نیویارک (این این آئی) وزیراعظم عمران خان نے کہاہے کہ طالبان مجھ سے ملاقات کر نا چاہتے تھے، افغان حکومت کی مخالفت پر ملاقات منسوخ کی۔کونسل آن فارن ریلیشنز میں خطاب میں ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ طالبان چاہتے تھے میرے ساتھ ملاقات ہو لیکن افغانستان کی حکومت نہیں چاہتی تھی اس لیے یہ ملاقات منسوخ کی۔وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت دو جوہری ممالک ہیں اور جنگ کی صورت میں کچھ بھی ہوسکتا ہے،
کرتارپور راہداری ہمسایوں سے اچھے تعلقات کیلئے بنائی، بھارتی طیاروں کی بمباری کے جواب میں دو طیارے گرائے، کشیدگی کم کرنے کیلئے بھارتی پائلٹ واپس بھجوایا، بھارت نہ ثالثی قبول کرتا ہے نہ دوطرفہ مذاکرات کرتا ہے، بھارت نے ہمیشہ ہماری امن کی پیشکش کو ہماری کمزوری سمجھا، ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کیلئے لابنگ کی، ان حالات میں بھارت سے کیسے بات چیت کر سکتے ہیں؟،موجودہ حکومت کی تمام پالیسیوں کو پاک فوج کی حمایت حاصل ہے،80 لاکھ کشمیری گھروں میں قید ہیں، عالمی برادری بھارت کو کشمیر سے کرفیو اٹھانے کا کہے، اقوام متحدہ کو اپنا کردار اداکرنا چاہئے،نائن الیون کے بعد امریکہ کا اتحادی بننا پاکستان کی سب سے بڑی غلطی تھی،جنگ میں 70 ہزار پاکستانی جاں بحق اور 200 ارب کا معیشت کو نقصان ہوا،اگر امریکہ 19 سال میں کامیاب نہیں ہوا تو اگلے 19 برسوں میں بھی کامیاب نہیں ہوگا، ماضی کے مقابلے میں طالبان اب زیادہ مضبوط ہیں،بدقسمتی سے افغان امن معاہدہ آخری لمحات میں طے نہ پا سکا، ایبٹ آباد کمیشن کے نتیجے کا معلوم نہیں، جب اقتدار میں آئے تو معیشت کی حالت ابتر تھی اگر چین سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات مدد نہ کرتے تو ہم دیوالیہ کی طرف جارہے تھے،اب پاکستان صحیح سمت کی جانب گامزن ہے،چین نے کرپشن کے خلاف بڑی کارروائیاں کیں اور کاش میں اپنے ملک بھی کرپشن کے خلاف ایسا ہی کرسکتا،بدقسمتی سے ماضی میں ہمارے حکمرانوں نے خود کو قانون سے بالا تر رکھا، ماضی میں بڑے مجرموں کو سزا نہیں ہوتی تھی۔
کونسل آن فارن ریلیشنز میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کھیل زندگی کے اہم سبق سکھاتے ہیں، کھیلوں سے آپ اپنے ہدف کوحاصل کرنے کیلئے جدوجہدکرناسیکھتے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہاکہ کرکٹ سے میں نے سیکھا کے کامیابی کیلئے کیسے جدوجہد کی جاتی ہے، 22 سال کی جدوجہد کے بعد اس مقام پر پہنچا ہوں۔وزیراعظم نے کہاکہ حکومت کی تمام پالیسیوں کو پاک فوج کی حمایت حاصل ہے، میں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو بھی بتایا تھا کہ فوج سمیت پورا ملک میرے ساتھ ہے،
یہ بھی بتایا تھا غربت کے خاتمے سمیت دونوں ممالک کی ترجیحات ایک ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان اور بھارت دو جوہری ممالک ہیں اور جوہری ممالک کے درمیان جنگ کی صورت میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ کرتارپور راہداری ہمسایوں سے اچھے تعلقات کیلئے بنائی۔ انہوں نے کہاکہ بھارتی طیاروں کی بمباری کے جواب میں دو طیارے گرائے، کشیدگی کم کرنے کیلئے بھارتی پائلٹ واپس بھجوایا اور سب پر واضح کیا پاکستانی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی لیکن بھارت میں انتخابی مہم پاکستان مخالفت کو بنیاد بنا کر چلائی گئی،
