ڈیوس (آن لائن)وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہاہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان کے حوالے سے ٹوئٹ کو امریکا کی پالیسی نہیں سمجھتے۔ آفیشل پالیسی کا تعلق ٹوئٹ سے نہیں بلکہ اجلاس یا دستاویزسے ہوتا ہے ۔وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ 15 سال سے پاکستان اور امریکا کے تعلقات خرابی کی طرف جارہے ہیں۔ٹرمپ کی جانب سے جو ٹوئٹ کیا گیا ہے اس سے تعلقات میں مزید سردمہری پیدا ہو سکتی ہے ۔
ہمیں یقین ہے کہ ٹرمپ کا ٹوئٹ امریکہ کی آئینی پالیسی کا حصہ نہیں ہے ۔ امریکا پاکستان کو کوئی معاشی امداد نہیں دے رہا، جبکہ سکیورٹی کے حوالے سے دی جانے والی امداد بھی بالکل معمولی تھی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے 33 بلین ڈالر امداد کے حوالے سے جو دعوے کئے جا رہے ہیں حقائق اس کے برعکس ہیں۔دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں ہماری صلاحیت کا اعتراف نہیں کیا گیا جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان کے حوالے سے ٹوئٹ کو امریکا کی پالیسی نہیں سمجھتے، آفیشل پالیسی کا تعلق ٹوئٹ سے نہیں بلکہ اجلاس یا دستاویزسے ہوتا ہے۔وزیراعظمٰ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی جنگ لڑرہا ہے، ہمارے 2 لاکھ سے زائد جوان مغربی سرحد پردہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ لے رہے ہیں، ہم نے مشترکہ دشمن کوشکست دی، جسے پوری دنیا شکست نہ دے سکی، پچھلے سال افغانستان سے پاکستان میں 29 دہشت گرد داخل ہوئے، جنہوں نے پاکستان میں کارروائیاں کیں، افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں نے ڈپٹی چئیرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے پر بھی حملہ کیا۔وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے 6500 جوانوں نے جان قربان کی اورافغانستان کے زمینی حقائق ٹرمپ کی پالیسی سے متضاد اور بالکل مختلف ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ جارج ڈبلیو بش کے دور حکومت میں 11 ستمبر کو جب انہوں نے سابق صدر مشرف کو فون کیا تو انہوں نے فوری طور پر غیر مشروط طور پر امریکہ کے ساتھ تعاون کا وعدہ کیا ۔ہم امرًیکہ کے ساتھ افغانستان میں امن کے لئے کی جانے والی کوششوں میں تعاون کر رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے اقتصادی تعاون نہیں کیا جا رہا بلکہ یہ اتحادی سپورٹ فنڈ ہے جس کے تحت پاکستان افغانستان میں امریکی فورسز کی معاونت کر رہا ہے
جب امداد دہی ہی نہیں جا رہی تو اس میں کٹوتی کا سوال کیا پیدا ہو سکتا ہے ۔ وزیر اعظم نے کہاکہ امریکہ کی جانب سے سکیورٹی اور فوجی تعاون بھی معمولی نوعیت کا ہے امریکہ سے ہم نے ایف سولہ طیاروں کی خریداری کا معاہدہ کیا جو آج تک ہمیں نہ ملے ۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہماری صلاحیتوں کا اعتراف نہ کیا گیا انہوں نے کہاکہ صرف گزشتہ سال 29 خودکش بمبار افغانستان سے ہمارے علاقوں میں داخل ہوئے اور ہماری تنصیبات کو نشانہ بنایا۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ میرا ردعمل انتہائی عام فہم ہے ٹرمپ کا بیان زمینی حقائق کے برعکس ہے ہم نے دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑنے کا عزم کر رکھا ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ہم امریکی فوج کی معاونت کر رہے ہیں اور یہ عمل جاری رکھیں گے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان امریکہ کو لاجسٹک سپورٹ بھی دے رہا ہے امریکی طیارے افغانستان میں جاتے ہیں اور دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں جبکہ ہمارے علاقے سے کئی ملین ٹن سازو سامان بھی یہاں سے کارگو ہوتا ہے ۔
اس میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جا رہی ۔انٹیلی جنس شیئرنگ بھی کی جاتی ہے ۔ اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی کے حوالے سے پوچھے ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہاکہ اس سے پاکستان کی سالمیت متاثر ہوئی اور عوامی سطح پر سخت ردعمل سامنے آیا جو ہمارے لئے ناقابل قبول تھا کوئی یہ نہیں چاہتا تھا کہ اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی نہ ہو لیکن اس کے لئے پاکستان کو آگاہ کیا جانا چاہئے تھا ۔انہوں نے کہا کہ جہاں اسامہ بن لادن رپوش تھا
امریکہ کو چاہئے تھا کہ وہ ہمیں انٹیلی جنس معلومات فراہم کرتا اور ہم اس کے خلاف ایسا ہی ایکشن لیتے ۔ وزیر اعظم نے چین کے ساتھ اپنے تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دوست ملک چین کے ساتھ 70 سالہ پرانے تعلقات ہیں جس میں فوجی اور اقتصادی تعلقات بھی شامل ہیں اب چائنا پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ اہم کڑی ہے ۔ چین کی جانب سے یہ ایک شاندار منصوبہ ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید فروغ حاصل ہو گا ۔انہوں نے کہاکہ چین بڑے پیمانے پر پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہا ہے ۔
وزیر اعظم نے کہا کہ میرا تعلق نواز شریف پارٹی سے ہے میں ان کے ساتھ گزشتہ 30 سالوں سے کام کر رہا ہوں ۔ سپریم کورٹ نے ان کے حوالے سے جو فیصلہ دیا وہ سوالیہ ہے لیکن ہم نے اس پر مزاحمت نہیں کی کیونکہ یہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تھا ۔سپریم کورٹ ہمارے ملک کا سب سے بڑا فورم ہے اس فیصلے سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے لیکن اس کے باوجود ہم نے بغیر کسی جھجک کے عملدرآمد کیا ہم ملک میں جمہوریت کے عمل کو جاری رکھنا چاہتے ہیں ۔
وزیر اعظم سے جب ان کی ترجیحات کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کی اولین ترجیحات میں عوام کو بہترین تعلیمی سہولیات فراہم کرنا شامل ہے ۔افغانستان کی صورت حال کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر وزیر اعظم نے کہا کہ جنگ افغان مسئلے کا حل نہیں ۔ افغانیوں کو مل بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے اپنے مسائل حل کرنا چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ ویتنام اور سوویت یونین اس کی واضح مثال ہے کہ بلآخر ان مسائل کا حل مذاکرات سے نکالا گیا ۔ پاکستان اور امریکہ افغانستان کے مسئلے کے حل کے لئے سہولت کار کے طور پر خدمات سرانجام دے سکتے ہیں۔انہوں نے شام کی صورت حال پر بھی تبادلہ خیال کیا ۔