گوادر کے پہاڑ پر سنگھار کے نام سے ایک ہائوسنگ سکیم ہے‘ میں اگر دعویٰ کروں پاکستان میں اس سے زیادہ خوب صورت لوکیشن کوئی نہیں تو یہ غلط نہیں ہو گا‘ یہ مقام حقیقتاً خوب صورت ہے اور یہ اگر کسی دوسرے ملک میںہوتی تو یہاں اب تک کھربوں روپے کے ہوٹلز‘ ریزارٹس اوربیچز بن چکی ہوتیں‘ یہ ہائوسنگ سکیم پہاڑ پر ایسی جگہ واقع ہے جہاں تین اطراف سے سمندر دکھائی دیتا ہے اور پھر اس کے قدموں میں تین طرف سے بیچ ٹائپ ساحل بھی ہیں‘ یہ سکیم 1992ء میں شروع ہوئی لیکن آج 32 برس بعد بھی یہاں پی سی کے علاوہ کوئی عمارت یا گھر نہیں بن سکا‘ میں 1997ء میں پہلی بار گوادر آیا تھا‘
پاکستان کی سب سے خوب صورت یہ لوکیشن اس وقت بھی ویران تھی اور یہ آج بھی ویران ہے‘ اس سے آپ گوادر میں ترقی کا اندازہ کر لیجیے‘ دوسرا جنرل پرویز مشرف کے دور میں بلڈرز اور ڈویلپرز مافیا گوادر آیا‘ اس نے لاکھوں ایکڑ زمین خریدی‘ بڑی بڑی خوب صورت ہائوسنگ سکیمیں لانچ کیں‘ لوگوں کو خواب دکھا کر لاکھوں پلاٹس بیچے‘ کھربوں روپے جیبوں میں ڈالے اور فرار ہو گیا‘ ان ہائوسنگ سکیموں میں پلاٹس تو دور آج تک بائونڈری وال نہیں بن سکیں چناں چہ اگر گوادر کو ہائوسنگ سکیموں کا قبرستان کہا جائے تو یہ بھی غلط نہیں ہوگا‘ تیسری بات ہم پچاس سال سے گوادر کو خطے کا خوب صورت ترین پورٹ سٹی بنانا چاہتے ہیں‘ ہم اب تک اس پر کھربوں روپے خرچ کر چکے ہیں‘ ہر حکومت اس کا افتتاح کرتی ہے مگر یہ شہر آج تک اس منزل تک نہیں پہنچ سکا اور شاید پہنچ بھی نہ سکے‘ کیوں؟ اس کی تین بنیادی وجوہات ہیں‘ پورٹ سٹی ریلوے کی سپورٹ کے بغیر کام یاب نہیں ہو سکتے‘
دنیا جہاں میں جہاز سازو سامان لے کر آتے ہیں‘ پورٹ پر کنٹینرز اتارے جاتے ہیں اور اس کے بعد یہ ریلوے کے ذریعے منزلوں تک پہنچائے جاتے ہیں لیکن گوادر میں ابھی تک دور دور ریلوے کا کوئی نشان نہیں چناں چہ اگر پورٹ پر سامان اترے گا تو پھر یہ ملک کے مختلف حصوں اور سنٹرل ایشیا میں کیسے جائے گا؟ چلیں ہم چند سیکنڈز کے لیے یہ مان لیتے ہیں یہ سامان ٹرکوں پر بائی روڈ بھجوایا جائے گا تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے‘ کیا کوسٹل ہائی وے یا کوئٹہ گوادر روڈ اس قابل ہے؟ ان سڑکوں پر تو ہم آج تک پٹرول پمپس اور ریسٹ ایریاز نہیں بنا سکے چناںچہ ٹرک اور ٹرالرز پٹرول کہاں سے لیں گے اور آرام کہاں کریں گے اور اگر ٹائر پنکچر ہو گئے تو پنکچر کہاںسے لگیں گے اور اگر یہ الٹ گئے تو پھر انہیں سیدھا کرنے کے لیے کرینز کہاں سے آئیں گی اور اگر یہ بندوبست ہو بھی جائے تو بھی سوال ہے ہم پھر کراچی کی بندرگاہ استعمال کیوں نہ کریں؟
کراچی بندرگاہ 1857ء میں بنی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ ریلوے بھی ہے اور سڑکوں کا نیٹ ورک بھی اور یہاں سے پچھلے 40 سال سے افغانستان اور سنٹرل ایشیا ٹرک جا رہے ہیں چناں چہ اگر یہ بندرگاہ موجود ہے تو پھر بحری جہازوں کو پہلے گوادر لے جانے اور پھر وہاں سے ٹرکوں پر سامان لاد کر کراچی لانے یا سینٹرل ایشیا پہنچانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ کام کراچی