نذیر ناجی صاحب کے ساتھ میرا چار ملاقاتوں اور ایک سفر کا تعلق تھا‘ میں نے 1998ء میں ان کے ساتھ اسلام آباد سے پشاور تک سفرکیا تھا‘ سردار مہتاب خان اس وقت صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ تھے اور میجر عامر ان کے مشیر‘ میجر عامر ایک حیران کن شخصیت ہیں‘ انتہا درجے کے مہمان نواز‘ دوست باش اور موت تک تعلق نبھانے والے انسان‘ یہ شہد کا ڈرم ہیں‘ آپ اگر ایک بار اس میں گر گئے تو پھر آپ مکھی کی طرح کبھی باہر نہیں آ سکیں گے‘ میجر عامر نے مشیر بننے کے بعد ملک کے نامور کالم نگاروں اور ایڈیٹرز کو پشاور کی دعوت دی ‘ میں اس گروپ کا سب سے جونیئر ممبر تھا‘
میجر عامر نے ناجی صاحب کو مجھے ساتھ لانے کی ذمہ داری سونپی تھی‘ یہ اس وقت اکادمی ادبیات کے چیئرمین تھے‘ یوں مجھے پہلی اور آخری بار ان کے ساتھ سفر اور لمبی گفتگو کا موقع ملا‘ میں عباس اطہر صاحب کا نالائق شاگرد تھا اور شاہ جی کی اس زمانے میںناجی صاحب سے لڑائی تھی‘ یہ دونوں پوری زندگی ایک دوسرے سے لڑتے اور پھر صلح کرتے رہے‘ شاہ صاحب نے اپنے شاگردوں کے ذہن میں ناجی صاحب کا ایک خوف ناک امیج پینٹ کر رکھا تھا‘ میں اس امیج کے ساتھ انہیں ملا اور بدقسمتی سے وہ امیج مزید گہرا ہو گیا‘ مجھے محسوس ہوا یہ صرف اپنی ذات تک محدود انسان ہیں‘ غصیلے ہیں اور کسی دوسرے بالخصوص جونیئر کو قریب نہیں پھٹکنے دیتے اور گفتگو بھی کم کرتے ہیں تاہم میں اس ملاقات اور واحد سفر کے دوران ان کی تین خوبیوں کا معترف ہو گیا اور وہ تین خوبیاں تھیں ٹائم کی پابندی‘ مطالعہ اور یادداشت‘ وہ سفر کے دوران بھی کتاب پڑھتے رہے تھے اور مجھے پک کرنے سے لے کر ڈراپ کرنے تک انہوں نے وقت کی پابندی کی اور ان کی یادداشت بھی حیران کن تھی‘ انہیں تاریخیں‘ نام اور مقامات ازبر تھے‘ میں جس واقعے یا مقام کا ذکر کرتا تھا وہ فرفر اس کی پوری تفصیل بتا دیتے تھے‘ میرا اس کے بعد ان سے فون پر رابطہ رہا لیکن وہ بھی نہ ہونے کے برابر تھا لیکن اس کے باوجود میں ان کے طلسماتی کردار سے خود کو الگ نہ کر سکا۔
دنیا میں اگر لوگ سیلف میڈ ہوتے ہیں تو پھر نذیر ناجی کا نام اس فہرست کے ابتدائی ناموں میں ہونا چاہیے‘ آپ ذرا ان کے حالات کا اندازہ کیجیے‘ ان کے والد فرید کوٹ (انڈیا) کے انتہائی غریب کسان تھے‘ ان کے دس بچے تھے‘ ناجی صاحب کا دوسرا نمبر تھا‘ یہ 1938ء میں فرید کوٹ میں پیدا ہوئے‘ والد1941ء میں غربت کے ہاتھوں بے بس ہو کر خاندان کو جھنگ لے آیا‘ ناجی صاحب سکول میں داخل ہوئے لیکن غربت کی وجہ سے چوتھی جماعت کے بعد تعلیم جاری نہ رکھ سکے‘ ماں روزانہ سموسے بناتی تھی اور 9 سال کا نذیر ناجی یہ سموسے آواز لگا کر بس اڈے پر فروخت کرتا تھا اور اس سے گھر کے اخراجات چلتے تھے‘ سموسوں کی یہ آمدنی بھی بہت جلد غربت کے ہاتھوں شکست کھا گئی ‘ناجی صاحب نے اس کے بعد مزدوری شروع کر دی‘ مزدوری بھی ناکافی ہو گئی تو یہ بس کنڈیکٹر بن گئے اور یہ ان کے کیریئر کی پیک تھی‘ آپ اس شخص کی ثابت قدمی دیکھیے‘
یہ دن کو کنڈیکٹری کرتا تھا اور شام کو اپنے پرانے کلاس فیلوز سے پرانی کتابیں لے کر پڑھتا تھا‘ یہ شوق سلیبس کی کتابوں سے اخبار بینی اور لائبریریوں تک پہنچ گیا اور یہ کنڈیکٹری کے ساتھ ساتھ کتابیں پڑھتے چلے گئے‘ اس زمانے میں شاعری بھی شروع کر دی اور ٹوٹا پھوٹا لکھنا بھی شروع کر دیا‘ یہ 20 سال کی عمر میں لائل پور (فیصل آباد) چلے گئے اور وہاں ایک ادبی ہفت روزہ میں پروف ریڈر کی ملازمت کر لی‘ وہاں سے دھکے کھاتے کھاتے کراچی پہنچ گئے‘ کراچی میں اخبارات کے کاغذ بچھا کر زمین پر سوتے تھے‘ دو ‘دو دن کھانا نصیب نہیں ہوتا تھا اور دھکے اس کے علاوہ تھے‘ بہرحال قسمت نے یاوری کی اور میر خلیل الرحمن نے 1967ء میں ہفت روزہ اخبار جہاں نکالنے کا فیصلہ کیا‘ میر صاحب نے ایڈیٹر کے لیے سات لوگوں کے انٹرویوز کیے اور انہیں نذیر ناجی پسند آ گئے اور یہاں سے ان کا اصل صحافتی کیریئر شروع ہو گیا‘
یہ 29 سال کی عمر میں ایڈیٹر بن گئے‘ یہ پاکستانی صحافت کے پہلے چوتھی فیل ایڈیٹر تھے لیکن انہوں نے اس کے باوجود اخبار جہاں میں کمال کر دیا اور یہ اس دور میں سب سے زیادہ چھپنے اور بکنے والا ہفت روزہ بن گیا‘ ناجی صاحب کی شادی بھی کراچی میں ہوئی‘ ان کی اہلیہ میرٹھ کی رہنے والی اردو سپیکنگ خاتون تھیں (یہ ماشاء اللہ حیات ہیں)‘ یہ شادی بھی ان کے کردار کی اعلیٰ ترین صفت تھی اور میرے خیال میں اللہ تعالیٰ کو ان کا یہ فیصلہ پسند آ گیا اور اس شادی نے ایک عام سے صحافی کو ملک کے اعلیٰ ترین صحافیوں میں شامل کر دیا۔
نذیر ناجی مرحوم کو انگریزی نہیں آتی تھی‘چوتھی فیل شخص کو انگریزی آ بھی کیسے سکتی تھی؟ اخبار جہاں کے بعد یہ بے روزگاری کے طویل دور سے گزر رہے تھے‘ اس زمانے میں ان کا بیٹا بیمارہو گیا اور انہیں علاج کے لیے رقم چاہیے تھی‘ یہ انتہائی مجبوری کے عالم میں ایک ایڈیٹر کے پاس گئے‘ ایڈیٹر صاحب ان کی مجبوری سن کر مسکرائے اور کہا‘ آپ کو رقم مل جائے گی مگر آپ کو اس کے عوض چار مضامین کا ترجمہ کرنا پڑے گا‘ ایڈیٹر نے اس کے ساتھ ہی انہیں انگریزی کے مضامین پکڑا دیے‘ وہ جانتا تھا ناجی صاحب کو انگریزی نہیں آتی اور یہ مضامین کا ترجمہ نہیں کر سکیں گے‘ وہ شاید انہیں ٹالنا چاہتا تھا یا انہیں ان کی ادھوری تعلیم کا طعنہ دینا چاہتا تھا لیکن بہرحال یہ مضامین لے کر گھر چلے گئے اور 34 سال کی عمر میں اپنی بیگم سے زندگی میں پہلی بار اے بی سی سیکھنی شروع کر دی‘یہ اگلے دن بازار سے انگریزی کی ڈکشنریاں بھی ادھار لے آئے اور ڈکشنری سے ایک‘ ایک لفظ نکال کر مضامین کا ترجمہ کر دیا‘ پھر اسے سلیس اور رواں اردو میں لکھا‘
یہ اس کام میں دن رات لگے رہے‘ مضامین مکمل ہو گئے تو ناجی صاحب نے ان کا معاوضہ لیا اور اپنے بیٹے کا علاج کرالیا‘ میں نے دو دن قبل ناجی صاحب پر اس ایڈیٹر کا تعریفی نوٹ پڑھا اور بے اختیار ہنس پڑا‘ بہرحال اس زیادتی نے ان کے لیے انگریزی کا راستہ کھول دیا اور یہ آدھی سے زیادہ آکسفورڈ ڈکشنری گھول کر پی گئے اور اگلے 45سال انگریزی اخبارات اور کتابیں پڑھتے رہے‘مرحوم وسیع المطالعہ تھے‘ روزانہ پانچ گھنٹے پڑھتے تھے‘ انگریزی اور اردو اخبارات تفصیل سے پڑھتے تھے اور اس کے بعد کتابیں پڑھتے تھے‘ رات کتنی ہی دیر سے کیوں نہ سوئیں لیکن صبح جلدی اٹھتے تھے اور سب سے پہلے اخبار پڑھتے تھے‘ الفاظ کے معاملے میں بہت حساس تھے‘ منو بھائی اپنے کالم میں ہمیشہ ’’پیشن گوئی‘‘ لکھتے تھے جب کہ ناجی صاحب کا دعویٰ تھا یہ لفظ پیش گوئی ہے‘ ایک دن جمعہ کے دن منو بھائی کا کالم چھپا اور اس میں پیشن گوئی لکھا ہوا تھا‘ ناجی صاحب نے انہیں فون کیا اور دونوں کے درمیان ٹھیک ٹھاک جھڑپ ہو گئی‘ آخر میں ناجی صاحب نے آستینیں چڑھائیں اور منو بھائی کو الٹی میٹم دیا‘ میں تمہارے گھر آ رہا ہوں اور آج یہ فیصلہ ہو کر رہے گا‘ انہوں نے اس کے بعد انیق ناجی کو بھجوا کر رکشہ منگوایا‘ گھر میں موجود تمام لغات رکشے میں رکھیں‘ بیٹے کو ساتھ لیا اور چوہان روڈ سے منو بھائی کے گھر ریواز گارڈن پہنچ گئے‘ منو بھائی بھی اپنا گولہ بارود تیار کر کے بیٹھے تھے اور اس کے بعد دونوں کے درمیان پیشن گوئی اور پیش گوئی پر ساڑھے تین گھنٹے جنگ ہوئی‘ آخر میں یہ نتیجہ نکلا‘ دونوں لفظ ٹھیک ہیں تاہم دونوں کے استعمال کے مواقع مختلف ہوتے ہیں‘ اس جنگ پیشن گوئی کے دوران انیق ناجی پاگلوں کی طرح دونوں بزرگوں کو دیکھتا رہا۔
نذیر ناجی ذوالفقار علی بھٹو کے عاشق اور جنرل ضیاء الحق کے کھلم کھلا دشمن تھے‘ یہ پیپلز پارٹی کے اخبار مساوات کے ایڈیٹر بھی رہے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے پرستار بھی تھے لیکن پھر 1986ء میں یہ محترمہ کا انٹرویو کرنے لندن گئے‘ اس زمانے میں یہ نوائے وقت سے منسلک تھے اور انہیں مجید نظامی نے لندن بھجوایا تھا‘ ناجی صاحب طے شدہ وقت پر پیپلز پارٹی کے دفتر پہنچ گئے مگر بے نظیر نے انہیں ٹائم نہیں دیا‘ سٹاف کا کہنا تھا بی بی انٹرنیشنل میڈیا کے ساتھ بزی ہیں‘ ناجی صاحب کو اپنی بے عزتی محسوس ہوئی‘ یہ وہاں سے اٹھ آئے اور اس کے بعد ان کا پیپلز پارٹی کے ساتھ رومانس ختم ہو گیا اور یہ کھل کر محترمہ اور پارٹی کے خلاف لکھنے لگے‘ میاں نواز شریف کے ساتھ ان کا تعلق 1981ء میں شروع ہوا تھا‘ میاں صاحب اس وقت پنجاب کے وزیر خزانہ تھے‘ جنرل ضیاء الحق ان کے محسن اور گرو تھے جب کہ ناجی صاحب جنرل ضیاء کے مخالف تھے مگر اس کے باوجود ان کا میاں صاحب سے قریبی تعلق پیدا ہو گیا‘
میاں نواز شریف 1990ء میں پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے تو ان کی پہلی تقریر نذیر ناجی نے لکھی اور اس کے بعد یہ ان کے تقریر نویس ہو گئے‘ میاں نواز شریف نے 1999ء تک قوم سے جتنے بھی خطاب کیے وہ ناجی صاحب نے تحریر کیے تھے سوائے دو تقریروں کے‘ ایک کارگل سے متعلق تھی اور دوسری شاید بجلی کے نرخ سے متعلق تھی‘ 12 اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف کو برطرف کرنے کی تقریر بھی ناجی صاحب نے لکھی تھی‘ میاں صاحب انہیںجہاز میں بٹھا کرلے گئے تھے اور راستے میں انہیں تقریر لکھنے کا ٹاسک دیا گیا تھا اور یہ تقریر بعدازاں میاں صاحب کے اقتدار کے خاتمے اور نذیر ناجی کی گرفتاری کا باعث بن گئی‘نذیر ناجی بھی وزیراعظم کے ساتھ وزیراعظم ہائوس میں گرفتار کر لیے گئے‘ ان کی رہائی میں میرا کردار تھا اور ناجی صاحب نے باہر آ کر فون کر کے میرا شکریہ ادا کیا تھا‘ میاں نواز شریف 10دسمبر 2000ء کو سعودی عرب جلاوطن کر دیے گئے‘ جلاوطنی کے دوران شریف فیملی کے ساتھ ان کا تعلق کم زور ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ یہ تعلق ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گیا‘ یہ کیوں اور کیسے ہوا؟ یہ میں آپ کو اگلے کالم میں عرض کروں گا۔
نوٹ: 6 سے 9 مارچ کو ہمارا گروپ کرتارپور(ننکانہ) جا رہا ہے‘ آپ اس گروپ کا حصہ بننے کے لیے ان نمبرز پر رابطہ کر سکتے ہیں۔