بنیادی آئینی ڈھانچے کے حوالے سے مسلم لیگ ن کے وکیل خالد انور نے دلائل کا آغاز کیا اور انہوں نے آرٹیکل 211 اور 212 کا تذکرہ کیا اگر دائرہ کار کے بارے میں کوئی پابندی آڑے آتی ہے تو سپریم کورٹ جانتی ہے کہ وہ فیصلے کر سکتی ہے۔ 21 ویں ترمیم فوجی عدالتوں کے حوالے سے ہے 199 میں بھی ہائی کورٹ کے دائرہ کار میں فوجی عدالتیں نہیں دی گئیں۔ 212 آرٹیکل میں کوئی خاص ترمیم نہیں کی گئی۔ اس میں ایک سے زائد کورٹس اور ٹربیونلز بنانے کی اجازت دی گئی۔ تمام تر حکومتی ایکٹس کے حوالے سے اختیار دیا گیا ہے۔ اگر حکومتی ملازم قانون کی خلاف ورزی کرے تو اس دوران اگر ٹربیونل موجود ہو تو عدالت آنے کی ضرورت نہیں اس ٹربیونل سے رجوع کرنا پڑے گا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کورٹس اور ٹربیونل میں کیا فرق ہے؟ خالد انور نے کہا کہ کوئی خاص فرق نہیں ہے تاہم ٹربیونل مخصوص معاملات پر بنائے جاتے ہیں ان کا دائرہ کار بھی محدود ہوتا ہے۔ جسٹس آصف نے کہا کہ آئین نے صرف کورٹس کا ہی تذکرہ کیا ہے۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ کیا یہ دونوں ایک دوسرے کی تبدیلی کا بھی مظہر ہیں دونوں کا کام انصاف کی بے لاگ فراہمی ہے۔ جسٹس آصف نے کہا کہ جن مقدمات میں حلف پر شہادت دی جاتی ہے وہ عدالت کہلاتی ہیں جبکہ باقی ٹربیونل کہلاتے ہیں۔ آئین نے فرق روا رکھا ہے تو اس کی کوئی وجہ بھی ہو گی۔ خالد انور نے انکم ٹیکس ٹربیونلز کا بھی تذکرہ کیا یہ کبھی بھی روایت نہیں رہی کہ ٹربیونل اور عدالت میں فرق روا رکھا گیا ہو۔ قانونی طریقہ کار ہے تمام تر ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کرتے ہیں۔