کرا کر مدارس کو قومی دھارے میں لانے پر فوکس کیا گیا تھا، اس وقت حکومتی حکام اور مدارس کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی قائم کی گئی تھی تاکہ پارلیمنٹ سے منظوری کے لئے متفقہ نکات کی روشنی میں قانون کا مسودہ تیار کیا جا سکے، مگر کمیٹی کا ایک بھی اجلاس نہیں ہو سکا تھا، جہاں سے سابقہ عمل رکا تھا، وہاں سے جوڑنے کی بجائے نیا تجربہ، نیا آغاز کیا گیا اور سابقہ اصلاحات اور اخراجات کو نظرانداز کر دیا گیا۔ مدارس کے رہنما اپنے ویژن کو وسیع کرنے کے لئے ایک امریکی این جی او اور برطانوی دفتر خارجہ کے تعاون سے امریکا، برطانیہ اور ترکی کے دوروں پر گئے تھے تاکہ بیرون ملک اپنے مشاہدے کو ملک میں رائج کر سکیں، حقائق کے لئے، مدارس میں اصلاحات کا ڈول پہلی بار مسلم لیگ ن کی حکومت نے 1997ءمیں ڈالا تھا، حیران کن طور پر سابقہ ن لیگی حکومت نے مدارس کو قومی دھارے میں لانے پر فوکس کیا تھا مگر 2015ء میں یہ نکتہ غائب ہے،9/11سانحہ کے بعد مشرف حکومت نے مدارس پر پھر توجہ مرکوز کی پاکستان مدارس ایجوکیشن بورڈ آرڈیننس 2001ء جاری کیا، جس کے تحت مدارس کو انے اپنے بورڈ ختم کر کے سرکاری بورڈ میں رجسٹریشن کرانا تھی مگر مدارس کے رہنمائوں نے اس کو مسترد کر دیا تھا، ملک میں مدارس کے پانچ بورڈز ہیں، دیوبند مسلک کا وفاق المدارس العربیہ، بریلوی مسلک کا تنظیم المدارس، جماعت اسلامی کے تحت رابطہ المدارس، اہل تشیع کا وفاق المدارس شیعہ اور اہل حدیث کا مدارس السلفیہ، پہلا بورڈ سب سے بڑا ہے۔ اس کے ساتھ تقریباً 70 فیصد مدارس کا الحاق ہے، دوسرے کے ساتھ 15فیصد اور باقی تین کے ساتھ پانچ فیصد کا الحاق ہے، ایک اور کوشش لندن میں7/7کی بمباری کے بعد ہوئی کیونکہ اس میں ملوث افراد کی مبینہ طور پر تربیت مدرسہ میں ہوئی تھی، دیگر اقدامات کے علاوہ سوسائٹی ایکٹ 1860ء میں ترمیم کر کے مدارس کی لازمی رجسٹریشن کی شق کو شامل کیا گیا، مدارس کے لئے فنڈز کے سالانہ آڈٹ اور ڈپٹی رجسٹرار کے پاس رپورٹ جمع کرانے کو لازمی قرار دیا گیا، تب تقریباً 12000مدارس کی رجسٹریشن ہوئی جبکہ کل 30 ہزار مدارس تھے، رجسٹرڈ مدارس کی تازہ تعداد 26000ہے، مکتب (جہاں رہائش کے بغیر تعلیم دی جاتی ہے) کی تعداد اندازاً 75000ہے، بعدازاں مدارس کے رہنمائوں کو مزید آگہی کے لئے دیگر ملکوں میں بھیجا گیا، واشنگٹن میں قائم این جی او انٹر نیشنل سینٹر فار ریلیجن اینڈ ڈپلومیسی نے امریکا اور ترکی کے دوروں کے لئے سرمایہ فراہم کیا، سابقہ سیکرٹری مذہبی امور وکیل احمد خان ان وفود کی سربراہی کرتے تھے، امریکا میں ان مذہبی رہنمائوں نے چرچ لیڈرز اور ارکان کانگریس سے ملاقاتیں کی تھیں، ترکی میں انہیں امام خطیب اسکولوں میں لے جایا گیا تھا یاد رہے کہ 7اکتوبر 2010کو اس وقت کے وزیر داخلہ رحمن ملک اور پانچ مدارس بورڈز کے سربراہان نےمفاہمت کی یادداشت پر دستخط کئے تھے، اب ن لیگ کی حکومت نے ماضی کے تجربات سے سیکھنے کی بجائے نیا آغاز کیا ہے وہاں سے شروع نہیں کیا جہاں سے سلسلہ ٹوٹا تھا۔