مورائیٹس (Stamatis Moraitis) ایکاریا (Ikaria) میں پیدا ہوا تھا‘ ایکاریا یونان کا چھوٹا سا جزیرہ ہے اور ترکی سے صرف 30 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے‘ آپ فیری کے ذریعے چند منٹوں میں ترکی سے ایکاریا پہنچ سکتے ہیں‘ یہ جزیرہ اس وقت پوری دنیا میں مشہور ہے‘ کیوں؟ یہ میں آپ کو آگے چل کر بتائوں گا‘ مورائیٹس جوانی میں امریکا آ گیا‘ کام کیا اور خوب پیسے کمائے لیکن پھر اسے 66 سال کی عمر میں پھیپھڑوں کا کینسر ہو گیا اور یہ دو سیڑھیاں بھی نہیں چڑھ سکتا تھا‘
ڈاکٹرز کا خیال تھا یہ زیادہ سے زیادہ چھ ماہ زندہ رہ سکتا ہے اور وہ بھی کیموتھراپی کے ذریعے‘ مورائیٹس کو جب موت نظر آئی تو اس نے فیصلہ کیا میں امریکا کی بجائے اپنے گائوں ایکاریا میں مروں گا‘ اس نے اپنی زمین جائیداد بیچی اور 1976ء میں اپنے آبائی گائوں آ گیا‘ ایکاریا پہنچ کر عجیب معجزہ ہوا‘ اس کی طبیعت سنبھلنے لگی‘ پہلے اس کی ادویات چھوٹ گئیں اور پھر اس نے اپنے پائوں پر چلنا شروع کر دیا اور ایک سال بعد وہ نہ صرف پہاڑ پر چڑھ جاتا تھا بلکہ اس نے کھیتی باڑی بھی شروع کر دی اور وہ انگوروں کی شراب بھی بنانے اور پینے لگا‘ مورائیٹس ایکاریا پہنچ کر 102 سال زندہ رہا‘ 2013ء میںاس کا انتقال ہوا اور اس نے 1977ء کے بعد کوئی دوا کھائی اور نہ وہ بیمار ہوا‘ اس دوران کینسر اس کے وجود سے مکمل طور پر غائب ہو گیا‘ مورائیٹس کے بارے میں امریکا میں مضامین شائع ہوئے تو ڈین بوئٹنر (Dan Buettner) ایکاریا کی طرف متوجہ ہو گیا‘ بوئٹنر سائیکلسٹ‘ مہم جو‘ رائیٹر اور سیاح ہے‘
اس نے تین گنیزبک ورلڈ ریکارڈ بھی بنائے تھے‘ یہ مورائیٹس کی طویل عمر کا راز جاننے کے لیے ایکاریا پہنچا اور وہ یہ جان کر حیران رہ گیا ایکاریا میں زیادہ تر لوگوں کی عمر سو سال سے زیادہ ہے اور یہ اس عمر میں بھی چلتے پھرتے اور دوڑتے بھاگتے ہیں اور انہیں کوئی مرض لاحق ہے اور نہ یہ کسی قسم کی دوا کھاتے ہیں‘ یہ حیران کن انکشاف تھا‘ بوئٹنر نے اس کے بعد تحقیق شروع کر دی‘ پتا چلا ایکاریا دنیا میں ایسی واحد جگہ نہیں ہے‘ کرہ ارض پر پانچ ایسے علاقے ہیں جن پر لوگوں کی عمریں سو سال سے زیادہ ہوتی ہیں اور یہ ادویات اور امراض کے بغیر صحت مند زندگی گزارتے ہیں‘ بوئٹنر آگے بڑھا اور معلوم ہوا جاپان کے جزیرے اوکی ناوا (Okinawa)‘ امریکا کے ٹائون لوما لنڈا (Loma Linda)‘ کوسٹا ریکا کے ٹائون نی کویا (Nicoya)‘ اٹلی کے سار ڈینا ریجن اور یونان کے جزیرے ایکاریا میں لوگ سو سال سے زیادہ جیتے ہیں اور مرنے تک کوئی دوا نہیں کھاتے‘ بوئٹنر نے ان پانچ علاقوں کو بلیو زونز (Blue Zones) کا نام دیا اور 20 سال تحقیق کے بعد اسی ٹائٹل سے تہلکہ خیز کتاب لکھی۔
بلیو زونز نے میڈیکل سائنس کے تمام تصورات جڑوں سے ہلا کر رکھ دیے‘ طبی ماہرین نے شروع میں اس تھیوری کو مسترد کر دیا تھا لیکن جب بوئٹنر نے امریکا کے ایک چھوٹے سے ٹائون میں چھوٹا سا بلیوزون بنایا اور وہاں موجود بوڑھوں کی زندگی اور صحت بدلنے لگی تو ڈاکٹروں نے اسے سیریس لینا شروع کر دیا‘ ماہرین نے اس کے بعد بلیو زونز کے ہزاروں باسیوں کی زندگی پر ریسرچ کی‘ صحت مند زندگی کے نو اصول وضع کیے اور یہ ڈکلیئر کیا لوگ اگر بڑھاپے میں مسلسل حرکت کرتے رہیں‘ یہ اگر لیٹنے یا سونے کی بجائے سارا دن آلات اور مشینوں کے بغیر کام کریں‘ اگر ان کی زندگی کا کوئی مقصد ہو‘ یہ اگر اپنا سٹریس ختم کر لیں‘ یہ اگر بھوک رکھ کر کھانا کھائیں (بھوک میں 80 فیصد کھانا کھائیں اور 20 فیصد پیٹ خالی ہو) یہ اگر گوشت کم کر دیں اور سبزیاں اور فروٹ بڑھا لیں‘یہ اگرپانچ اچھے دوست بنا لیں اور روزانہ ان کے ساتھ وقت گزاریں‘ یہ اگر ہمیشہ مثبت سوچیں اور منفی خیال اور کیفیت سے دور رہیں اور یہ اگر اللہ کی ذات پر یقین رکھیں تو یہ امراض اور ادویات کے بغیر لمبی اور صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں‘ڈاکٹروں نے بلیو زونز کے لوگوں کا مشترکہ موٹو بھی تلاش کیا اور وہ یہ تھا ’’ہم موت سے نہیں بچ سکتے لیکن ہم زندہ رہنا ضرور سیکھ سکتے ہیں‘‘ صحت مند رہنے کے ان 9 اصولوں کے بعد سوال پیدا ہوا‘ کیا یہ اصول شہروں میں بھی اپنائے جا سکتے ہیں؟
انسان نے اگر دور دراز کے علاقوں میں رہ کر سو سال زندہ رہنا ہے تو پھر اس زندگی کا کیا فائدہ؟ یہ سوال مناسب بھی تھا اور منطقی بھی‘ ڈین بوئٹنر نے اس سوال کا جواب تلاش کرنا شروع کیا تو پتا چلا سنگا پور دنیا کا واحد ملک ہے جس نے بلیو زونز کے اصول اپنا کر پورے ملک کی آبادی کو بلیو زون بنا دیا ہے‘ 58 لاکھ کی آبادی کے ملک جس کا رقبہ 30 اور16 میل ہے اور جو 60 کی دہائی میں مچھیروں کی بستی کہلاتا تھا اس میں نہ صرف انسان کی اوسط عمر میں 20 سال اضافہ ہو گیا ہے بلکہ وہاں کے لوگ شوگر‘ بلڈ پریشر اور ڈیمنیشا جیسے امراض سے بھی محفوظ ہیں اور یہ ملک اس کے ساتھ ساتھ جدید بھی ہے اور کمرشل بھی۔
ڈین بوئٹنر نے مزید تحقیق کی تومعلوم ہوا سنگا پور بلیو زونز سے چند قدم مزید آگے بڑھ گیا ہے‘ اس نے لوگوں کو صحت مند کے ساتھ خوش حال بھی کر دیا ہے‘ سنگا پور کے لوگ دنیا میں سب سے زیادہ امیر ہیں اور امارت بھی انسانی عمر میں اضافہ کرتی ہے‘ سنگا پور میں منشیات اور اسلحہ دونوں پر پابندی ہے لہٰذا لوگوں میں سیکورٹی اور بے خوفی زیادہ ہے اور یہ بھی انسانی عمر میں اضافے کا باعث بنتی ہے‘ سنگا پور دنیا کا واحد ملک ہے جس نے شوگر جیسے مرض کے خلاف قومی جنگ کا اعلان کر رکھا ہے‘ یہ لوگ ملک کو پہلا شوگر فری کنٹری بنانا چاہتے ہیں‘ برائون چاول سفید چاولوں کے مقابلے میں زیادہ صحت مند ہوتے ہیں لہٰذا سنگا پور میں برائون چاول سستے اور سفید مہنگے ہیں‘ پورے ملک میں کھانا صحت مند ہے‘ کوئی ریستوران کھانے میں معیار اور مقدار سے زیادہ گھی‘ چینی اور نمک نہیں ڈال سکتا‘ صحت مند کھانے کے ریستوران بڑھائے جا رہے ہیں‘
بالخصوص گلیوں اور کوچوں میں کھانوں کے ٹھیلوں پر انتہائی صحت مند خوراک بیچی جاتی ہے‘ سنگا پور دنیا کا واحد ملک ہے جس میں مشروبات میں 12 فیصد سے زیادہ چینی نہیں ڈالی جا سکتی جب کہ امریکا میں اس کی کوئی لمٹ نہیں ہے‘ سنگا پور میں کاریں امریکا اور یورپ کے مقابلے میں تین گنا مہنگی ہیں‘ ڈرائیونگ لائسنس کا خرچ لاکھ سنگاپورین ڈالر ہے لہٰذا سنگاپور میں صرف 11 فیصد لوگوں کے پاس کاریں ہیں‘ پوری آبادی پیدل چلتی ہے‘ سائیکل چلاتی ہے یا پھر پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتی ہے‘ چھوٹے سے ملک میں ساڑھے تین سو پارک ہیں اور آپ کو وہاں ہر وقت لوگ واک اور ایکسرسائز کرتے نظر آتے ہیں‘ ہر شخص روزانہ دس ہزار قدم اٹھاتا ہے‘ 80 فیصد آبادی کے پاس اپنے گھر ہیں اور یہ گھر حکومت نے بنا کر دیے ہیں‘ حکومت نے بزرگوں کی دیکھ بھال کا بھی دل چسپ سسٹم بنایا ہے‘ اگر کوئی بیٹا یا بیٹی اپنے والدین کے گھر کے قریب گھر لے تو حکومت اسے ہر ماہ ٹھیک ٹھاک وظیفہ دیتی ہے اور یہ اگر ان کی دیکھ بھال کریں تو ان کے وظیفے میں اضافہ ہو جاتا ہے‘ امریکا میں 1922ء میں 70 فیصد امریکی اپنے والدین کے ساتھ رہتے تھے‘
