ہمارے سیاست دان کا سب سے بڑا المیہ ہے یہ اہلیت سے زیادہ وفاداری تلاش کرتے ہیں‘ یہ آج بھی تیرا بندہ اور میرا بندہ سے باہر نہیں نکل سکے اور یہ اس سوچ کی وجہ سے آزاد لوگوں کو پسند نہیں کرتے نتیجتاً ان کے گرد جی حضوریے جمع ہو جاتے ہیں اور یہ سارا سارا دن واہ جی واہ میں گزار دیتے ہیں‘ میاں نواز شریف اس صورت حال کی بدترین مثال ہیں‘ ان کے پاس مخالف سوچ کا کوئی شخص ٹک ہی نہیں سکتا‘ نذیر ناجی بھی اسی خوشاہی کا شکار ہو گئے‘
شریف فیملی 2000ء میں ملک سے باہر چلی گئی اور یہ یہاں رہ گئے اور انہوں نے ظاہر ہے گھر بھی چلانا تھا چناں چہ یہ دوبارہ کالم لکھنے لگے‘ چودھری صاحبان جنرل مشرف کے قریب ہوگئے اور ان کے اقتدار کا زمانہ شروع ہو گیا‘ چودھریوں کو بھی نذیر ناجی جیسے ہنر مند چاہیے تھے‘ یہ ان کے قریب ہو گئے اور میاں صاحب کو ناجی صاحب کی یہ حرکت پسند نہ آئی‘ ان کی خواہش تھی ناجی صاحب بھوکے مر جاتے یا وفادار غلام کی طرح خودکشی کر لیتے لیکن ایسا نہ ہو سکا اور یوں شریف فیملی سے ان کا تعلق مدہم پڑ گیا‘ میاں صاحب 2013ء میں وزیراعظم بنے تو انہوں نے صدر آصف علی زرداری کے فیئرویل ڈنر میں نذیر ناجی کو بلایا لیکن یہ نہیں گئے اور اس کے بعد تعلق کے دروازے مکمل بند ہو گئے۔
نذیر ناجی کی ’’شبانہ ضرورتوں‘‘ کی وجہ سے ان کے ہاتھوں میں 1990ء کی دہائی میں ہی ہلکا ہلکا ارتعارش شروع ہو گیا اور انہیں لکھنے میں دقت ہونے لگی لیکن آپ اس شخص کا کمال فن دیکھیے‘ یہ اپنا کالم اور تقریریں ’’ڈکٹیٹ‘‘ کراتے تھے‘ انہوں نے اپنے تینوں بیٹوں کو اپنا اسسٹنٹ بنا لیا تھا‘ یہ بولتے جاتے تھے اور ان کے بیٹوں میں سے کوئی نہ کوئی لکھتا جاتا تھا‘ اس مشق سے ان کے بیٹوں کی اردو بھی اچھی ہو گئی اور ناجی صاحب بھی روانی سے تقریر اور تحریر کو ایک لیول پر لے آئے‘ پاکستان کی تاریخ میں دو رائیٹرز ایسے گزرے ہیں جو لکھنے کی بجائے لکھواتے تھے‘ وہ بولتے جاتے تھے اور کاتب یا سٹینو لکھتے جاتے تھے‘ ایک محی الدین نواب تھے اور دوسرے نذیر ناجی۔ محی الدین نواب اردو ڈائجسٹوں کے زمانے کے سٹار رائیٹر تھے‘
یہ قسط وار کہانیاں لکھتے تھے اور کمال کر دیتے تھے‘ وہ بھی بولتے تھے اور اسسٹنٹ لکھتے تھے اور نذیر ناجی بھی‘بہرحال 1997ء میں کمپیوٹر اور اردو سافٹ ویئر آگیا تو ناجی صاحب کا کام آسان ہو گیا‘ یہ اس کے بعد بولتے تھے اور ٹائپ کرنے والے لڑکے ٹائپ کر دیتے تھے‘ میاں نواز شریف کے دوسرے دور میں رائے ریاض وزیراعظم کے پریس سیکرٹری تھے‘وہ ناجی صاحب کے ساتھ وزیراعظم کی تقریروں پر کام کرتے تھے‘ ناجی صاحب تقریر لکھواتے لکھواتے دوسرے کمرے میں جاتے تھے اور وہاں سے ’’فریش‘‘ ہو کر واپس آتے تھے اور وہیں سے تقریر دوبارہ سٹارٹ کرا دیتے تھے جہاں سے سلسلہ ٹوٹا تھا‘ ناجی صاحب کی غیر موجودگی میں رائے صاحب تقریر کی حفاظت کرتے رہتے تھے‘ تقریر کے آخر میں یہ رائے ریاض سے پوچھتے تھے ’’رائے صاحب کیوں پھر کیسی ہے؟‘‘ اور رائے صاحب کا جواب ہوتا تھا ’’اچھی ہے بس آپ اس میں تھوڑا سا کشمیر اور اسلام ڈال دیں‘‘ اور اس کے بعد ناجی صاحب تقریر میں کشمیر اور اسلام سے متعلق دو پیرا گراف کا اضافہ کر دیتے تھے۔
