سیاست میں فوج کی مداخلت ایک حقیقت لیکن ملک کیلئے نقصان دہ،آئی ایس آئی کے سابق چیف اسد درانی کا انٹرویو میں اعتراف

2  دسمبر‬‮  2020

اسلام آباد(آن لائن) آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی نے کہا ہے کہ سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت ایک حقیقت اور ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔بی بی سی کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو کے دوران آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کا کہنا تھا کہ لوگ فوج کے سیاسی معاملات میں مداخلت پر خفا ہیں،اس مداخلت سے لوگ ناراض ہیں،عمران خان کا سب سے

بڑا مسئلہ انکے بارے میں یہ تاثر ہے کہ یہ خود نہیں آئے، یہ تو خاکی بوجھ لے کر آئے ہیں۔ چھ لوگ تاریخ سے نہیں سیکھتے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی تاریخ بنائیں گے۔ فوج کی مداخلت تو ہے،یہ ہونی چاہیے یا نہیں یہ وہ بحث ہے جو آج تک کسی سمت نہیں بیٹھی ہے۔ تجربہ بھی یہی ہے کہ جب بھی فوج نے مداخلت کی تو دیکھنے میں آیا کہ جن سیاسی جماعتوں کو باہر رکھنے کی کوشش کی گئی وہ واپس آ گئیں، ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو باہر رکھنا تھا، وہ واپس آ گئے اور منتخب ہو گئے۔ ضیا الحق کے بعدبے نظیر بھٹو تشریف لائیں، مشرف جیسے ہی نکلے ہیں تو جن دو جماعتوں کو ان کا خیال تھا باہر رکھنا چاہیے، وہ دونوں جماعتیں الیکشن لڑ کر منتخب ہو گئیں تویہ مداخلت نقصان دہ ہے، جب سیاسی انجینئرنگ ہوتی ہے۔ اسد درانی نے مزید کہا کہ جب یہ فوج نہیں ہوتی تب بھی لگتا ہے کہ ان کا کوئی کردار ہے۔ آئی ایس آئی ایک ایسا ادارہ ہے جو بنیادی طور پر غیر ملکی انٹیلی جنس کے لیے ہے۔ کیونکہ اس میں زیادہ تر فوج کے لوگ شامل ہیں اور حاضر سروس افسران ہیں۔پی ڈی ایم کی تحریک سے متعلق انھوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کا تجربہ اس فیلڈ میں ہم سب سے زیادہ ہے۔ وہ دھرنا کرنے کے لیے آئی ایس آئی کی بات کیوں سنیں گے۔ عام تاثر یہی ہے کہ آئی ایس آئی کے بغیر دھرنا نہیں ہو سکتا، جیسے اس سے پہلے کہا جاتا تھا کہ امریکہ کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا‘پاکستان کی حالیہ صورتحال کے

سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اندرونی مسائل کا سامنا ہے اور مسائل ہمیشہ رہتے ہیں، ایک بات تو پکی ہے کہ سب سے زیادہ خطرناک مسئلہ ہوتا بھی اندر ہی ہے،اس وقت سیاسی طور پر کچھ لوگ ناراض ہیں، کچھ علاقے جیسا کہ بلوچستان میں بدامنی ہے۔ سیاسی طور پر اجنبیت کا سامنا ہے، انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت واقعی خراب ہے، یہ نہیں کہ معیشت ٹھیک ہو جائے تو سب کچھ

ٹھیک ہو جاتا ہے لیکن جب حکومت پر اعتبار نہ ہو اور کہا جائے کہ یہ تو فوج لے کر آئی ہے اور یہ کیسا لیڈر ہے جو ہر چیز پر کہتا ہے کہ جی میں یوٹرن لوں گا تو لیڈر بن جاؤں گا ورنہ نہیں بنوں گا، ہر چیز پر واپس ہو جاتا ہے، اس طرح کی حکومت پر اعتبار تو نہیں رہتا، اب یہ ہوا ہے کہ یہ تمام تر مسائل ایک ساتھ اکٹھا ہو گئے ہیں۔ ملک کی اندرونی سلامتی کو لاحق خطرات اس وقت ملک کے

لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں جن سے نمٹنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ پاکستان کے لئے انڈیا اب اتنا بڑا خطرہ نہیں ہے، پانچ اگست 2019 کو انڈیا کی طرف سے کشمیر کے الحاق کی کوشش کے بعد انڈیا کے لیے خود اتنے بڑے مسائل کھڑے ہو گئے ہیں کہ وہ اب ہمارے لیے خطرہ نہیں رہا،کشمیر پر جو کچھ انڈیا نے کیا اس کے بعد مشرقی سرحد پر ہمارے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے، کبھی اگر

وہ بالا کوٹ جیسا کچھ کرنا چاہیں تو اس کے لیے تیاری کر رکھیں ورنہ وہ اپنی چیزوں میں اتنے زیادہ پھنسے ہوئے ہیں کہ انھیں پاکستان کی اتنی فکر نہیں ہے،ملک کو لاحق اندرونی چیلنجز کی تفصیل بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ملک کو تین طرح کے چینلجز کا سامنا ہے جن میں معیشت، سیاسی عدم استحکام اور سماجی ہم آہنگی بڑے مسائل ہیں، کیونکہ یہ سب اکٹھے ہو گئے ہیں، انہوں نے کہا

کہ وہ کہتے ہیں کہ انڈیا کو تو ہم نے سنبھال لیا ہے،بھارت کے متنازع شہریت کے قانون کے بعد تو مسلمانوں کے علاوہ باقی اچھے لوگ بھی بدظن ہو گئے ہیں۔ تو ان حالات میں آپ مجھ سے پوچھیں کہ میں کیا کروں گا؟ تو میں کہوں گا اب آرام سے بیٹھ جائیں۔ کیونکہ تاحال مشرقی سرحد سے آپ کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ایران سے تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے اسد درانی نے کہا کہ

’ایران میں انقلاب کے بعد ہمارے ایران سے بننے والے تعلقات امریکہ کی مرضی کے برخلاف تھے۔ایران ہمارا پڑوسی ملک ہے، ہم نے تو رابطہ رکھنا ہے۔‘’1950 کی دہائی میں جب ہمارے چین کے ساتھ تعلقات بنے تو امریکہ کافی ناراض تھا۔ ایک دن ہمارے پاس آیا اور کہا کہ ہماری بھی بات کروا دیں۔پاکستانی طالبان کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سب لوگوں کی

مرضی کے بغیر اگر طالبان کی حمایت کی ہے تواس بارے میں ہم نے امریکہ کی بات تو نہیں سنی۔ لیکن تاثر یہ ہے کہ پتا نہیں ہم کتنا امریکہ کی سنتے ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کبھی کبھار کچھ لوگوں کی کمزوری ہوتی ہے امریکہ کی بات سننا۔ کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان کے کام نہیں ہو پاتے۔ اس لیے وہ ان کی جیسی بھی بات ہو وہ مان لیتے ہیں۔انہوں نے کہا حال ہی میں گلگت

بلتستان کو عارضی طور پر صوبہ بنانے کی بات کی جا رہی ہے، انہوں نے کہا کچھ چیزوں کی حیثیت مت تبدیل کریں کیونکہ جب بھی آپ کسی چیز کی حیثیت سیاسی وجہ سے اس لیے تبدیل کریں گے کہ ہم نے نمبر بنانے ہیں، اس کا نقصان ہو گا۔ بہاولپور اور سوات بڑی اچھی ریاستیں تھیں انھیں مرکزی دھارے میں شامل کیا گیا اور یہ مرکز بدعنوانی

میں شامل ہیں تو نقصان ہوا۔ انہوں نے کہا ’بلوچستان کا نظام تین انداز میں بہتر ہینڈل ہو سکتا تھا، سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر۔ لیکن ہم نے پکڑ کر ایک صوبہ بنا دیا اور آج تک نہیں سنبھالا جا رہا۔‘ ان کا کہنا ہے کہ اگر گلگت بلتستان کو زیادہ حقوق دینے ہیں تو بے شک دیں لیکن ان کو زبردستی پاکستان کا صوبہ نہ بنائیں۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…