اسلام آباد (آن لائن )ساہیوال پنجاب میں انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ کی کار پر فائرنگ واقعے کی وسیع پیمانے پر شروع ہونے والی تحقیقات نے پنجاب حکومت کی کارکردگی کا پول کھول دیا ہے۔لیگی دور حکومت میں خاص طور پر پنجاب میں داعش کے نیٹ ورک کے حوالے سے بو سونگھنے کے بعدشتر مرغ کی طرح ریت میں سر دینے کی کوششیں کی جاتیں رہیں۔گویا 2013کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومت نے روایتی انداز میں داعش نیٹ ورک کے حوالے سے روایتی انداز میں آنکھیں موند لیں۔
ذرائع کے مطابق پنجاب حکومت کی روایتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے داعش نے منظم انداز میں کاروائیاں جاری رکھی۔اغوا برائے تاوان،سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں منشیات اور لسانی بنیادوں پر انتشار داعش کے اہم ٹاسک میں شامل تھا۔پاکستانیوں خاص طور پر خواتین کی بیرون ملک سمگلنگ سے داعش مزید تقویت پکڑی۔روس ،چین ،ایران حکومتوں نے افغانستان کے سرحدیں علاقوں میں تیزی سے زور پکڑتی کالعدم تنظیموں اور داعش کے نیٹ ورک سے مزکورہ بالا تنظیموں سے روابط پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔داعش کو پاکستان خاص طور پر سی پیک کے حوالے سے خطرہ قرار دیا گیا۔لیگی حکومت کے رخصت ہونے کے تقریباً پانچ ماہ بعد پنجاب دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ کے پریس ریلیز نے بھانڈہ پھوڑ دیا۔صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت نے پولیس اور خفیہ اداروں کی مشترکہ کاروائی قرار دیتے ہوئے شفاف تحقیقات کی یقین دہائی کروا دی۔گویا ساہیوال سانحے کے بعد پولیس ٹریننگ سمیت کئی سوالا ت نے جنم لیا۔لیکن دوسری طرف پاکستان انسٹی ٹیوٹ فور پیس اینڈ اسٹڈیز (پی آئی پی ایس) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال دہشت گردی کے واقعات میں 29 فیصد کمی کے باوجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان، ذیلی گروپ اور داعش (خراسان گروپ) اب بھی پاکستان کیلئے بڑا خطرہ ہیں۔پی آئی پی ایس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال 2018ء میں ملک بھر میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں 595 افراد جاں بحق ہوئے.
ان میں 38 فیصد ہلاکتیں بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں 5 ہولناک حملوں کے نتیجے میں ہوئیں، جن کی ذمہ داری آئی ایس آئی ایس (داعش) نے قبول کی۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے۔مجموعی ہلاکتوں کا 59 فیصد 354 افراد بلوچستان میں دہشت گردی کا شکار بنے، گزشتہ سال 19 خودکش حملوں سمیت 262 دہشت گرد حملے کئے گئے، ان میں سے 171 میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور اس کی ذیلی تنظیمیں ملوث تھیں۔سال 2018ء میں بلوچستان اور سندھ کی قوم پرست شدت پسند گروپوں کے حملوں میں 96 افراد زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ دونوں صوبوں میں 50 افراد کو لسانی بنیادوں پر قتل کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں میں 120 شدت پسند بھی مارے گئے۔