سے ہو بھی رہا ہے اور یہ مزید بھی ہو سکتا ہے‘ گوادر کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ چین کو سب سے زیادہ سوٹ کرتی ہے‘ چین اس کے ذریعے 14 دن کا فاصلہ کم کر کے 24 گھنٹوں تک لے آئے گا‘ یہ سست بارڈر کے ذریعے سامان تجارت گوادر لائے گا اور پھر یہاں سے عرب ممالک اور یورپ روانہ کرے گا‘ یہ منصوبہ بظاہر شان دار دکھائی دیتا ہے لیکن سوال یہ ہے چین اپنا تجارتی سامان گوادر پہنچائے گا کیسے؟
اس کے لیے ریلوے چاہیے اور ریلوے کی ابھی تک پہلی اینٹ بھی نہیں رکھی گئی اور اگر یہ سامان ٹرکوں کے ذریعے گوادر پہنچے گا تو کیا ہمارا انفرا سٹرکچر اسے سپورٹ کرسکے گا؟ دوسرا اگر ہم نے یہ کام ٹرکوں کے ذریعے ہی کرنا ہے تو پھر ہم کراچی کی پورٹ استعمال کیوں نہیں کرتے اور اگر ہم ان تمام سوالوں کو بھی چھوڑ دیں تو بھی سوال پیدا ہوتا ہے ہمارے ہمسائے میں صرف 170کلو میٹر کے فاصلے پر ایران کی بندر گاہ چاہ بہار موجود ہے‘ ایران کی ریلوے اور سڑکیں ہم سے کئی گنا بہتر ہیں‘ چین کے تعلقات بھی اس سے انتہائی اچھے ہیں لہٰذا چین کو گوادر کی بجائے چاہ بہار زیادہ سوٹ کرتی ہے‘اب سوال یہ ہے ہم بے وقوفی اور خوش فہمی کے چھلکے پر کیوں بیٹھے ہیں تاہم ان تمام تر ایشوز اور سوالوں کے باجود گوادر انتہائی خوب صورت مقام ہے اور پاکستانیوں کو زندگی میں کم از کم ایک بار یہاں ضرور جانا اور اسے دیکھنا چاہیے۔
ہمیں آخر میں پی آئی اے نے بھی ٹھیک ٹھاک ذلیل کر دیا‘ ہم 38 لوگوں کا گروپ تھے‘ ہم نے ایک ماہ قبل گروپ ٹکٹ خریدے تھے‘ ہماری 21 جنوری کو گوادر اور پھر کراچی سے اسلام آباد کی فلائیٹ تھی‘ ہم وقت سے پہلے گوادر ائیرپورٹ پہنچ گئے‘ ائیرپورٹ پر ٹھیک ٹھاک ہڑبونگ تھی‘ منیجر عبدالجلیل نے پہلے سٹاف کی کمی کا رونا رویا‘ پھر سسٹم ڈائون ہونے کا واویلا کیا اور پھر دائیں بائیں ہو گئے‘ ہم قطار میں کھڑے تھے لیکن بورڈنگ پاس جاری کرنے والے صاحب ہمیں روک کر وی آئی پیز کو بورڈنگ پاس جاری کرتے رہے‘ہمارے لیے سسٹم ڈائون تھا مگر وی آئی پیز کا سسٹم ایکٹو تھا‘ آخر میں اعلان کر دیا گیا جہاز فل ہو گیا ہے‘ باقی لوگ تین دن بعد جا سکیں گے‘ ہمارے 9 لوگوں کو بورڈنگ پاس نہیں ملے‘ ان میں 8 خواتین اور ایک مرد تھا‘ اب صورت حال یہ تھی خاوند کے پاس بورڈنگ پاس تھا لیکن بیوی کے پاس نہیں تھا‘ بیوی کے پاس تھا تو خاوند فلائیٹ سے محروم تھا‘ میں نے منیجر صاحب سے وجہ پوچھی تو ان کا جواب تھا‘ فلائیٹ اوور بک تھی‘
میں نے پوچھا‘ 48 سیٹوں کے جہاز کو اوور بک کیوں اور کون کر سکتا ہے؟ اس کا جواب ان کے پاس نہیں تھا‘ ہم نے پھر پوچھا‘ ہم گروپ ہیں‘ آپ نے ہمارے لوگوں کو روک کر دوسرے لوگوں کو بورڈنگ پاس کیوں دیے؟ اس پر انہوں نے دانت نکال دیے‘ ہم نے پوچھا یہ خواتین اب کراچی کیسے جائیں گی؟