بھارت نے ہمیشہ ہماری امن کی پیشکش کو ہماری کمزوری سمجھا، ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کیلئے لابنگ کی، ان حالات میں بھارت سے کیسے بات چیت کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ پچاس دن سے 80 لاکھ کشمیری گھروں میں قید ہیں، عالمی برادری بھارت کو کشمیر سے کرفیو اٹھانے کا کہے، اقوام متحدہ کو اپنا کردار اداکرنا چاہئے،ادارہ اسی لئے وجود میں لایا گیا تھا۔وزیراعظم نے کہا کہ نائن الیون کے بعد پاکستان نے امریکہ کی جنگ میں شامل ہوکر بہت بڑی غلطی کی، پاکستان نے روس کے خلاف امریکہ کے ساتھ مل کر مزاحمت کی،
افغانستان سے روس کے نکلنے کے بعد امریکہ نے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا، نائن الیون کے بعد امریکہ کو پھر پاکستان کی ضرورت پڑی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو 200 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، جن افراد کو روس کے خلاف جہاد کی تربیت دی گئی انہیں ہی نائن الیون کے بعد دہشت گرد قرار دیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ میرے خیال میں پاکستان کیلئے یہ بدترین وقت تھا اور اب سبق مل گیا اور پاکستان کو پتہ ہے، اور جب میٹس کہتا ہے کہ پاکستان انتہاپسند ریاست ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے پہلے جہادی پیدا کیے اور بعد میں ان کو مارنا شروع کیا اسی لیے ہم مشکلات کا شکار ہوئے۔
عمران خان نے کہاکہ میرا ہمیشہ یہی مؤقف رہا ہے کہ افغانستان مسئلے کا حل فوجی نہیں اور افغانستان میں سیاسی مذاکرات کی کامیابی بہت مشکل مرحلہ ہے، بدقسمتی سے افغان امن معاہدہ آخری لمحات میں طے نہ پا سکا، امن معاہدہ ہونے کو تھا لیکن صدرٹرمپ نے مسترد کر دیا، امن مذاکرات کی ناکامی اور امریکی افواج کے انخلاء سے طالبان خوش ہیں، طالبان نے ماضی سے سبق سیکھا ہے، انہیں احساس ہے کہ وہ پورے افغانستان پر قبضہ نہیں کر سکتے۔ افغانستان میں کبھی بیرونی طاقتیں قبضہ نہیں کر سکیں۔وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت بھی 27 لاکھ افغان رہائش پذیر ہیں، ہم نے کئی مرتبہ افغانستان سے مہاجرین کو واپس لینے کا مطالبہ کیا،
افغان مہاجرین کی وجہ سے ہم اپنی سرحد مکمل بند نہیں کر سکتے۔عمران خان نے کہا کہ سوویت فوج نیافغانستان میں جنگ کے دوران 10لاکھ شہریوں کو ہلاک کیا جبکہ پاکستان میں 27لاکھ افغان پناہ گزین رہ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ڈیورنڈ لائن برٹش حکام نے بنائی تھی، اب ہم پاک افغان بارڈر کی طرف باڑ ھ لگا رہے ہیں، افغان شہریوں کو 40 سال سے مشکلات کا سامنا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ افغانستان کا معاملہ بہت مشکل ہے۔عمران خان نے کہا کہ ایبٹ آباد کمیشن کا کیا نتیجہ نکلا اس کا کچھ معلوم نہیں ہے،11 ستمبر کے بعد امریکہ نے اچانک مجاہدین کو دہشتگرد کہنا شروع کردیا۔انہو ں نے کہا کہ پاکستان اپنے تمام پڑوسی ملکوں سے امن چاہتاہے،
افغان صدر اشرف غنی کو دورہ پاکستان کے لیے مدعو کیا ہے۔عمران خان نے کہاکہ گزشتہ حکومتیں معیشت کی سمت درست کرنے میں ناکام رہیں، جس کی وجہ سے ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا، جب اقتدار میں آئے تو معیشت کی حالت ابتر تھی ایسے وقت میں چین نے ہماری مدد کی، گھر کو چلانے کے لیے بھی اخراجات کم اور آمدن بڑھانا ہوتی ہے۔انہوں نے کہاکہ معیشت میں جب خسارہ ہوتو کامیابی حاصل نہیں کرسکتے، ہمیں بدقسمتی سے بدترین کرنٹ اکاؤنت خسارہ ملا لیکن ہم نے تقریباً 70 فیصد خسارہ کم کیا ہے اور ہم صحیح سمت کی جانب گامزن ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت چین ہمیں تجارتی مواقع فراہم کررہا ہے اور چینی صنعت کو پاکستان منتقل کرنے
