اسلام آباد (نیوزڈیسک) سابق چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی اور آئی ایس آئی کے ڈی جی جنرل (ر) احسان الحق نے کہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان سٹریٹیجک تعلقات کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کی فوج کو سعودی عرب بھیجنا چاہیے تھی ، اگر پاکستان کی فوج وہاں موجود ہوتی تو تمام خلیجی ریاستوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ پاکستان ہمارے ساتھ ہے ، ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں بہتری کی کوششیں ہونی چاہئیں ، افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری خوش آئند ہے ، سابق افغان صدر حامد کرزئی کے ان الزامات میں کوئی صداقت نہیں کہ پاکستان نے مشرف دور میں طالبان کے معاملے میں ڈبل گیم کی ، اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کے بعد مجھے ذاتی طور پر بہت شرمندگی ہوئی تاہم یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی کو اس بات کا قطعاً علم نہیں تھا ۔ نجی ٹیلی ویژن کو دیئے گئے انٹرویو میں جنرل (ر) احسان الحق نے کہا کہ ہم سعودی عرب کےلئے فوج بھیج سکتے تھے لیکن اکثر لوگوں نے سمجھا کہ اگر فوج بھیجی تو وہ یمن میں داخل ہو جائے گی لیکن ایسی کوئی بات نہیں تھی ، کچھ لوگوں نے سمجھا کہ اگر فوج بھیجی تو شیعہ سنی فسادات شروع ہو جائیں گے لیکن یہ فسادات تو گزشتہ 30 سالوں سے جاری ہیں ، اب ہم نے فوج سعودی عرب نہیں بھیجی اور ہمارا دونوں ممالک کے درمیان امن قائم کرنے میں کوئی کردار نہیں رہا ، اگر ہماری فوج وہاں ہوتی تو خلیجی ریاستوں کو بھی یہ احساس ہونا تھا کہ پاکستان ہمارے ساتھ ہے اور یہ پاک سعودیہ تعلقات مضبوط کرنے کا اہم راستہ تھا ، ہمارا وہاں موجود ہونا ضروری تھا ۔ انہوں نے کہ اکہ اب اگر خلیجی ممالک میں مزید حالات خراب ہوتے ہیں تو اس وقت وہاں پر موجود 20 لاکھ کے قریب پاکستانی واپس آئیں گے جس سے بہت نقصان ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ اب ہمیں سعودی عرب اور خلیجی ممالک سے تعلقات مضبوط کرنے کےلئے مل بیٹھ کر سمجھوتہ کرنا چاہیے اور ایران کے ساتھ بھی بیٹھ کر سب معاملات کو سامنے رکھ کر ایران سعودی عرب کے معاملات میں بہتری لائی جائے اور اپنا کردار ادا کرنا چاہیے جو بھی مشکلات ہیں انہیں حل کرنا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے بہت خوشی ہے کہ ہم افغانستان کے بہت قریب آگئے ہیں اس سے ہمارے تعلقات پھر سے اچھے ہوگئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری سیاسی جماعتوں کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جو بھی حکومت آتی ہے وہ پہلے والی حکومت کو ناکارہ کہتی ہے اور سوچتی ہے کہ جو کام پہلے نہیں کرسکے وہ ہم کرلیں گے ۔ اب ہمیں افغانستان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے چاہئیں کیونکہ اس کے بغیر ہمارے مسائل حل نہیں ہوسکتے ، انہوں نے کہا کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف جو کہتے ہیں کہ ہم نے خود طالبان کو پالا ، ان کا یہ بیان غلط ہے ، انہیں کسی نے غلط بریف کیا ہے ، ہم کبھی بھی افغانستان میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی نہ ہی کبھی ڈبل گیم کی ہے ، ہماری ہر بار ترجیح رہی ہے کہ افغانستان میں امن رہے اور وہ مستحکم ہو جائے ۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ نائن الیون کے بعد پاکستان بہت ہی گھمبیر مسائل سے گزر رہا ہے ۔ اس وقت دنیا کی تمام افواج پاکستان کے سر پر آ کر بیٹھ گئیں اور ایسے حالات تھے کہ کسی بھی وقت کوئی بھی ملک پاکستان پر حملہ کرسکتا تھا ان حالات کے باوجود 2002ءمیں الیکشن کرائے گئے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس معاملے کو روکنا چاہیے تھا لیکن ہمیں اس کی خبر ہی نہیں تھی اور پاکستان کا کوئی بھی ادارہ اسامہ بن لادن کو پناہ نہیں دے سکتا تھا ۔