اسلام آباد (نیوز ڈیسک) میڈیا میں دنیا کے 10 بہترین فوجی کمانڈرز کی اس مبینہ فہرست کا چرچا ہے جس میں جنرل راحیل شریف کو سب سے بہترین جرنیل قرار دیا گیا ہے۔ جس ویب سائٹ نے یہ رینکنگ جاری کی ہے اس نے آخری مرتبہ پاکستانیوں کیلئے اچھی خبر اپریل 2015ءمیں اس وقت سنائی تھی جب اس نے دنیا کے بہترین دارالحکومتوں کی فہرست میں لندن کے بعد پاکستان کے اسلام آباد کو دنیا کا دوسرا بہترین دارالحکومت قرار دیا تھا۔ برلن کو تیسری پوزیشن ملی تھی جس کے بعد واشنگٹن، پیرس، روم، ٹوکیو، بوڈاپیسٹ، اوٹاوہ اور ماسکو کا نمبر تھا۔ اپنے ملک کے بارے میں بہترین خبروں کے متلاشی پاکستانیوں نے جلد ہی ایک دوسرے کے ساتھ اس خبر کا تبادلہ کرنا شروع کر دیا۔ کسی تصدیق کے بغیر اخبارات نے بھی اس خبر کو نمایاں جگہ دی۔ ویب سائٹ کے مستند ہونے شاید ہی کسی نے توجہ دی ہوگی۔ جنگ کے رپورٹر عمر چیمہ کے مطابق ماضی میں بھی جنرل راحیل ، آئی ایس آئی اور اسلام آباد کو بہترین رینکنگ میں شامل کرنے پر میڈیا میں ٹاک شوز ہوئے ہیں اور اب بھی میڈیا نے اچھی کوریج کی ہے۔ اس ویب سائٹ کا نام اے بی سی نیوز پوائنٹ ہے اور بہت سارے لوگ اسے امریکی ٹی وی نیٹ ورک اے بی سی نیوز سمجھ کر کنفیوژن کا شکار ہوتے ہیں۔ جیسے ہی سی ڈی اے کو اس رینکنگ کا علم ہوا تو اس نے بھی اس بات کا کریڈٹ لینے کی بھرپور کوشش کی ایسا ہونے میں اس کا بھی کردار ہے۔ اس کے بعد اسلام آباد میں ایک بڑا سائن بورڈ بھی نظر آنے لگا کہ اسلام آباد دنیا کے بہترین دارالحکومتوں میں سے دوسرے نمبر پر آگیا۔ اس کے بعد دی نیوز نے سی ڈی اے کے سینئر افسر سے رابطہ کیا اور رینکنگ کے متعلق شرائط اور رینکنگ کرنے والے کی ساکھ کے متعلق سوالات کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے سائن بورڈ دیکھا تو ان کے ذہن میں بھی یہی سوالات آئے تھے۔ اس معاملے پر دوسرے افسر سے رابطہ کیا تو ان کا بھی جواب کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا۔ تاہم، سی ڈی اے بھی ریٹنگ کے مستند ہونے کے متعلق زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ سائن بورڈ کچھ عرصہ تک اپنی جگہ پر رہا اور شہریوں میں اچھا محسوس کرنے کی سوچ منتقل کرتا رہا۔ اس غیر مقبول ویب سائٹ کی جانب سے رینکنگ کے اجراء کا یہ پہلا معاملہ نہیں تھا۔ اس سے قبل دسمبر 2014ء میں اس نے دنیا کی دس بہترین انٹیلی جنس ایجنسیوں میں سے آئی ایس آئی کو سب سے زیادہ نمبر دیئے تھے۔ اس خبر کو پرجوش طریقے سے قبول کیا گیا اور لوگوں کو اس بات میں فخر محسوس ہوا کہ ملک کی سرکردہ انٹیلی جنس ایجنسی کو بہترین انٹرنیشنل رینکنگ ملی ہے۔ تاہم کسی بھی معاملے میں کوئی معیار طے نہیں کیا گیا جن سے یہ معلوم ہو سکے کہ اسلام آباد کو بطور شہر، راحیل شریف کو بطور فوجی کمانڈر اور آئی ایس آئی کو بطور انٹیلی جنس ایجنسی کیسے پرکھا گیا۔ ویب سائٹ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ویب سائٹ 2014ئ،میں شروع ّ(لانچ) کی گئی، اس پر آفس کا پتہ درج ہے اور نہ ہی رابطے کیلئے کوئی فون نمبر دیا گیا ہے۔ ویب سائٹ بنانے والے ایک ماہر محسن عزیز کا کہنا ہے کہ یہ دو سال سے سرگرم ایک مقامی بلاگ ہے جس کے 60 فیصد قارئین کا تعلق پاکستان اور انڈیا سے ہے۔ فوجی کمانڈرز کی رینکنگ پر قارئین کا رد عمل کوئی معیار ہے تو اس ویب سائٹ پر زیادہ قارئین نہیں ہیں اور جو ہیں وہ زیادہ تر پاکستانی ہیں جس کے بعد بھارتیوں کا نمبر ہے۔ جس رینکنگ میں جنرل راحیل شریف کو بہترین فوجی کمانڈر قرار دیا گیا تھا وہ ستمبر 2015ء میں اپ لوڈ کی گئی تھی اور اس پر پاکستانی میڈیا کی نظر کچھ ہی دن قبل پڑی۔ چار ماہ کے عرصہ میں اس ریکنگ پر صرف 32 لوگوں نے تبصرہ کیا۔ ان میں سے 22 تبصرے پاکستانیوں کے جبکہ 10 بھارتی شہریوں کے ہیں۔ ان اعداد و شمار (ٹریفک) کو دیکھ کر ویب سائٹ کے مستند ہونے کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان سے باہر کسی بھی ملک کی جانب سے اس رینکنگ کا ذکر نہیں کیا۔ جہاں تک آئی ایس آئی کے دنیا کی اول نمبر ایجنسی ہونے کا تعلق ہے تو متذکرہ ویب سائٹ سے قبل ایک اور ویب سائٹ ”امیریکن کرائم نیوز رپورٹ“ کی جانب سے رینکنگ جاری کی گئی تھی۔ تاہم یہ ویب سائٹ اب بند ہو چکی ہے اور اس رینکنگ کے سوا کسی دوسرے کا حوالہ موجود نہیں۔ تاہم میڈیا نے اس کی تصدیق کی بجائے دو تین سال کے دوران کئی ٹاک شوز کیے اور امیریکن کرائم نیوز رپورٹ کا حوالہ دیا۔ ایک اور ویب سائٹ آن لائن نیوز پوائنٹ بھی اے بی سی نیوز پوائنٹ سے قبل انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رینکنگ کے معاملے میں منظر عام پر رہی۔ برطانوی صحافی رہوڈری مارسڈین کے مطابق اگرچہ غلط معلومات پھیلانے کا عمل چھوٹے پیمانے پر نہیں ہے لیکن انٹرنیٹ کے پھیلاﺅ کے بعد یہ کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا ہے اور اس کا مقصد گمراہ کرنا ہوتا ہے۔ نہ صرف پاکستانی میڈیا ایسی ویب سائٹس سے بے بنیاد خبریں اٹھاتا ہے بلکہ بنگلادیشی اخبارات نے بھی ایسی ہی ایک خبر نمایاں کی تھی کہ آیا نیل آرمسٹرونگ کبھی چاند پر گیا تھا۔ سب سے پہلے یہ خبر دی اونین نامی اخبار نے شایع کی تھی۔ اے بی سی نیوز پوائنٹ کے برعکس، دی اونین ایک اعلانیہ طنزیہ ویب سائٹ ہے لیکن بنگلادیش میں بیٹھے مدیر صاحبان نے اس سنجیدہ خبر سمجھ کر چھاپ دیا اور بعد میں اشاعت پر معافی بھی مانگی۔ پاکستانی میڈیا میں نہ صرف اس طرح کی غیر معروف ویب سائٹس سے اعداد و شمار لیے جاتے ہیں بلکہ اکثر اوقات ویکی پیڈیا کو بھی اکثر مستند ذریعہ سمجھ لیا جاتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس ویب سائٹ پر موجود معلومات میں کوئی بھی شخص تبدیلیاں کر سکتا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر اس میں تبدیلیاں کی بھی جاتی ہیں۔