بدھ‬‮ ، 23 جولائی‬‮ 2025 

ملکی سلامتی کے نام پر عدلیہ کا اختیار استعمال کرنا نظریہ ضرورت ہے،سپریم کورٹ

datetime 3  جون‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ایک اہم پہلو جس میں دو سیکشن میں اپیل کا فورم دیا گیا ہے جو کہ 21 ویں ترمیم میں نہیں ہے سیکشں تھری میں چیف آف آرمی سٹاف اور متعلقہ حکام کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق دیا گیا ۔ آرڈیننس کے ختم ہونے سے قبل مذکورہ عدالتوں کو لیات کیس میں سپریم کورٹ 1999 میں ختم کر دیا تھا ۔ 9 رکنی بینچ نے ان عدالتوں کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا تھا ۔ یہ بہت ہی متعلقہ فیصلہ ہے کہ جس میں سپریم کورٹ نے اپنا اختیار استعمال کیا ۔ یہ فیصلہ فوجی عدالتوں کے 4 ماہ کام کرنے کے بعد جاری کیا گیا تھا جسٹس سرمد نے کہا کہ کیا یہ سارا آرڈیننس ختم کیا گیا ۔ حامد خان نے کہا کہ جی ہاں ۔ جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ یہ معاملہ عبدالستار خان نیازی کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست ہونے کے بعد ختم ہوا ۔ 1958 میں مقدمات کے زیادہ دیر سماعت رہنے کی وجہ سے نظریہ ضرورت کا استعمال کیا گیا ۔ اکتوبر 1958 میں کئی مقدمات سامنے آئے ۔ مارشل لاءلگایا گیا تھا اس فیصلے کو تسلیم کیا گیا اور عدالتوں نے فوجی عدالتوں کو درست قرار دیا اور اس کے اثرات بارے 1972 تک کوئی خاص فیصلہ نہ آ سکا جب عاصمہ جیلانی کیس آیا ۔ جنرل یحی خان کا فیصلہ بھی عدالتوں نے درست قرار دیا ۔ ایوب خان کا فیصلہ بھی اپ ہیلڈ رہا ۔ 1998 میں چار سال فوجی عدالتیں قائم رہیں ۔ 1975 میں بیگم نصرت بھٹو نے مارشل لاء کو چیلنج کیا مگر مارشل لاءکو برقرار رکھا گیا ۔ اعلی عدلیہ کو محدود اختیار دیا گیا کہ وہ فیصلوں پر نظرثانی کر سکتی تھی ۔ آزاد گواہ کی صورت میں سزا دی جاتی مگر اس سے ہٹ کر تمام فیصلوں پر نظرثانی کر دی جاتی تھی ۔ 212 آرٹیکل کے تحت فوجی ٹریبونلز قائم کئے گئے جنہیں لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ۔ جو مئی 1980 میں سماعت کی گئی ۔ بلوچستان ہائی کورٹ نے نظرثانی کرنے کا فیصلہ دیا ۔ 5 سے 6 ماہ تک دلائل جاری رہے اور کوئی فیصلہ نہ آیا ۔ اور پھر یہ مقدمات نہ کھل سکے ۔ مئی سے مارچ 1981 تک کوئی بات سامنے آ سکیں ۔ 1973 کا آئین چار سال تک قابل عمل نہ رہا ۔ مارچ 1981 سے مارچ 1985 کت کسی آرٹیکل کا تذکرہ نہ کیا جا سکا ۔ تمام تر آرٹیکلز معطل تھے ۔ اس کے بعد 1998 میں فوجی عدالتوں کو عدالت میں چیلنج کیا گیا اور پھر یہ قانون غیر آئینی قرار دیا گیا ۔ جسٹس آصف نے کہاکہ محرم علی کیس میں کہا گیا کہ جو عدالت ہائی کورٹس کے ماتحت نہیں ہیں وہ غیر آئینی ہیں ۔ حامد خان نے کہا کہ یہ کیس 1998 میں سنا گیا ۔ لیاقت علی اور محرم علی کیس دونوں مقدمات فوجی عدالتوں کے بارے بہت اہم ہیں جس میں خصوصی عدالتوں اور جلد سے جلد ٹرائل کی بات کی گئی تھی آج پھر وہی معاملات عدالت کے روبرو ہے کہ عدالت کچھ بھی ڈلیور کرنے میں ناکام رہی ہیں اس وجہ سے یہ فوجی عدالتیں قائم کی گئیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم جمعرات کو 11 بجے تک سماعت کرے گی اور بعدازاں یہ فل کورٹ 16 جون کو دوبارہ سے سماعت کرے گی ۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



وہ دن دور نہیں


پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…

نیند کا ثواب

’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…

حقیقتیں(دوسرا حصہ)

کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…