آپ امیر ہیں یا غریب‘ کامیاب ہیں یا ناکام یہ سب آپ کے سوچنے کے انداز پر منحصر ہے۔ آپ کی بیرونی دنیا آپ کی اندرونی دنیا کا عکس ہے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے : ’’جو اپنے اندرونی حالات کو درست کر لیتا ہے خدا اس کے بیرونی حالات کو بہتر کر دیتا ہے۔‘‘
اس دنیا میں نہ کوئی امیر ہے اور نہ کوئی غریب، یہ سب اپنا اپنا خیال ہے۔ خیال مغلوب اور بے کار ہو تو انسان غریب ہے۔ اعلیٰ خیال اور سوچ آپ کو بادشاہ بنا دیتی ہے۔ اپنے سے کم درجے والے سے موازنہ کیا جائے تو آپ امیر ہیں اور اگر خود سے بڑے مرتبے والے سے موازنہ کیا جائے تو آپ ایک غریب انسان ہیں۔ غریبوں کی بستی میں متوسط کو امیر سمجھا جاتا ہے۔ اور امیروں کی بستی میں متوسط کو غریب خیال کیا جاتا ہے۔
یعنی دوسروں سے موازنہ ہی آپ کو غریب یا امیر بناتا ہے۔ ورنہ سب سے بڑی غربت یہ ہے کہ آپ خود کو ضرورت مند اور غریب تصور کریں۔
کامیابی کے ماہرین کی تحقیق کے مطابق خوشحال اور خوشحالی حاصل کرنے والوں کی سوچ بدحال اور بد حالی کی طرف جانے والوں سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ اگر ہم بھی ویسا ہی سوچنے کا انداز اپنائیں تو خوشحالی اور کامیابی ہمارا مقدر بن سکتی ہے۔Robert T. Kiyosaki نے طویل غورو فکر کے بعد ایک شاندار کتاب Rich Dad Poor Dad تحریر کی جس میں اس نے یہ حقیقت واضح کی دولت مند اور کامیاب لوگ خوشحال اور کامیابی کے بارے میں اپنے بچوں کو کیا سکھاتے ہیں؟ جو غریب اور درمیانے طبقے کے لوگ نہیں سکھا پاتے۔ یہ کتاب امیر اور غریب کی سوچ کے تضاد کو بھی آشکار کر دیتی ہے۔ اس کتاب کے متعلق بین الاقوامی شہرت یافتہ مصنفت Zig Ziglar نے کہا :’’اپنی معاشی حالت کو سدھار نے کے لئے آپ کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ یہ آپ کے مالی مستقبل کو روشن بنا سکتی ہے۔‘‘
ٹینٹ چیک آف امریکا کے صدر Sobran نے اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کیا:’’کاش میں نے یہ کتاب جوانی میں پڑھی ہوتی بلکہ بہتر ہوتا کہ میرے والدین اس کتاب کا مطالعہ کرتے‘‘
مصنف کے افکار حقیقت پر مبنی ہیں ان کو ہم کچھ اس طرح ترتیب دے سکتے ہیں۔
*خوشحال اور امیر لوگ اپنی زندگی کی ناکامیوں‘ غلطیوں اور نادانیوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ اس لئے وہ ان کی اصلاح کر کے کامیاب ہو جاتے ہیں۔ جبکہ غریب اپنی ناکامی کی داستان کا ذمہ دار‘ حالات‘ واقعات‘ ماحول والدین اور قسمت کو ٹھہراتا ہے۔ وہ ان سب چیزوں کو نہیں بدل سکتا اور ناکام ہو جاتا ہے۔’’آپ خود پر اختیار رکھے بغیر دنیا پر اختیار حاصل نہیں کر سکتے دنیا فتح کرنے سے پہلے خود کو فتح کرنا پڑتا ہے۔‘‘
*امیر اور کامیاب شخص نے ہر صورت امیر اور کامیاب ہونے کا عہدہ کیا ہوتا ہے۔ وہ کامیابی کے لئے جنونی ہوا ہوتا ہے جبکہ غریب لوگ صرف امیر ہونے کی خواہش رکھتے ہیں اور فقط خواہش سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ایک مضبوط عہد اور اٹل فیصلہ آپ کو عمل اور کوشش پر اُابھارتا ہے۔ خواہشات تو سب کے پاس ہوتی ہیں۔
بے عمل دل ہو تو جذبات سے کیا ہوتا ہے۔۔۔دھرتی بنجر ہو تو برسات سے کیا ہوتا ہے
ہے عمل لازمی تکمیلِ تمنا کے لئے۔۔۔ورنہ رنگین خیالات سے کیا ہوتاہے
یہ ایک آفاقی اصول ہے کہ جب آپ دل سے کسی چیز کو پانے کی خواہش کرتے ہو تو کائنات کا ذرہ ذرہ آپ کو اُس سے ملانے کی سازش کرتا ہے۔
*کامیاب لوگ ہر میدان میں جیتنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ غریب اور ناکام لوگ یہ چاہتے ہیں کہ انھیں ہار کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اسی طرح لائق طالب علم اعلیٰ نمبر حاصل کرنے کا سوچتا ہے اور پوزیشن حاسل کرنے کے لئے جدوجہد کرتا ہے جبکہ نالائق صرف اور صرف پاس ہونے کے لئے کتابیں کھولتا ہے۔
*امیر لوگ بہت سی دولت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جس سے وہ اپنی خواہشات کو پورا کریں اور من پسند زندگی گزار سکیں۔ غریب بے چارہ عقل کا مارا صرف اتنے پیسے حاصل کرنا چاہتا ہے کہ گھر کے بل ادا ہو سکیں۔
*کامیاب اور خوشحال لوگ بڑے بڑے مقاصد رکھتے ہیں اور بڑے مقاصد ان کے اندر جوش و جذبہ پیدا کر دیتے ہیں۔ وہ ان کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتے۔ غریب لوگ اول تو کوئی واضح مقصدِ حیات نہیں رکھتے اور اگر کوئی ہدف ہوتا بھی ہے تو وہ اتنا پست کہ اُس میں جذباتی کیفیت نہیں پائی جاتی اور وہ مقصد ان کو عمل نہیں ابھارتا۔
*امیر لوگوں کو اچھے مواقع تلاش کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ غریب گھر بیٹھ کر قسمت کی دیوی کا انتظار کرتا ہے جو کبھی مہربان نہیں ہوتی۔
*کامیاب اور امیر لوگوں کو اپنی صلاحیتوں پر مکمل یقین ہوتا ہے۔ وہ زندگی کے مختلف مراحل میں خود کو ٹیسٹ کر چکے ہوتے ہیں اس لئے وہ خود اعتماد ہوتے ہیں۔ غریب اپنی ذات کے اندر چھپے خزانے سے واقف نہیں ہوتا ہے۔ اس لئے وہ اپنی صلاحیتوں کو سستے داموں فروخت کر کے گزر بسر کرتا ہے۔
’’اگر مال و دولت کو سب میں برابر تقسیم کر دیا جائے تو بھی تمام انسانوں کی عقل برابر نہیں ہو گی اور اگر عقل برابر ہو جائے تو کوئی کسی کا ملازم بننے پر تیار نہیں ہوگا اور کوئی کسی کو بادشاہ نہیں مانے گا۔‘‘
*دولت مند لوگوں کی توقعات بہت بڑی ہوتی ہیں اور غریب کو خوشحالی کو کوئی امید نہیں ہوتی۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ جس کو ااچھے کی امید نہیں اس کے ساتھ یقیناًبُرا ہی ہوتا ہے۔
توقعات بہت بڑی طاقت رکھتی ہیں۔ یہ حالات کو جنم دینے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ اچھی توقع آپ کو تقدیر بدل سکتی ہے۔
*امیر لوگ خوشحال لوگوں کے ساتھ دوستی کرنا پسند کرتے ہیں۔ خوشحال دوست ان کی خوشحالی کے لئے ساز گار ماحول فراہم کرتا ہے اور ان کی خوشحالی کو مستحکم رکھنے کے لئے مدد گار ہوتا ہے۔غریب کے دوست بھی غریب ہوتے ہیں اور اُن کی سوچ بھی غریب ہوتی ہے۔ پنجابی میں کہتے ہیں :’’عقاباں دے یا ر عقاب تے کاواں دے یار کاں‘‘ یعنی عقاب ایک عقاب سے ہی دوستی کرنا پسند کرتا ہے کوے کوؤں کے ساتھ خوش رہتے ہیں۔
