کراچی(نیوزڈیسک)سابق صدرِ پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کونسل کو ملک کے آئین میں مستقل جگہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ کسی بحران کے موقع پر اُس سے ایک باقاعدہ اور مناسب ادارے کی حیثیت سے کام لیا جاسکے۔یہ بات انہوں نے امریکی ایوارڈ یافتہ میگزین ساو ¿تھ ایشیا کے جون 2015 ءکے شمارے میں شائع کردہ ایک خصوصی انٹرویو میں کہی۔اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان میں فوج کو اقتدار سنبھالنے سے روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں، جنرل (ر) مشرف نے کہا ”اس کے لیے ضروری ہے کہ سویلین حکومتیں عوام کی فلاح اور ریاست کی ترقی کو یقینی بنائیں اور بد انتظامی کے خلاف آئینی جانچ پڑتال کے طریقے نافذ ہوں۔ ایسے حالات میں فوج اپنے اصل کام یعنی خارجی و داخلی خطرات سے تحفّظ کی فراہمی کی طرف توجہ مرکوز کر سکتی ہے۔“ سابق صدر نے کہا کہ این ایس سی کے مسلسل فعال رہنے اور قومی مسائل پر بحث کرنے کے لیے باقاعدہ بنیادوں پر ملنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ، لیکن بحران کے حالات میں وہ مزید مفید کردار ادا کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ این ایس سی کے علاوہ فوج کو اپنا کردار آئین کے عین مطابق ادا کرنا چاہیے اور سیکشن 245 کے تحت جب اُنھیں سویلین حکومت کی مدد کے لیے طلب کیا جائے تو وہ آئین کے مطابق عمل کریں۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیا ریاستی معاملات کے ضمن میں فقط سویلین حکومت پر اعتماد کیا جانا چاہیے، پرویز مشرف نے کہا کہ ایسا اُس صورت میں کیا جاسکتا ہے جب سویلین حکومت اپنا کام پورا کرے۔ اُن کی رائے میں پاکستانی عوام نے ملک کی تاریخ میں بدقسمتی سے کسی بھی سویلین حکومت کو اخلاص کے ساتھ کام کرتے ہوئے نہیں دیکھا، اور اس وجہ سے اُن کا اعتماد متاثر ہوا۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا سیاستدان ہمیشہ بحران کے وقت فوج کی طرف رجوع کرتے ہیں، پرویز مشرف نے کہا کہ ایسا ہمیشہ نہیں بلکہ کبھی کبھی ہوتا ہے۔ اصل میں بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ فوج کئی معاملات سے بہتر انداز میں نمٹ سکتی ہے۔اُن کے مطابق یہ رجحان 90 ءکی دہائی میں زیادہ رائج تھا۔ اُن کے خیال میں ماضی میں لوگوں کی بڑی تعداد نے متعدد مُلکی بحرانوں بشمول سیاسی بحرانوں میں فوج کی طرف رجوع کیا