس کی وجہ سے اہم تنازعات سے گریز کیا گیا۔ لیکن اکیسویں صدی میں چھوٹے تنازعات جاری ہیں۔سائبر جنگیں روایتی چھوٹی سیاسی جنگوں کی توسیعی شکل اختیار کرچکی ہیں۔ رینڈ کار پو ر یشن کے سینئر مینجمنٹ سائنسدان کا کہنا ہے کہ ہم ان حملو ں کو معمولی سمجھ رہے ہیں۔ ایسے حملے نسبتاً آسان ہیں، نقصان کے لحاظ سے بھی بھاری قیمت ادا نہیں کرنی پڑتی ہے۔ زیادہ تر کیسز میں اس سے جسمانی یا اقتصادی نقصان نہیں ہوتا لیکن ان کی وجہ سے بڑے پیمانے پر پریشانی یا تباہی ہوتی ہے اس کی مثال سونی پر مبینہ طور پر شمالی کوریا کے سائبر حملے نے بڑے پیمانے پر پریشانی پیدا کی تاہم اس سے اقتصادی نقصان تو زیادہ نہیں ہوا۔ تاہم ایسے کئی حملوں سے نقصان دہ نتائج بھی سامنے آئے۔ مارچ 2013 میں ایک بینک اور تین جنوبی کوریا ٹی وی اسٹیشنز بھی متاثرین میں شامل ہیںجن پر شمالی کوریا کی طرف سے حملے کئے جانے کا الزام تھا۔ان حملوں میں کمپیوٹر ٹرمینلز،اے ٹی ایمز اور موبائل ادائیگی کی سروسز کو بند کردیا گیا۔مجموعی طور پر جنوبی کوریا میں پچاس ہزار سرورز آف لائن کردیے گئے جس میں 8سو ملین ڈالر کا نقصان ہوا۔ اسی طرح کے حملے 2009 اور 2011 میں بھی کیے گئے۔دسمبر 2014 میں، شمالی کوریا پرجنوبی کوریا کے کوریا ہائیڈرو اور نیوکلیئر پاورلمیٹڈ پر سائبر حملے کا الزام عائد کیا گیا تھا اس سے اقتصادی نقصان تو نہیں ہوا لیکن اس سے پلانٹ کےبلیو پرنٹس اور ٹیسٹ ڈیٹا حاصل کرنے کی کوشش کی گئی