لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک)جب 1996میں پاکستان تحریک انصاف کا آغاز ہوا تو جہانگیر ترین اس کا حصہ نہیں تھے، اس وقت کسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ آنےوالےسالوں میں یہ کامیاب ہوجائےگی۔نجی ٹی وی پروگرام میں پوچھے گئے سوال کے مطابق کیا جہانگیر ترین عمران خان پر بوجھ ہیں ؟ کے جواب میں سینئرتجزیہ کار تجزیہ مظہرعباس نے کہا ہے کہ جہانگیر ترین نےاس وقت پارٹی میں
شمولیت اختیار کی جب 30اکتوبر2011کو مینارِ پاکستان لاہور میں پارٹی نے اپنی مقبولیت کو ٹیسٹ کیا۔ کئی دوسرے افرادکی طرح انھوں نے پارٹی میں شمولیت اختیار کی جب عمران خان نے پارٹی کے دروازے’الیکٹیبلز‘ اور لوٹوں کیلئے کھول دیئےاور ان کا ماضی کا ریکارڈ چیک نہیں کیا۔ انھوں نے سٹیٹس کو پر بھی اپنا بیانیہ نرم کیا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم نے ایف آئی رپورٹ کو پبلک کرکے ایک بولڈ فیصلہ کیا۔ جو بات حیران کن ہے وہ یہ ہے کہ کس بنیاد پر انھوں نے پہلے کہاتھا کہ انھوں نے رپورٹ دیکھی ہے اورچینی اور آٹابحران میں جہانگیر ترین اور وفاقی وزیرخسروبختیار کےملوث ہونے کی تردیدی کی۔حیرانی کی بات ہےاس وقت حکومت نےحتمی رپورٹ جاری بھی نہیں کی تھی۔ وزیراعظم کا حقیقی امتحان اب سے 25اپریل کے درمیان ہے، جب حتمی رپورٹ کو فارنزک کےبعد جاری کیاجائےگا۔ یہ بھی حیرانی کی بات ہے کہ حکومت نے حتمی رپورٹ کااتنظار نہیں کیا۔ایک شخص جسےپانامہ سےشہرت ملی، چیف انوسٹی گیٹر واجد ضیا، یہ دلچسپ ہوگا کہ کیاوزیراعظم خسروبختیار کومستعفیٰ ہونےکاکہیں گے اوراپنےقریبی ساتھی جہانگیرخان ترین کےساتھ سیاسی سماجی دوری اختیار کرنےکاکہیں گےیا ماضی کی طرح انھیں بچا لیں گے۔اعظم خان سواتی،
بابراعوان اور علیم خان کی طرح کے پارٹی رہنمائوں کی طرح وہ کچھ دیر بعد پارٹی میں واپس آگئے۔ جہانگیر خان ترین جو ماضی میں وفاداریاں تبدیل کرنے کے حوالے سےجانےجاتےہیں جلدہی خان کے قریب آگئے، وافر دولت کے ساتھ ایک امیر خاندان سےتعلق رکھنےوالےوہ پارٹی میں ایک اہم کرداربن گئے اور وزیراعلیٰ پنجاب کےممکنہ امیدواربھی تھے۔اس سے پارٹی میں ان کے اور ایک نئے امیدوار شاہ محمود قریشی کے
درمیان ایک تنازع بھی پیدا ہوا، کیونکہ دونوں ہی 2008کے بعد آئے تھے اور حقیقی کھلاڑیوں میں سے نہیں تھے۔ عمران خان نےجہانگیرخان کو پہلا کام جو دیا وہ پارٹی کوبلدیاتی سطح پرمنظم کرنےکاتھاکیونکہ وہ پارٹی میں 2012اور2013کے درمیان الیکشن کرانے کا ارادہ رھتے تھے۔ تاہم عمران خان کو جہانگیرترین کے بارے میں پہلا دھچکہ اس وقت لگا جب جسٹس(ر) وجہیہ نے مبینہ دھاندلی کی اپنی رپورٹ میں
جہانگیر ترین سمیت عمران خان کے کچھ پسندیدہ افرادکے خلاف سنگین الزامات عائد کیے۔ لیکن آخر میں وجیہہ الدین پر ہی ایک تعصبانہ رپورٹ جاری کرنےکاالزام عائد کیاگیا، جو پی ٹی آئی کے الیکشن کمیشن کا مینڈیٹ ہی نہیں تھا۔انھوں نےپارٹی چھوڑ دی اور بعد میں دوسرے چیئرمین الیکشن کمیشن تسنیم نورانی نے بھی استعفیٰ دےدیا۔ 2013کےانتخابات جو عمران خان کا خیال تھا کہ عام انتخابات سےقبل ہونے ہی نہیں چاہیئےتھے
کیونکہ اس سے پارٹی مختلف گروپوں میں تقسیم ہوگئی تھی لیکن جہانگیر ترین کےپیچھے کھڑی ہوگئی تھی۔یہ ایک اور کھلاڑی شاہ محمود قریشی کو ناپسند تھا جن کے جہانگیر ترین سے اختلافات 2013تک قائم رہے بلکہ بڑھ گئے تھے حتیٰ کہ 2018کے انتخابات کے بعد مزید بڑھ گئے تھے جب شاہ محمود قریشی نیشنل اسمبلی کی سیٹ جیت گئے لیکن صوبائی اسمبلی کی سیٹ جیت گئے تھے۔ ان کے قریبی حلقوں کا خیال تھا کہ
جہانگیر ترین اور ان کے آدمی اس کے پیچھے ہیں کیونکہ جہانگیر ترین کی نااہلیت کےبعد وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے وہ ہی ایک انتخاب بن گئے تھے۔پارٹی کےاندر بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ اگر پارٹی متحد ہوتی اور اس کے اندرتقسیم نہ ہوتی توپنجاب کا نتیجہ اس سے کہیں زیادہ بہتر ہوسکتا تھا۔ صوبےمیں آج کی پی ٹی آئی کی حکومت گجرات کےچوہدریوں کی زیرقیادت مسلم لیگ (ق) کی حمایت پر مکمل انحصار کرتی ہے۔