اسلام آباد(آن لائن) پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے لیے اسپیشل سیکیورٹی ڈویژ ن (ایس ایس ڈی) کو آپریشنل کرنے کا منصوبہ سول ملٹری اختلافات کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے۔ میڈیا رپو رٹ کے مطابق اس بات کے خدشات موجود ہیں کہ اگر اس معاملے کو جلد از جلد حل نہ کیا گیا تو اس سے سی پیک کے حوالے سے مقرر ڈیڈ لائنز کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔گزشتہ برس چینی صدر شی جن پنگ کے دورہ اسلام آباد میں سی پیک منصوبوں کے افتتاح کے بعد فوج نے ایس ایس ڈی کو فعال کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس ڈویژن کا مقصد ملک بھر میں سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔لیکن تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود ایس ایس ڈی کے کام کے ضابطہ کار یا ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آر) پر اتفاق نہ ہوسکا۔حکومت فوج کی جانب سے تجویز کردہ ٹی او آرز کو دبائے بیٹھی ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ ان ٹی او آرز سے متفق نہیں۔
فوج کی جانب سے ایس ایس ڈی کے تجویز کردہ کردار میں کہا گیا تھا کہ ایس ایس ڈی سی پیک منصوبوں کی سیکیورٹی کے حوالے سے سویلین قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو مشاورت، رہنمائی اور انہیں بلاواسطہ طور پر کنٹرول کرے گا۔اس کے علاوہ یہ بھی تجویز دی گئی کہ اہم منصوبوں کو درپیش کسی بھی خطرے کے پیش نظر ایس ایس ڈی سب سے پہلے رد عمل ظاہر کرنے کا مجاذ ہوگا۔تاہم حکومت کو اندیشہ ہے کہ اس طرح کا وسیع ٹی او آر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں پر فوج کا اثر و رسوخ بڑھا دے گا اور اس سے سول انتظامیہ کی اتھارٹی کو بھی ٹھیس پہنچے گی۔ٹی او آر کی منظوری میں تاخیر کی وجہ سے ایس ایس ڈی کے پہلے ونگ ایس ایس ڈٰ نارتھ کی کمیشننگ کا معاملہ بھی رکا ہوا ہے۔ایس ایس ڈی کے دو ونگز قائم کیے جائیں گے، پہلا شمالی اور دوسرا جنوبی ونگ جبکہ منصوبے کے تحت شمالی ونگ کا دائرہ اختیار پاک چین سرحد پر خنجراب پاس اور راولپنڈی ہوگا جبکہ جنوبی ونگ باقی تمام علاقوں کی سیکیورٹی کا ذمہ دار ہوگا۔فوج کی جانب سے ایس ایس ڈی نارتھ کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے تاہم مبینہ طور پر حکومت نے ایس ایس ڈی ساؤتھ کی انتظامی اور مالیاتی منظوری کو زیر التواء رکھا ہوا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اصولی طور پر حکومت ایس ایس ڈی ساؤتھ کے قیام کے حق میں ہے تاہم اس سلسلے میں باضابطہ منظوری باقی ہے اور اس ونگ کے لیے کوئی فنانشل گرانٹ بھی جاری نہیں کی گئی ہے۔ایک اندازے کے مطابق نئے ونگ کی تشکیل میں تقریباً 12 سے 18 ماہ کا وقت لگ سکتا ہے یعنی اگر اس کی تشکیل کی منظوری فوری طور پر بھی دی جائے تو ایس ایس ڈی ساؤتھ 2017 کے آخر تک فنکشنل نہیں ہوسکتا جبکہ اس وقت تک تو سی پیک کے بعض منصوبے تکیمل کے مراحل میں ہوں گے۔
سیکیورٹی کی صورتحال مجموعی طور پر سی پیک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے اور فوج کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ سی پیک کو داخلی اور بیرونی دونوں طرح کے خطرات کا سامنا ہے۔تاہم سیکیورٹی کی صورتحال ان علاقوں میں زیادہ خراب ہے جنہیں ایس ایس ڈی ساؤتھ کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) جو بلوچستان میں سڑکوں کی تعمیر کے منصوبوں میں مصروف ہے، اب تک اس سے وابستہ 44 افراد جن میں 26 فوجی بھی شامل ہیں جان سے جاچکے ہیں۔اس وقت ملک بھر میں جاری منصوبوں میں 10 ہزار کے قریب چینی پروفیشنلز کام کررہے ہیں اور امکان ہے کہ جیسے جیسے سی پیک کی تکمیل میں پیش رفت ہوگی چینی پروفیشنلز کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا۔نیشنل کاؤنٹر ٹیرارزم اتھارٹی(نیکٹا) کی ہی طرح یہاں بھی اس بات پر اختلافات ہیں کہ ایس ایس ڈی کا انچارج کون ہوگا۔حکومت کا کہنا ہے کہ ایس ایس ڈی کو وزارت داخلہ کے ماتحت ہونا چاہیے جبکہ فوج اب تک اس معاملے کو آگے لے کر چلی ہے اور چاہتی ہے کہ مستقبل میں بھی اس کا کنٹرول اسی کے ہاتھ میں رہے۔سول ملٹری قیادت اس بات پر متفق ہے کہ سی پیک ملک کے مستقبل کے لیے انتہائی اہم ہے لیکن باہمی اعتماد کا فقدان اس اہم معاملے پر ان کے درمیان عدم تعاون کی وجہ بنا ہوا ہے اور یہ سول ملٹری اختلافات صرف سی پیک تک محدود نہیں۔سول اور ملٹری اختلافات سی پیک سے زیادہ انسداد دہشت گردی کے معاملے میں عیاں ہیں، اعلیٰ فوجی قیادت نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں سستی کا مظاہرہ کرنے پر کھلے عام اپنے خدشات کا اظہار کرچکی ہے۔اس سے قبل حکومت نے سی پیک اپیکس گورننگ باڈی میں باضابطہ طور پر فوج کی شمولیت پر بھی اعتراض اٹھایا تھا۔مجوزہ سی پیک بورڈ میں تمام حاضر سروس چیفس کو شامل کیا جانا چاہیے تھا لیکن حکومت اس بات پر نہ مانی اور اس نے سی پیک بورڈ کے بجائے اسٹیئرنگ کمیٹی قائم کردی اور اس میں حاضر سروس چیفس کو نمائندگی نہیں دی گئی۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف یوم دفاع کے موقع پر اپنے خطاب میں سی پیک کی بروقت تکمیل اور اس کے تحفظ پر زور دیا تھا اور کہا تھا کہ کہ پاکستان کی قومی ذمہ داری ہے۔چین بھی پروجیکٹ کی سیکیورٹی کی اہمیت کو اجاگر کرتا رہا ہے اور حال ہی میں چینی سفیر سن وائی ڈونگ نے کہا تھا کہ ’سی پیک منصوبے اور ان کی حفاظت ساتھ ساتھ چلنی چاہیے اور ہم پاکستان میں سی پیک کے لیے محفوظ ماحول کا قیام دیکھنا چاہتے ہیں‘۔ایس ایس ڈی ساؤتھ کی تشکیل اور ٹی او آر کی منظوری میں تاخیر کی وجوہات معلوم کرنے کے لیے حکومت سے رابطہ کیا گیا لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
فوج اور حکومت کے درمیان اختلافات۔۔! بڑا اور اہم ترین منصوبہ کھٹائی میں پڑنے کا خدشہ
19
ستمبر 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں