مجھے چند سال قبل تین چار مرتبہ آسٹریلیا جانے کا اتفاق ہوا‘ میں نے آدھا آسٹریلیا دیکھا اور اپنے پرانے دوست مظہر بخاری کی کمپنی کو انجوائے کیا‘ مظہر بخاری میرے کیریئرکے ابتدائی دنوں میں ہمارا ساتھی تھا‘ وہ دبنگ ایڈیٹر تھا‘ خبر کو سمجھتا تھا اور اس کی نہایت شان دار سرخی بناتا تھا‘1996ء میں سلطان راہی قتل ہوا تو مظہر بخاری نے تاریخ ساز سرخی بنائی ’’فن کا سلطان راہ میں مارا گیا‘‘ یہ سرخی بعدازاں ہمارے استاد عباس اطہر مرحوم سے منسوب ہو گئی لیکن درحقیقت یہ مظہر بخاری نے تخلیق کی تھی اور شاہ صاحب سے اس کی داد بھی لی تھی‘
یہ اگر صحافت میں ٹک جاتا تو ہم سب سے بہت آگے نکل جاتا بہرحال یہ شیعہ سنی فسادات کی وجہ سے ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گیا اور زندگی نئے سرے سے سٹارٹ کر لی‘ مجھے آسٹریلیا میں اس سے ’’ری یونین‘‘ کا موقع ملا‘ اس نے مجھے نیوزی لینڈ میں بھی کمپنی دی‘ وہ دن بہت شان دار تھے‘ میں آج بھی یاد کرتا ہوں تو روحانی مسرت میں کھو جاتا ہوں‘ میں جس زمانے میں آسٹریلیا گیا ان دنوں وہاں الیکشن ہو رہے تھے‘ مظہر بخاری اور اس کی فیملی ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے جا رہی تھی‘ میں بھی ان کے ساتھ الیکشن سنٹر چلا گیا‘ الیکشن سنٹر کسی سکول کی عمارت میں بنا تھا‘ میرے لیے پہلی حیرت یہ تھی مجھے الیکشن کے دنوں میں کوئی ہلا گلہ ریلیاں‘ جلسے‘ جلوس‘ مار دھاڑ‘ بینرز اور پوسٹرز دکھائی نہیں دیے تھے‘
پتہ چلا اس ملک میں اس پولوشن کی کوئی گنجائش نہیں‘ امیدوار صرف الیکشن لڑتے ہیں‘ دوسروں سے نہیں لڑتے‘ دوسرا الیکشن سنٹر کے سامنے امیدواروں کے نمائندے کھڑے تھے‘ یہ ووٹرز کو اپنے اپنے امیدوار کا بروشر دے رہے تھے اور ووٹرز چپ چاپ بروشر پکڑ لیتے تھے‘ لائنیں لگی ہوئی تھیں اور انہیں سیدھا رکھنے کے لیے کوئی پولیس اہلکار‘ کوئی فوجی جوان موجود نہیں تھا‘ سیکورٹی گیٹ اور تلاشی بھی نہیں ہو رہی تھی‘ تیسرا میں بھی لائین میں لگ گیا اور مظہر بخاری کی فیملی کے ساتھ ہال میں داخل ہو گیا‘ کسی نے نہیں پوچھا آپ کون ہیں اور یہاں کیوں پھر رہے ہیں؟ میں ہال میں داخل ہوا اور تمام کیبنز اور باکسز کا جائزہ لیتا رہا‘
مجھے یہاں بھی کسی نے نہیں روکا‘ میرے سامنے لوگ بیلٹ پیپر لیتے تھے‘ کھلے ہال میں کھڑے ہو کر مہر لگاتے تھے اور اپنا ووٹ باکس میں ڈال کر چلے جاتے تھے‘ چوتھا مجھے پتا چلا آسٹریلیا میں ووٹ نہ ڈالنے پر 50ڈالر جرمانہ ہے لہٰذا کوئی شخص الیکشن کے دن گھر نہیں بیٹھ سکتا‘ اس قانون کی وجہ سے ووٹر ٹرن آئوٹ 90فیصد ہوتا ہے اور آخری بات امیدواروں کو الیکشن عملے پر مکمل اعتماد ہوتا ہے‘ الیکشن کا پراسیس بھی فول پروف ہے چناں چہ دھاندلی کا امکان ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی پارٹی یا امیدوار اعتراض کرتا ہے‘ مظہر بخاری اور اس کی فیملی نے ووٹ کاسٹ کر لیا تو میں ان کے ساتھ باہر آگیا‘ کسی نے مجھے اس وقت بھی نہیں روکا۔
میں اکتوبر میں ارجنٹائن گیا تھا‘22اکتوبر کو وہاں صدارتی الیکشن تھے‘ یہ الیکشن بہت حساس تھے‘ ارجنٹائن کا صدرالبرٹوفرنینڈز تھا اور اس کی پارٹی Justicialist Partyتھی‘ اس پارٹی اور اس صدر نے ملکی معیشت کا جنازہ نکال دیا تھا‘ ارجنٹائن کی کرنسی 180 سے 1150 پیسو فی ڈالر تک پہنچ گئی تھی جس کے نتیجے میں پورا ملک مہنگائی‘ بے روزگاری اور کساد بازاری کا شکار تھا‘ عوام دن گن گن کر نااہل حکومت اور ظالم صدر کے جانے کا انتظار کر رہے تھے‘ میں اور سہیل مقصود اس حیران کن وقت پر وہاں تھے لیکن ہم نے پورے ملک میں کسی جگہ کوئی جلسہ دیکھا ‘ نہ جلوس اور نہ ہی کسی جگہ کوئی ہنگامہ یا افراتفری تھی‘ ملک کے کسی کونے میں کوئی بینر لگا تھا اور نہ پوسٹر اور نہ تقریریں تھیں‘
عوام نے 22 اکتوبرکو چپ چاپ ووٹ دیے‘ البرٹو فرنینڈزکو فارغ کیا اور اس کی جگہ ہائوئیرملے کو صدربنا دیا‘ بات ختم۔ میں تیسری مثال ازبکستان کی دوں گا‘میں 2016ء کے الیکشن میں ازبکستان میں انٹرنیشنل آبزرور تھا‘ ازبک صدر اسلام کریموف کے انتقال کے بعد نئے الیکشن ہو رہے تھے‘ میں نے آدھا ملک پھر کر دیکھا‘ آپ یقین کریں ملک کے کسی حصے میں کسی قسم کی افراتفری نہیں تھی‘ دیواریں تک پوسٹرز اور بینرز کی آلودگی سے پاک تھیں‘ اس الیکشن کے نتیجے میں شوکت میرمانووچ صدر بن گئے‘ مجھے اس کے ساتھ ساتھ نیوزی لینڈ‘ پولینڈ‘ برطانیہ‘ امریکا‘ انڈیا اور ترکی کے الیکشن دیکھنے کا اتفاق بھی ہوا لیکن میں نے کسی ملک میں افراتفری‘ کنفیوژن اور اداروں پر عدم اعتماد نہیں دیکھا‘ان کے مقابلے میںاگر ہم 75 برسوں میں اپنا الیکشن سسٹم بھی شفاف اور سیدھا نہیں کر سکے تو پھر ہم واقعی قابل ترس ہیں‘ ہم کم از کم الیکشن ہی ٹھیک کرا لیتے‘
ہم ایک ایسا الیکشن کمیشن اور ایک ایسا فول پروف سسٹم ہی بنا لیتے جس پر سب کو اعتبار ہوتا مگر ہم جس طرح آج تک عوام کو صاف پانی‘ صاف ہوا‘ اصلی دوا‘ اچھی تعلیم‘ اچھا مستقبل اور اچھی رہائش نہیں دے سکے بالکل اسی طرح ہم انہیں آج تک سالڈ جمہوریت بھی نہیں دے سکے‘ ہم 2023ء میں بھی بلا چلا گیا اور بلا واپس مل گیا اور شاہ محمود قریشی رہا اور شاہ محمود قریشی دوبارہ گرفتار سے باہر نہیں آ سکے‘ ہم آج بھی امیدواروں سے کاغذات چھین رہے ہیں اور امیدواروں کے وارنٹ جاری کر رہے ہیں‘ الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے لیکن یہ فریضہ سپریم کورٹ کو ادا کرنا پڑ رہا ہے‘ ملک میں جمہوریت بھی ہے لیکن نگران صوبائی حکومتیں مینڈیٹ کے بغیر سال سے برسرروزگار ہیں اور یہ کھربوں روپے کے پراجیکٹس بھی چلا رہی ہیں‘ وہ الیکشن کمیشن جس نے نوے دنوں میں الیکشن کرانا تھا اس کے پانچ کے پانچ ممبرز گاڑیوں پر جھنڈے لگا کر اڈیالہ جیل جاتے ہیں اور عمران خان اور فواد چودھری کے خلاف جیل میں توہین الیکشن کمیشن کی سماعت شروع کر دیتے ہیں‘ الیکشن کمیشن الیکشن کا کام درمیان میں چھوڑ کر عدالت کا فریضہ انجام دے رہا ہے‘ یہ کبھی بلا لے رہا ہے اور کبھی بلا واپس کر رہا ہے‘ یہ 2018ء میں ن لیگ کے خلاف استعمال ہوا اور اب 2024ء میں آدھی پارٹیاں اسے ن لیگ کا سہولت کار قرار دے رہی ہیں‘ یہ کیا تماشا ہے اور یہ آخر کب تک جاری رہے گا۔
