خواجہ سعد رفیق دو نسلوں سے سیاست دان ہیں‘ ان کے والد خواجہ محمد رفیق پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی اور پاکستان اتحاد پارٹی کے سربراہ تھے‘ یہ 20 دسمبر 1972ء کو ائیرمارشل اصغر خان کی کال پر بھٹو حکومت کے خلاف یوم سیاہ کے جلوس کی قیادت کر رہے تھے تو انہیں پنجاب اسمبلی کے نزدیک گولی مار کر شہید کر دیاگیا تھا‘ خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق اس وقت سٹوڈنٹ تھے‘ والدہ بیگم فرحت رفیق استاد اور سیاست دان تھیں‘
انہوں نے دونوں بھائیوں کو بڑی مشکل سے پروان چڑھایا‘ خواجہ برادران نے 1997ء میں ن لیگ سے سیاست کا آغاز کیا اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے پارٹی کی پہلی صف میں پہنچ گئے‘ 8 فروری 2024ء کو خواجہ سعد رفیق نے این اے 122سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور یہ 39 ہزارووٹوں سے ہار گئے‘ سردار لطیف کھوسہ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے ان کے مدمقابل تھے‘ کھوسہ صاحب یہ الیکشن جیت گئے‘ اس الیکشن میں سعد رفیق پہلے سیاست دان تھے جنہوں نے فوری طور پر نہ صرف اپنی شکست تسلیم کی بلکہ اپنے حریف سردار لطیف کھوسہ کو مبارک باد بھی پیش کی جب کہ باقی 99 فیصد امیدوار ایک دوسرے پر دھاندلی کا الزام لگا رہے ہیں‘ پی ٹی آئی نے بھی 70حلقوں میں دھاندلی کا دعویٰ کر دیا ہے‘ ان حالات میں خواجہ سعد رفیق نے شکست تسلیم کر کے اعلیٰ ظرفی اور بڑے دل کا مظاہرہ کیا اور آپ اس کا نتیجہ ملاحظہ کر لیں‘ این اے 122میں کسی قسم کا فساد‘ لڑائی یا مزاحمت نہیں ہوئی‘ وہاں کوئی دھرنا چل رہا ہے‘
کوئی سڑک بند ہے اور نہ عوام کو کوئی تکلیف ہو رہی ہے جب کہ باقی حلقوں میں عوامی زندگی مفلوج ہوتی چلی جا رہی ہے‘ لاٹھی چارج اورآنسو گیس بھی چل رہی ہے‘ہم اگر اس ملک کو واقعی چلانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں خواجہ سعد رفیق کی سپرٹ اور اعلیٰ ظرفی اپنانا ہو گی‘ہمیں اپنا دل بڑا کرنا پڑے گا‘ اپنی شکست ماننا ہو گی اور مخالف کو مبارک باد دے کر اس کا حق اسے سونپنا ہو گا اور مخالف کو بھی فتح کے بعد دشمن سے انتقام نہ لینے کا اعلان کرنا ہو گا‘ یہ ملک پھر چل سکے گا ورنہ یہ الیکشن خدانخواستہ ملک کا آخری الیکشن ثابت ہو گا اور اس بار عالمی طاقتیں پاکستان میں مارشل لاء لگوائیں گی‘ یہ کھل کر مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو امداد اور تعاون دیں گی جس کے بعد ملک سے سیاسی جماعتوں کا مکمل صفایا ہو جائے گا چناں چہ ہمارے لیے بہتر ہے ہم حالات کی نزاکت سمجھیں اور ہوش کے ناخن لیں۔
میں عمران خان کی طرز سیاست کو پسند نہیں کرتا لیکن اس کے باوجود سمجھتا ہوں ریاست اور سیاسی جماعتوں نے مل کر پی ٹی آئی کا راستہ روک کر دیکھ لیا‘ عمران خان کو جیل میں ڈال دیا گیا‘