کا اچھا موقع ہے۔ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ طالبان چاہتے تھے میرے ساتھ ملاقات ہو لیکن افغانستان کی حکومت نہیں چاہتی تھی اس لیے یہ ملاقات منسوخ کی۔وزیراعظم نے کہا کہ چین کے ساتھ مختلف معاملات پر ہم بات کرتے ہیں جس کو یہاں بیان نہیں کروں گا لیکن ہم افغانستان کے معاملات بھی دیکھ رہے ہیں پھر ایران اور سعودی عرب کے درمیان بھی معاملات ہیں اسی کے دوران بھارت بھی ہے۔چین کے حوالے سے سوالات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ چین نے تجارت پر توجہ مرکوز رکھی اور چین کی جو بات مجھے سب سے اچھی لگتی ہے وہ کروڑوں شہریوں کو غربت سے نکالنا ہے اور میرا بھی یہی مقصد ہے۔عمران خان نے کہاکہ چین نے کرپشن کے
خلاف بڑی کارروائیاں کیں اور کاش میں اپنے ملک بھی کرپشن کے خلاف ایسا ہی کرسکتا۔وزیراعظم نے کہاکہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات اس وقت ملتوی ہوئے جب دستخط ہونے والے تھے اگر ہم سے مشاورت کی جاتی تو شاید ہم کردار ادا کرتے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں بھارت کے عوام کو ٹوئٹر میں اپنے احساسات پہنچانے کی بہتر کوشش کرتا ہوں، میں بھارت کو جانتا ہوں اور مجھے بھارت سے پیار اور احترام ملا ہے جو کسی بھی پاکستانی سے زیادہ تھا۔انہوں نے کہا کہ میں اس وقت بھارت کیلئے زیادہ پریشان ہوں یہاں تک کہ پاکستان سے زیادہ کیونکہ بھارت صحیح سمت نہیں جارہا ہے، بھارت میں گزشتہ 6 برسوں سے جو ہورہا ہے اس کو دیکھیں تو وہ خوف ناک ہے یہ گاندھی اور نہرو کا بھارت نہیں ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ بھارت میں ہندو سپریمسی کا نظریہ غالب آگیا ہے، جب دوسروں سے نفرت کرنے کا نظریہ غالب آتا ہے تو برا ہوتا اسی نظریے نے گاندھی کو قتل کیا،
اسی نظریے پر بھارت میں تین مرتبہ پابندی لگی۔انہوں نے کہاکہ اب بدقسمتی سے یہ نظریہ بھارت کو چلا رہا ہے اور میں پریشان ہوں اور دو جوہری طاقتوں کو پریشان ہونا چاہیے اسی لیے میں نے وزیراعظم بورس جانسن سے بات کی اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت دیگر سربراہان مملکت سے بات کروں گا۔ایک سوال پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ چین نے کبھی ہماری خارجہ پالیسی میں مداخلت نہیں کی، چین نے ہم سے ایسے کوئی مطالبات نہیں کیے جن سے ہمارا اقتدارمتاثر ہو۔انہوں نے کہا کہ میرا منشور قانون کی حکمرانی اور کمزوروں کی مدد کرنا ہے، دیہی خواتین کو غربت سے نکالنے کیلئے پروگرام پر کام کر رہے ہیں، خواتین، اقلیتوں کے تحفظ کے قوانین موجودہیں، ان پرعمل درآمد کمزور ہے۔عمران خان نے کہا کہ بدقسمتی سے ماضی میں ہمارے حکمرانوں نے خود کو قانون سے بالا تر رکھا، ماضی میں بڑے مجرموں کو سزا نہیں ہوتی تھی۔انہوں نے کہا کہ ہم اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کے اقدامات کررہے ہیں، کرتارپور ایسا ہی اقدام ہے، اسلام ایک ہی ہے، اکثریت اعتدال پسند ہے اور ایک چھوٹی سی تعداد انتہا پسند ہے، اسلام میں اقلیتوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