ہسپانیہ کے مسلم دور میں یورپ اور عرب دنیا کے زیادہ تر کام یاب اور پڑھے لکھے یہودی قرطبہ میں رہتے تھے‘ قرطبہ کی گلیوں میں آج بھی ان یہودی خاندانوں کی جائیدادیں‘ گھر اور دکانیں موجود ہیں‘ قرطبہ شہر میں سیاحوں کو ’’نائیٹ ٹور‘‘ کروایا جاتا ہے‘ مجھے بھی ایک بار اس ٹور کا لطف اٹھانے کا موقع ملا‘ پتھریلی گلیوں میں بڑے بڑے اورخوب صورت گھروں کے سامنے یہودی خاندانوں کی تختیاں لگی تھیں‘
گائیڈ نے ہمیں ایک ایک خاندان کے بارے میں تفصیل سے بتایا‘ میں نے ٹور کے آخر میں گائیڈ سے سوال کیا’’یہ یہودی خاندان ٹھیک ٹھاک خوش حال اور امیر تھے‘ ان کے لیے پوری دنیا کھلی تھی پھر یہ مسلمان ملک میں کیوں رہائش پذیر رہے؟ میں اس بات پر حیران ہوں‘‘ گائیڈ نے چمکتی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور مجھ سے میرا نام پوچھا‘ میں نے جواب دیا ’’جم‘‘۔ میں عموماً یورپی ملکوں میں اپنا نام جم بتاتا ہوں‘ اس کی دو وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ یہ نام آسان اور عام فہم ہے اور دوسری وجہ میں نام کی وضاحت اور دوسرے شخص کو نام یاد کروانے کی کوفت سے بچ جاتا ہوں جب کہ اسلامی ملکوں میں اپنا نام صرف محمد بتاتا ہوں اور میرا ٹھیک ٹھاک کام چل جاتا ہے‘ میں نے گائیڈ کو بھی اپنا نام جم بتایا‘ اس نے نام سے اندازہ لگایا میں شاید کرسچین ہوں چناں چہ اس نے اطمینان کا لمبا سانس لیا اور آہستہ آواز میں بولا ’’ قرطبہ اسلامی دور میں یورپ اور عرب دنیا کا پرامن ترین علاقہ تھا‘ہسپانیہ میں استحکام تھا‘ یہاں جنگیں ہوتی تھیں اور نہ افراتفری تھی‘ پورے ملک کی منڈیاں‘ بازار اور کارخانے کھلے رہتے تھے‘ دانشور کتابیں لکھتے تھے‘ مدرسوں میں تعلیم کا سلسلہ جاری تھا اور زمین دار پھل اور اجناس اگاتے تھے اور انہیں پورے یورپ میں سب سے زیادہ قیمت ملتی تھی‘ یہاں مذہبی رواداری بھی تھی‘ مسجدیں‘ چرچ اور سیناگوگ اکٹھے تھے اور کوئی کسی دوسرے مذہب کے شخص کو ڈسٹرب نہیں کرتا تھا‘ تخت کے لیے لڑائیاں بھی نہیں ہوتی تھیں‘ بادشاہ انتقال سے پہلے اپنا ولی عہد نامزد کر جاتا تھا اور شاہی خاندان اور عمائدین اس فیصلے کو قبول کر لیتے تھے چناں چہ اس زمانے کے تمام نام ور یہودی خود کو یہاں زیادہ محفوظ سمجھتے تھے‘‘ میں غور سے اس کی بات سنتا رہا‘
وہ اس کے بعد بولا’’ لیکن جب 1492ء میں سپین کی آخری مسلمان ریاست غرناطہ پر بھی قبضہ ہو گیا اور خطے سے اسلامی پرچم اتار دیا گیا تو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودی بھی یہاں سے رخصت ہو گئے‘ یہ بھی نقل مکانی کر گئے‘‘ اس نے اس کے بعد رک کر مجھ سے پوچھا ’’کیا آپ جانتے ہیں سپین کی مسلم ریاست کے فال کے بعد یہودی کہاں گئے تھے؟‘‘ میں نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر انکار میں سر ہلا دیا‘
وہ ہنس کر بولا ’’وہ لوگ یہاں سے دوسرے مسلمان شہر استنبول گئے تھے‘ وہ خلافت عثمانیہ کے شہری بن گئے تھے اور آج بھی استنبول کے علاقے بلات میں ان کے گھر موجود ہیں‘‘ میرے لیے یہ انفارمیشن نئی تھی لہٰذا میں نے اس سے اس کی وجہ پوچھی‘ وہ ہنس کر بولا ’’غرناطہ کے بعد پوری دنیا میں سب سے زیادہ امن خلافت عثمانیہ میں تھا چناں چہ وہ لوگ یوروشلم یا یورپ جانے کی بجائے استنبول چلے گئے‘‘ میں خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولا ’’انسان اور سرمائے کو امن اور استحکام چاہیے ہوتا ہے اور امن اور استحکام اگر مکہ‘ ویٹی کن سٹی اور یوروشلم میں بھی نہ ہو تو انسان اسے بھی چھوڑ دیتا ہے اور یہودی کیوں کہ سرمایہ کار بھی ہوتے ہیں لہٰذا یہ کسی بدامن اور غیرمستحکم علاقے میں نہیں رہتے‘‘۔