اسے سائفر‘ توشہ خانہ اور عدت میں نکاح کے جرم میں 31 سال قید اور ایک ارب 57کروڑ روپے جرمانہ بھی کر دیاگیا‘خان پر 190 ملین پائونڈز اور نو مئی کے واقعات کے مقدمات بھی زیر سماعت ہیں‘ عمران خان کو ان میں بھی سزا ہو جائے گی جس کے بعد ان کی مجموعی سزا 50سال تک پہنچ جائے گی‘ ان کی پارٹی بھی توڑ دی گئی‘ لیڈرز جیل میں پھینک دیے گئے یا سیاست سے باہر کر دیے گئے یا پھر دوسری سیاسی جماعتوں میں تقسیم کر دیے گئے‘ ان کی تصویر‘ آواز اور فوٹیج پر بھی پابندی لگا دی گئی‘ ان سے انتخابی نشان بھی چھین لیا گیا اور ان کی انتخابی کمپیئن پر بھی پابندی رہی مگر اس کے باوجود عمران خان نے بھرپور الیکشن لڑا اور عوام نے اسے ووٹ دیے‘ یہ اس وقت بھی بڑی سیاسی قوت ہے اور اگر اس کا صرف ایک بازو کھول دیا جائے تو یہ کے پی کے ساتھ ساتھ پنجاب اور وفاق میں حکومت بنا لے گا چناں چہ میں تمام تر مخالفت اور ناپسندیدگی کے باوجود یہ سمجھتا ہوں حکومت بنانا اب عمران خان کا حق ہے‘
عوام نے اگر اسے ووٹ دیے ہیں اور عوام اگر اسے حکمران دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر اسے موقع ملنا چاہیے اور سیاسی جماعتوں اور ریاست کو کھلے دل کے ساتھ پی ٹی آئی کا مینڈیٹ تسلیم کرنا چاہیے‘ ان نتائج کے بعد پی ٹی آئی کو نہ ماننا ملک اور جمہوریت کے ساتھ بھی زیادتی ہو گی اور میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے ساتھ بھی‘ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی حکومت نے ملک کی پرانی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کا جنازہ بھی نکال دیا تھا‘ آج اگرمیاں نواز شریف اکیلے کھیل کر بھی ہار گئے ہیںتو اس کی وجہ 16 ماہ کی خوف ناک سیاسی غلطیاں ہیں‘ یہ اگر 2022ء میں عمران خان کو نہ ہٹاتے یا نئے الیکشنز کی طرف چلے جاتے تو آج صورت حال مختلف ہوتی لیکن بہرحال جب انسان کی عقل مائوف ہو جائے تو پھر اس کا یہی نتیجہ نکلتا ہے‘ میاں صاحب اگر اب بھی مانگے تانگے کی حکومت بنا کر پی ڈی ایم کا تجربہ دہراتے ہیں تو اس بار نتیجہ پہلے سے بھی زیادہ خوف ناک نکلے گا‘
عمران خان انہیں جیل میں بیٹھ کر چلنے نہیں دے گا‘ یہ اتحادیوں کو سنبھال سنبھال کر بھی تھک جائیں گے‘ ملک کا رہا سہا بیڑا بھی غرق ہو جائے گا اور آخر میں ان کی پارٹی بھی زیرو ہو جائے گی‘ یہ لوگ اس کے بعد بلدیاتی الیکشن بھی لڑنے کے قابل نہیں رہیں گے اگر یقین نہ آئے تو میاں صاحب صرف یہ دیکھ لیں ان کی پارٹی کا ہر وہ شخص جو عمران خان کے خلاف زیادہ بولتا تھا عوام نے اسے الیکشن بوتھ میں زندہ گاڑھ دیا اور جو بچ گئے ہیںاس کی وجہ ووٹرز کی بجائے ’’سپورٹرز‘‘ ہیں‘ میاں صاحب کو آراوز نے 20سیٹیں دی ہیں‘ یہ اگر ان حالات میں حکومت لے لیتے ہیں تو دو سال بعد ان سب کی ضمانتیں ضبط ہو جائیں گی چناں چہ میاں صاحب کو چاہیے یہ ضد سے اپنا اور ملک کا مزید نقصان نہ کریں‘یہ خواجہ سعد رفیق کی طرح کھلے دل کے ساتھ اپنی ہار مانیں‘
عمران خان کا مینڈیٹ تسلیم کر لیں اور اسے حکومت بنانے کا موقع دیں‘ ملک اور ان کی ذات کی اسی میں فلاح ہے اور اگر یہ ایسا نہیں کرتے تو پھر دو اڑھائی سال بعد دوبارہ الیکشن کرانے پڑیں گے اور ان میں عمران خان ستر فٹ کا بن کر نکلے گا اور ملک کی تمام سیاسی جماعتیں مل کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکیں گی۔
میں نے آج سے چند دن قبل دوستوفسکی کا ایک قول تحریر کیا تھا ’’آپ جس عورت سے محبت کرتے ہیں‘ اسے بھولنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ اس سے شادی کر لیں ورنہ آپ تمام عمر اس سے محبت کرتے رہیں گے‘‘ عوام نے ان الیکشنز میں عمران خان سے محبت کا اظہار کر دیا ہے‘ آپ اسے حکومت بنانے دیں تاکہ یہ محبت اپنے مکمل انجام کو پہنچ سکے اگر محبت سچی ہوئی اور عوام کا فیصلہ درست ہوا تو سسٹم اور ملک چل پڑے گا اور ہم 75 برس بعد رائیٹ ٹریک پر آ جائیں گے اور اگر یہ بت بھی مٹی کا تودا نکلا تو قوم کی خارش ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی اور لوگ اپنا سر پیٹ کرچپ بیٹھ جائیںگے یوں مسئلہ ختم ہو جائے گا‘
دوسرا ہم اگر جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو پھر ہمیں عوام کی رائے کا احترام کرنا ہو گا اور عوام نے عمران خان کے حق میں ووٹ دے دیا ہے اگر ہم اس کے بعد بھی یہ مینڈیٹ نہیں مانتے تو پھرہم ’’جمہوری منافقت‘‘ کا شکار ہیں اور منافقت کسی بھی فیلڈ میں ہو اس کا نتیجہ کبھی مثبت نہیں نکل سکتالہٰذا ہم خود کو جمہوری ثابت کریں یا پھر جمہوریت کا راگ الاپنا بند کر دیں‘ ہمیں پھر اب جمہوریت کو سلام کر کے کھل کر ایک بار ہی ملک میں مکمل آمریت کا اعلان کر دینا چاہیے تاکہ عوام کی انتخابی خارش بھی ختم ہو جائے اور اربوں روپے بھی بچ جائیں‘ ہم ہر سال اسمبلیوں اور سینیٹ پر کھربوں روپے ضائع کرتے ہیں‘ قومی اسمبلی کی ایک منٹ کی کارروائی پر سوا دو لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں‘ یہ بھی بچ جائیں گے‘
کیا یہ تماشا نہیں قوم چار پانچ سال بعد الیکشن پر 100 ارب روپے ضائع کرتی ہے‘ سیاسی جماعتیں بھی اقتدارمیں آنے کے لیے اربوں روپے خرچ کردیتی ہیں لیکن اس ساری ایکسرسائز کے بعد آخر میں صرف وہ پارٹی حکومت بنا پاتی ہے جسے اسٹیبلشمنٹ اقتدار میں دیکھنا چاہتی ہے جب کہ دوسری سیاسی جماعتیں سڑکوں پر مارچ کرتی رہتی ہیں چناں چہ اس ساری ایکسرسائز کا کیا فائدہ؟ ملک کا امن بھی گیا‘ ریاست پر یقین بھی کم ہوتا چلا گیا‘ عوام کا دل بھی ٹوٹ گیا‘ دنیا کو بھی ہماری جمہوریت پر اعتماد نہ رہا‘ اسٹیبلشمنٹ کی ذمہ داریاں بھی بڑھ گئیں اور قوم کا سرمایہ بھی ضائع ہو گیا‘ آخر اس نام نہاد جمہوری کھیل کا کیا فائدہ ہورہا ہے؟ آپ کو اگر اس کھیل پر یقین نہیں ہے تو آپ اسے ختم کیوں نہیں کر دیتے؟ آپ پانچ دس سال بعد دس بارہ لوگ بیٹھا کریں اور نئے پوپ کا فیصلہ کر لیا کریں‘
قوم کا وقت اور سرمایہ دونوں بچ جائیں گے اور آپ اگر یہ نہیں کرنا چاہتے تو پھر عوام کی رائے پر اعتماد کریں‘ لوگوں کا فیصلہ مان لیں‘ لوگوں کی رائے پر اگر ملک بن سکتا ہے تو یہ چل بھی سکتا ہے‘ آزما کر تو دیکھیں اور اگر ملک نہیں چلے گا تو لوگ اپنی رائے تبدیل کر لیں گے‘ آپ انہیں موقع تو دیں‘ دو اڑھائی سال میں کوئی قیامت نہیں آئے گی چناں چہ ہار مانیں‘ عوام کا مینڈیٹ تسلیم کریں اور عمران خان کو آنے دیں‘ تیسری مرتبہ مصنوعی حکومت کا ناکام تجربہ نہ کریں‘ اس کا نتیجہ اس مرتبہ بھی وہی نکلے گا جو 2022ء میں نکلا تھا کیوں کہ غلطیاں جب بھی حاملہ ہوتی ہیں یہ غلطیاں ہی جنم دیتی ہیں‘ ان کی کوکھ سے خیر پیدا نہیں ہوتی۔