مجھے اللہ تعالیٰ نے آدھی دنیا دیکھنے کا موقع دیا‘ میں آج تک کی سیاحت سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں فرسٹ ورلڈ اپنے فرسٹ کلاس رویوں کی وجہ سے پہلی دنیا ہے جب کہ تیسری دنیا اپنی تھرڈ کلاس حرکتوں کے باعث تیسری دنیا کہلاتی ہے‘ اگر کسی قوم نے ترقی کرنی ہو تو اسے پہلے اپنے رویے اور حرکتیں تبدیل کرنی پڑتی ہیں‘ ترقی چل کر اس کے پاس آ جاتی ہے‘ اس فلسفے کی وضاحت اس مثال سے بھی کی جا سکتی ہے آپ نیویارک یا منگولیا جانا چاہتے ہیں تو آپ سب سے پہلے ڈائریکشن لیں گے‘ آپ نیویارک کی ڈائریکشن میں سفر کریں گے تو آپ نیویارک پہنچ جائیں گے اور اگر آپ کا رخ منگولیا کی طرف ہے تو آپ صحرائے گوبی میں پہنچ جائیں گے بالکل اسی طرح ترقی اور تنزلی کی بھی ڈائریکشن ہوتی ہے‘ روایات اور رویے اچھے ہوں گے تو قوم آگے نکل جائے گی اور اگر روایات اور رویے پس ماندگی میں لت پت ہیں تو قوم کبھی غربت ‘پس ماندگی اور لاچارگی سے باہر نہیں آسکے گی اور ہمارا المیہ بھی یہی ہے‘
ہم اگر الیکشن بھی بے ایمانی‘ دھاندلی اور اپنے ذاتی مفاد کی بنیاد پر کرائیں گے‘ ہم اگر کم زور‘ ان پڑھ اور نالائق لوگ آگے لے کر آئیں گے اور ہم اگر ایسی پارٹیوں اور گروہوں کو منتخب کرائیں گے جو کل ہمارے سامنے بول نہ سکیں یا آزادی کے ساتھ کام نہ کر سکیں تو پھر ملک کیسے چلے گا؟ آپ فرض کریں آپ کے پاس نیا اور بڑا جہاز ہے اور آپ اس کے لیے چن کر نالائق پائلٹ بھرتی کرلیتے ہیں اوراس کے بعد اس کی توجہ اصل کام سے ہٹا کر دوسرے کاموں میں لگا دیتے ہیں تو پھر اس جہاز کا کیا بنے گا؟ ہم بالکل اسی طرح الیکشن میں کم زور ترین اور نالائق ترین لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انہیں کام بھی نہیں کرنے دیتے‘ میاں نواز شریف نے اپنا دور عمران خان کا دھرنا اور پانامہ کے مقدمات میں گزار دیا تھا‘
اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ ملک تباہ ہو گیا‘ عمران خان نے بھی اپنا وقت ملک چلانے کی بجائے اپوزیشن کو جیل اور میڈیا میں ذلیل کرنے پر صرف کیا اور اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ اور اب جو حکومت بنے گی کیا عمران خان اسے چلنے دے گا اور کیا یہ بھی اتحادیوں کو راضی کرتے کرتے وقت نہیں گزارے گی اور اس کے نتیجے میں بھی کس کا نقصان ہو گا؟ کیا ملک برباد نہیں ہو گا لہٰذا خدا خوفی کریں اورکم از کم الیکشن کا قبلہ ہی ٹھیک کر لیں‘ ایک ہی بار آزاد اور مکمل خود مختار الیکشن کمیشن بنا دیں اور حقیقی طور پر صاف اور شفاف الیکشن کرا دیا کریں‘ الیکشن کی تاریخیں بھی ایک ہی بار فکس کر دیں اور اس کا طریقہ کار بھی طے کر دیں ملک میں پھر تبدیلی آئے گی‘ ہم رائونڈ ابائوٹ پر مزید کتنا عرصہ گاڑی چلا لیں گے؟ ہم اگر ملک میں الیکشن خالص نہیں کرا رہے تو ہمیں دودھ والا خالص دودھ کیسے دے گا اور ہمیں میڈیکل سٹورز پر اصلی دوائیں کیسے ملیں گی؟ ایک لمحے کے لیے ضرور سوچیے۔