مرحوم زیادہ تر کام یاب اور مشہور لوگوں کی طرح ’’بائی پولر‘‘ بھی تھے‘ پل میں تولہ بن جاتے تھے اور پل میں ماشہ‘ بہت جلد ناراض ہو جاتے تھے اور اس سے کہیں زیادہ کم وقت میں راضی بھی ہو جاتے تھے‘ مزاج پر ذرا سی بات گراں گزرتی تھی تو وہاں سے اٹھ کر چلے جاتے تھے اور دشمن پر بھی برا وقت آتا تھا تو جی جان سے اس کی مدد کرتے تھے‘ حیرت انگیز ہمت کے مالک تھے‘ ان کے پاس جب کچھ بھی نہیں تھا تو پورے یقین کے ساتھ اپنے خاندان اور بچوں کو کہتے تھے تم فکر نہ کرو وہ وقت آئے گا جب ہمارے پاس اپنا گھر بھی ہو گا اور گاڑیاں بھی اور وہ وقت پھر ان کی زندگی میں آیا‘ کام یاب لوگوں کی طرح رسک لینے کے ماہر بھی تھے‘ لگی لگائی روزی کو لات مار کر چلے جاتے تھے اور نئے سرے سے سٹارٹ کر لیتے تھے اور کام یاب بھی ہو جاتے تھے‘ تحریر میں روانی تھی اور استدلال بھی‘ ایک ایک لفظ جچا تلا اور نگینے کی طرح ہوتا تھا‘ زبان سادہ لکھتے تھے‘
فقرے چھوٹے ہوتے تھے اور ان میں ان کی یاد داشتوں کا تڑکا ہوتا تھا‘ یہ ان لکھاریوں میں شامل تھے جن کی تحریریں آپ ادھوری نہیں چھوڑ سکتے ‘ آپ نے بس ایک بار اچھی چائے کی طرح پیالی کو منہ لگا لیا اور آپ کپ خالی کیے بغیر نہیں رہ سکیں گے‘ دوسرا یہ اپنے استدلال کے ذریعے پڑھنے والوں کے ذہن پر اثر کرتے تھے‘ آپ اگر دائیں ہیں تو نذیر ناجی کو پڑھ کر بائیں ہو جائیں گے اور اگر بائیں ہیں تو آپ کو دائیں ہوتے دیر نہیں لگے گی‘ لوگوں کو ان کے کالموں کا چسکا تھا چناں چہ جب انہوں نے بیماری کی وجہ سے لکھنا بند کر دیا تو لوگ طویل عرصہ ان کے کالم تلاش کرتے رہے اور یہ تلاش آج بھی جاری ہے‘ پاکستان میں ہر مرحوم کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے ’’یہ طویل خلا چھوڑ گیا‘‘ یہ فقرہ کثرت استعمال سے اپنا اثر کھو چکا ہے اور ویسے بھی دنیا میں کسی کے جانے سے کہاں خلا پیدا ہوتا ہے اور اگر ہوتا ہے تو پھر نذیر ناجی جیسے لوگوں کے بعد ہوتا ہے‘ یہ جاتے ہیں تو اپنا فن بھی ساتھ لے جاتے ہیں‘ یہ ایسے مجاہد‘ ایسے شہ سوار ہوتے ہیں جن کے بعد میدان واقعی خالی ہو جاتا ہے‘ ناجی صاحب اپنی نوعیت کے منفرد شخص تھے اور ان کے بعد واقعی خلا پیدا ہوا‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ جاتے جاتے اپنا طرز تحریر بھی ساتھ لے گئے اور ملک میں اب ان جیسا کوئی لکھاری موجود نہیں۔
یہ جوانی سے علیل تھے‘ بائی پولر بھی تھے اور بے اعتدالیوں کی وجہ سے دمے اور بلڈ پریشر کے مریض بھی تھے‘ جوانی میں ریڑھ کی ہڈی میں بھی درد ہو گیا تھا‘ یہ درد آہستہ آہستہ ان کی ٹانگوں میں شفٹ ہوا اور یہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے‘ انہیں ویل چیئر سے نفرت تھی لہٰذا جب یہ ویل چیئر پر آئے تو باہر آنا جانا بند کر دیا‘ 2019ء میں اپنے کمرے تک محدود ہو کر رہ گئے جس کے بعد الزائمر اور ڈیمنیشا کے شکار بھی ہو گئے‘ آپ المیہ دیکھیں وہ شخص جسے اردو اور انگریزی کی ڈکشنریاں تک یاد تھیں‘ جسے پوری دنیا کا جغرافیہ ازبر تھا‘ آپ افریقہ کے کسی چھوٹے سے ملک یا شہر کا نام لیتے تھے اور وہ اس کی تاریخ‘ ثقافت اور جغرافیہ بتا دیتا تھا اور آپ کسی واقعے کا ذکر کرتے تھے اور وہ تاریخوں سمیت پوری جزئیات بیان کر دیتا تھا‘ وہ شخص آخر میں اپنے گھر والوں کی شکلیں اور نام تک بھول گیا لیکن آپ اس کے باوجود اس شخص کی استقامت اور حالات سے لڑنے کی خو دیکھیے‘ یہ روزانہ اپنے ڈیمنیشا سے لڑتا تھا اور ذہن کے اندھیرے غاروں میں یادداشت کا کوئی نہ کوئی چراغ جلانے میں کام یاب ہو جاتا تھا‘
یہ ٹٹول ٹٹول کر ذہن سے یادداشت کا کوئی نہ کوئی سرا پکڑ لیتا تھا اور کسی نہ کسی شخص کو روز یاد کر لیتا تھا اور ان کے ڈاکٹر ان کی اس خوبی پر حیران رہ جاتے تھے‘ یہ ڈیمنیشا کی حالت میں بھی 2020ء تک کالم لکھتے رہے مگر پھر25 مارچ 2020ء کو ان کا آخری کالم شائع ہوا اور اس کے بعد انہوں نے لکھنا بند کر دیا‘ ان کا ڈسپلن بھی حیران کن تھا‘ آخر وقت تک اپنی روٹین میں بندھے رہے‘ گھر کے اندر پورے ڈکٹیٹر تھے‘ ان کے بچے پچاس اور ساٹھ سال کے درمیان ہیں لیکن ان میں سے کسی کو آج بھی گھر میں سگریٹ پینے کی ہمت نہیں‘ ان کی زندگی میں دوستیاں کم اور دشمنیاں زیادہ تھیں‘ شاید اسی وجہ سے ان کے انتقال کے بعد انہیں اس طرح رخصت نہیں کیا گیا جس کے یہ اہل تھے‘ میں نے ان کے انتقال کے بعد یہ سیکھا کام یاب لوگوں کے بعد ان کے شاگرد انہیں زندہ رکھتے ہیں‘ سقراط کے پاس اگر افلاطون جیسا شاگرد نہ ہوتا یا ارسطو کو سکندر جیسا شاگرد نہ ملتا تو آج شایدتاریخ میں ان کا نام تک نہ ہوتا‘ سقراط نے زندگی میں ایک لفظ تک نہیں لکھا تھا‘
یہ افلاطون تھا جس نے اپنے استاد اور اس کے خیالات کو ابدی زندگی دے دی‘ ہمارے مشاہیر کو بھی اس حقیقت کو انڈرسٹینڈ کرنا چاہیے‘ انہیں بھی نئی پود میں ایسے شاگرد پیدا کرنے چاہییں جو انہیں مرنے کے بعد بھی زندہ رکھیں‘ میں نے کسی جگہ پڑھا تھا انسان کو زندگی میں طویل عرصے تک پڑھی جانے والی کتابیں لکھنی چاہییں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر اسے زندگی میں ایسے کارنامے ضرور کرنے چاہییں جن پر لوگ ان کے بعد کتابیں لکھیں اور نذیر ناجی اس میں مار کھا گئے‘ انہیں کم از کم اپنی آپ بیتی ضرور لکھنی چاہیے تھی یا پھر یہ ایسے شاگرد چھوڑ جاتے جو آج انہیں زندہ رکھتے لیکن ہم انسان اپنی اپنی افتاد طبع کے ہاتھوں مجبور ہیں‘ ہم اپنے مزاجوں کے غلام ہیں اور ناجی صاحب کا مزاج لوگوں سے دوری تھا اور مزاج کی اس خرابی کی وجہ سے انہوں نے اپنی زندگی کے آخری تین سال تنہائی اور لوگوں سے دوری میں گزار دیے‘ یہ بستر تک محدود ہو گئے اور دن رات لیٹ کر اپنی یادداشتوں کو ٹٹولتے رہتے تھے‘یہ آخر میں میاں عامر کے لیے بہت دعا گو تھے‘ انہوں نے 2020ء سے اخبار اور ٹیلی ویژن کے لیے کوئی کام نہیں کیا تھا لیکن میاں عامر اس کے باوجود انہیں وقت پر تنخواہ دیتے رہے اور ان کی ضرورت کا خیال بھی رکھتے رہے اور یہ ان کے کردار کی وہ خوبی ہے جس کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی۔
ہم سب دنیا میں آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں‘ نذیر ناجی صاحب بھی آئے اور چلے گئے لیکن یہ جاتے جاتے اتنا ضرور بتا گئے انسان اگر کچھ کرنا چاہے تو اس کے راستے میں تعلیم کی کمی حائل ہو سکتی ہے اور نہ خاندانی بیک گرائونڈ‘ انسان اس زندگی میں کچھ بھی کر سکتا ہے‘یہ چوتھی فیل ہونے کے باوجود بڑے بڑے پروفیسروں کو اپنے ہاتھ چومنے پر مجبور کر سکتا ہے۔