آج ان کی اوسط 38 فیصد رہ گئی ہے جب کہ سنگاپور میں والدین کے قریب رہنے والے لوگوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے‘ نفسیات دانوں کا متفقہ فیصلہ ہے انسان اگر اپنے بچوں کے ساتھ یا قریب رہے تو اس کی عمر میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے اور یہ امراض سے بھی بچا رہتا ہے‘ آپ آج اپنے والدین سے رابطہ کم کر دیں آپ کے والدین چند ماہ یا چند سالوں میں فوت ہو جائیں گے‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ دائیں بائیں دیکھ لیں‘ آپ کو ہر وہ شخص جلدی مرتا دکھائی دے گا جو اپنے بچوں سے دور رہا یا پھر اسے اس کے بچوں نے چھوڑدیا‘ سنگا پور میں اس سے مختلف ہے لہٰذا یہاں آج 20 فیصد لوگ 65 سال سے زیادہ ہیں اور یہ لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کام کر رہے ہیں اور ان میں سے کچھ لوگ دو دو‘ تین تین بار ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جاب کر رہے ہیں اور اگر انہیں جاب نہ ملے تو یہ مفت کام شروع کر دیتے ہیں‘ حکومت کے مطابق 2030ء تک ان لوگوں کی تعداد کل آبادی کا 25 فیصد ہو جائے گی یعنی چھ سال بعد سنگاپور کا ہر چوتھا شخص بوڑھا ہو گا لیکن وہ صحت مند اور دوا اور بیماری سے پاک ہو گا۔
ہم اگر سنگا پور کو دیکھیں‘ بلیوزونز کو دیکھیں اور آخر میں پاکستان کو دیکھیں تو کچھ سوال پیدا ہوتے ہیں کیا بلیو زونز اور سنگاپور کے لوگ کسی دوسرے سیارے پر رہتے ہیں؟ کیا یہ ہم جیسے انسان نہیں ہیں؟ اور کیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں کسی معذوری کے ساتھ پیدا کیا ہے؟ اگر ہم سب ایک ہی سیارے پر زندگی گزار رہے ہیں‘ ہم سب انسان ہیں تو پھر ہم پیچھے اور یہ لوگ آگے کیوں ہیں؟ دوسرا ان لوگوں نے اپنی اور معاشرے کی زندگی میں تھوڑی تھوڑی تبدیلیاں کر کے انسانوں کی صحت اور عمر دونوں بڑھا لیں‘ ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ میں یہاں پاکستان کے ایک ٹائون تھانہ کی مثال دیتا ہوں‘ یہ بھی ایک چھوٹا سا بلیو زون ہے‘ یہ مالاکنڈ ڈسٹرکٹ کا درمیانے سائز کا قصبہ ہے لیکن یہاں تعلیم 95 فیصد ہے یہاں کھوتے چرانے والے بھی میٹرک پاس ہوتے ہیں‘
اس ٹائون میں ہر روز شام کے وقت پوری آبادی گھروں سے نکل کر واک کرتی ہے‘ آپ اگر وہاں جائیں تو شام کے وقت واک کا منظر دیکھ کر حیران رہ جائیں گے‘ اگر تھانہ میں یہ کلچر ہو سکتا ہے تو باقی ملک میں کیوں نہیں اور تیسری اور آخری بات اگر سنگا پور دنیا کا صحت مند ترین‘ امیر ترین‘ خوش حال ترین اور صاف ترین ملک بن سکتا ہے تو ہم پنجاب میں سموگ ختم کیوں نہیں کر سکتے؟ یہ ہر سال پنجاب میں کیوں آ جاتی ہے اور ہم کیوں سکول‘ کالج اور بازار بند کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ کیا ہم میں پنجاب کو سموگ فری بنانے کی صلاحیت بھی نہیں؟ اگر نہیں ہے تو کیا یہ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام نہیں؟ ہم ایک طرف ایٹمی طاقت ہیں اور دوسری طرف ہم سموگ ختم نہیں کر سکتے۔