اگلا جہاز تین دن بعد ہے اور اس میں بھی سیٹ نہیں ہے‘ منیجر صاحب نے اس پر بھی دانت نکالنا شروع کر دیے‘ یہ صورت حال دیکھ کر خواتین بہت متفکر ہو گئیں‘ ہم سب پریشان تھے لیکن منیجر صاحب ہمیں لائونج میں چھوڑ کر جہاز کی طرف دوڑ گئے بہرحال طویل بحث کے بعد فیصلہ ہوا مردوں کے بورڈنگ پاس واپس لے کر خواتین کو بھجوا دیا جائے اور یہ لوگ بائی روڈ کراچی پہنچیں گے‘ ہم بہرحال رو دھو کر جہاز میں سوار ہو گئے‘ اب صورت حال یہ تھی بیویاں جہاز سے کراچی جا رہی تھیں اور خاوند بائی روڈ 10 گھنٹے سفر کر کے کراچی پہنچیں گے اور پھر اگلے دن نیا ٹکٹ خرید کر اسلام آباد آئیں گے‘ ان کو گوادر سے کراچی اور پھر کراچی سے اسلام آباد پہنچانا ہماری ذمہ داری تھی اور اس ذمہ داری کا ایک فنانشل دبائو بھی تھا اور انتظامات کا بھی‘ میں بہرحال باقی گروپ لے کر کراچی پہنچ گیا۔
کراچی ائیرپورٹ پر ایک نیا پھڈا ہو گیا‘ گوادر میں جن خواتین کو آف لوڈ کیا گیا تھا پی آئی اے نے ان کی فلائیٹس 21 سے 24 اور 26 جنوری کو شفٹ کر دی تھیں‘ سسٹم کے مطابق یہ خواتین گوادر سے بورڈ ہی نہیں ہوئی تھیں جب کہ عملاً یہ کراچی پہنچ چکی تھیں اور ان کے پاس 21 جنوری کے کنفرم ٹکٹس تھے‘ ہمیں اب کراچی ائیرپورٹ پر بورڈنگ پاس نہیں مل رہے تھے‘ دھند کی وجہ سے دو دن سے فلائیٹس لیٹ اور کینسل ہو رہی تھیں چناں چہ ائیرپورٹ پر خوف ناک رش تھا اور اس رش میں ہمارے آدھے گروپ کی سیٹیں کینسل ہو چکی تھیں‘ یہ سیٹیں بھی خواتین کی تھیں‘
اب سوال یہ تھا یہ خواتین تین دن اکیلی کراچی میں کہاں رہیں گی اور اس سوال پر بھی پی آئی اے کا عملہ دانت نکال دیتا تھا‘ میں زندگی میں بہت کم پریشان ہوتا ہوں لیکن اس دن واقعی پریشان ہو گیا‘ ہم ملک میں سیاحت بڑھانا چاہتے ہیں لیکن صورت حال یہ ہے پی آئی اے کنفرم ٹکٹس پر دوسرے مسافر کو چڑھا دیتا ہے اور لوگ کبھی گوادر میں پھنس جاتے ہیں اور کبھی کراچی میں چناں چہ لوگ سیاحت کے لیے باہر کیسے نکلیں گے اور سیاحتی کمپنیاں یہ فنانشل برڈن کیسے برداشت کریں گی؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں‘ دوسرا گروپ کے لوگ عملاً ایسی صورت حال میں کمپنی پر چڑھ دوڑتے ہیں‘ یہ ایسی صورت حال کی ذمہ داری بھی کمپنی پر تھوپ دیتے ہیں لہٰذا پھر کام کیسے چلے گا؟ بہرحال میں کراچی ائیرپورٹ پر ایک صاحب سے دوسرے صاحب اور ایک کھڑکی سے دوسری کھڑکی پر ذلیل ہوتا رہا‘ مجھے ہر جگہ سے ناکامی ہوئی‘
آخر میں پی آئی اے کے بکنگ آفس کے ایک صاحب (غالباً ان کا نام سلیمان تھا) کو مجھ پر ترس آگیا‘ وہ صورت حال کی نزاکت سمجھ گئے اور مجھے گرائونڈ فلور پر پی آئی اے کے آفس لے گئے‘ وہاں دو صاحبوں نے مجھے پہچان کر عزت بھی دی اور حوصلہ بھی‘ انہوں نے اسلام آباد فون کر کے اپروول لی‘ مجھے نئی بکنگ دی اور یوں میں اپنے ادھورے گروپ کو لے کر اسلام آباد پہنچ گیا جب کہ باقی 9 ارکان کو شماعیل گوادر سے بائی روڈ کراچی لے کر آیا اور پھر ٹھیک ٹھاک ذلیل ہو کر اگلے روز سارا دن ائیرپورٹ پر بیٹھ کر رات کو اسلام آباد پہنچا‘ اس تجربے کے بعد میرا تاثر وہی تھا جو اس وقت پورے ملک کا ہے اور وہ یہ ہے پی آئی اے کو واقعی بند ہو جانا چاہیے‘ یہ حقیقتاً ملک پربوجھ ہے اور ہم یہ بوجھ جتنی جلد اتار لیں گے ملک پر اتنا ہی احسان ہوگا‘ یہ ادارہ روزانہ ملک کے 12 کروڑروپے بھی چوس جاتا ہے اور مسافروں کو بھی ذلیل کرتا ہے لہٰذا پھر اس کی ضرورت کیا ہے؟۔