*امیر اور کامیاب لوگ مسائل اور رکاوٹوں سے نہیں گھبراتے۔ وہ انھیں کامیابی کے رستے کے لئے لازم و ملزوم سمجھتے ہیں ۔ وہ باد مخالف سے پیار کرتے ہیں کیوں کہ وہ انھیں اونچا اڑاتی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ایک پر سکون سمندر کبھی اچھا ملاح پیدا نہیں کرتا۔غریب لوگ مسائل اور پریشانیوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لئے وہ کامیابی سے بھی ہمیشہ کے لئے بچ جاتے ہیں۔
*خوشحال لوگ اپنی مناسب عمر سے ہی پیسے کو Save کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ غریب اول تو پیسے کماتا ہی اتنے ہے جتنا اس کی ضروریات زندگی کے لئے ضروری ہوں۔ لیکن کبھی اس کے پاس زیادہ پیسے ہوں تو وہ انھیں فضول کاموں میں اڑا دیتا ہے ۔ اس کا کل اثاثہ غربت ہوتی ہے۔
ناکام نے سوچا کہ قطرے سے کیا بنتا ہے۔۔۔کامیاب بولا قطرہ قطرہ ملے تو دریا بنتا ہے
*امیر لوگ زندگی کے ابتدائی دن سخت محنت سے گزارتے ہیں۔ اور آخری دنوں میں اپنے زندگی کے پھلوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ غریب ساری زندگی کولہو کے بیل کی طرح محنت کرنے کا عادی ہو جاتا ہے۔ اس نے زندگی میں ایک بار بھی غیر معمولی کوشش اور جدوجہد نہیں کی ہوتی۔
’’بخارات کو پانی کے دوسرے ذرات کی نسبت زیادہ حرارت جذب کر کے اور پانی کی سطح کو پھاڑ کر باہرآنا پڑتا ہے لیکن ایک بار اس کوشش کے بعد وہ بلندی پر ہوتے ہیں۔‘‘
اگر آپ کو سونے کی بالی پہننے کا شوق ہے تو کان میں سوراخ ضرور کروانا پڑے گا۔
*امیر کو دولت سے دولت بنانے کے فن کی آگہی ہوتی ہے۔ غریب کا اگر کروڑوں کا بانڈ نکل آئے تو وہ چندبرسوں میں اس دولت کو اجاڑ دیتا ہے اور پھر فٹ پاتھ پر ہوتا ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ دولت حاصل کرنا کوئی خوبی نہیں بلکہ دولت اور کامیابی کو برقرار رکھنا ایک بہت بڑی صفت ہے۔
*کامیاب لوگ خود کوعلم، مہارت و فن اور تعلیم کی مدد سے قیمتی بناتے ہیں۔ غریب ہمیشہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ سب جانتا ہے اسے کتاب سے دوستی کی کیا ضرورت ہے۔ یاد رکھیں! اس دنیا میں صرف ایک بندہ ہے جو آپ کے حالات کو بدل سکتا ہے۔ وہ بند ہ اگر چاہے تو آپ کو تا ر یکی سے روشنی، پستی سے بلندی، مایوسی سے خوشحالی اور نا امیدی سے کامیابی تک پہنچا سکتا ہے۔ وہ کوئی اور نہیں آپ خود ہو۔ آپ با اختیار ہیں کہ آپ خوشحال ہوں، آپ امیر ہوں اور آپ کامیاب ہوں اگر آپ بااختیار نہ ہوتے تو قرآن میں یہ واضح فرمان الٰہی نہ ہوتا کہ’’ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے‘‘
کامیاب اور امیر بننے کے لیے اگر آپ کو اپنے سوچنے کا انداز بدلنا پڑے تو یہ کام اتنا مہنگا نہیں۔ فقط آپ کو اپنی سوچ بدلنی ہے۔ حالات بدلنے کے لیے خیالات کو بدلا جا سکتا ہے، آئیے ان افکار کو اپنائیں جن کے متعلق Mark Victor نے یہ کہا :
’’امیر بننے اور سدا امیر رہنے کے لیے یہ دانش کے فقرے آپ اور آپ کے بچوں کیلئے جاننا بہت ضروری ہیں۔‘‘