یہ واقعہ تصویر بن کر میری یادداشت کا حصہ بن گیا اور میں نے اس کے بعد دنیا کو امن اور استحکام کے پیمانے سے دیکھنا شروع کر دیا اور مجھے دنیا کا ہر وہ ملک ترقی یافتہ دکھائی دیا جس میں معاشی‘ سیاسی اور سماجی استحکام اور امن تھا اور دنیا کا ہر وہ ملک تباہ حال اور غیرترقی یافتہ ملا جس میں یہ دونوں چیزیں مفقود تھیں‘ انسان کے لیے اپنی زمین‘ اپنے عزیز رشتے داروں اور مذہب کو چھوڑنامشکل ترین کام ہوتا ہے مگر عدم استحکام اور بدامنی دو ایسے امراض ہیں جن کی وجہ سے لوگ اپنا گھر‘ اپنے والدین‘ بہن بھائی اور بچے بھی چھوڑ دیتے ہیں اور اپنا ملک بھی اور بعض اوقات اپنا مذہب بھی‘آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ پاکستان کی ساری اشرافیہ کے خاندانی پروفائل دیکھ لیں‘ آپ کو ان کے بچے اور اثاثے مستحکم اور پرامن ملکوں میں ملیں گے‘
کیوں؟ کیوں کہ پاکستان عدم استحکام اور بدامنی دونوں کا خوف ناک ہدف ہے اور سمجھ دار انسان ایسے ماحول میں نہیں رہ سکتے چناں چہ میرے خیال میں ہم جب تک ان دونوں امراض کا علاج نہیں کریں گے‘ یہ ملک ٹھیک نہیں ہو سکے گا اور یہ رائے صرف میں نہیں دے رہا دو دن قبل چین کے وزیر خارجہ چن گانگ نے بھی اسلام آباد میں کھڑے ہو کر ہمارے سیاست دانوں اور سیاست کے سہولت کاروں کو سیاسی اور معاشی استحکام کا مشورہ دیا اور چین ہمیں یہ مشورہ 1965ء سے دے رہا ہے‘ صدر ایوب خان 1965ء کی جنگ کے دوران چینی وزیراعظم چو این لائی سے ملاقات کے لیے خفیہ طور پر بیجنگ گئے تھے‘
چو این لائی نے اس وقت بھی انہیں کہا تھا آپ میرے ساتھ گفتگو کے لیے ترجمان کی مدد لے رہے ہیں جب کہ آپ بھارتی وزیراعظم کے ساتھ اپنی زبان میں بات کر سکتے ہیں چناں چہ ہمارا مشورہ ہے آپ جنگ کی بجائے مذاکرات کے ذریعے اپنے مسئلے حل کریں‘ آپ فائدے میں رہیں گے‘ یہ مشورہ چین نے ذوالفقار علی بھٹو‘ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کو بھی دیا تھا‘ جنرل باجوہ 2022 ء میں چین کے دورے پر گئے‘
انہیں بھی صدر شی جن پنگ نے تین مرتبہ کہا تھا ’’ڈویلپمنٹ فرسٹ‘ فائٹ لیٹر‘‘ اور ڈویلپمنٹ کے لیے امن اور استحکام دونوں ضروری ہیں اور ہم یہ دونوں اس ملک میں ہونے نہیں دے رہے‘ آپ ملک کی آبادی دیکھیں‘ یہ 24 کروڑ 18 لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور اس کے بعد اپنی ایکسپورٹس اور فارن ریزروز دیکھیں‘ سوا 24 کروڑ لوگوں کے اکائونٹ میں صرف 6بلین ڈالرز ہیں اور ہم ہر سال 80 بلین ڈالر کی اشیاء امپورٹ کرتے ہیں اور 20 بلین ڈالر کی مصنوعات ایکسپورٹ کرتے ہیں لہٰذا 50 بلین ڈالر کا خسارہ ہے‘
ہماراآدھا خسارہ اوورسیز پاکستانی ڈالرز بھجوا کر پورا کر دیتے ہیں جب کہ باقی کے لیے ہم قرض پر قرض لیتے ہیں‘ ہمارے قرضے ہمارے ٹوٹل جی ڈی پی کا 85 فیصد ہو چکے ہیں‘ ہم خوراک تک امپورٹ کرتے ہیں‘ پٹرول اور گیس کے لیے بھی دوسرے ملکوں کے محتاج ہیں اور ادویات کا خام مال بھی باہر سے منگواتے ہیں‘ اب سوال یہ ہے ہم اپنی ایکسپورٹ کیوں نہیں بڑھاتے؟ اس کے لیے ظاہر ہے انڈسٹری اور سرمایہ کاری چاہیے اور اس کے لیے ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام اور امن چاہیے اور یہ ہم اس ملک میں پروان نہیں چڑھنے دے رہے چناں چہ پھر یہ ملک کیسے چلے گا؟
میری درخواست ہے ہمیں فوری طور پر تین بڑے کام کرنا ہوں گے‘ پہلاہمیں ہمسایوں کے ساتھ اپنے تعلقات ٹھیک کرنا ہوں گے‘ ہم تین بارڈرز پر لڑ رہے ہیں‘ ہماری فوجیں بھارت کے بارڈرز پر بھی لڑ رہی ہیں اور ایران کی سرحد پر بھی بیٹھی ہیں اور افغانستان کی سرحد پر بھی تعینات ہیں اور ان تینوں سرحدوں سے لاشیں بھی آتی ہیں لہٰذا ہمیں فوری طور پر ہمسایوں سے تعلقات ٹھیک کر لیے چاہییں‘
دوسرا ملک میں عملی اور سیاسی دونوںجنگیں جاری ہیں‘ ہم کے پی اور بلوچستان دونوں صوبوں میں حالت جنگ میں ہیں جب کہ پنجاب میں ہم دہشت گردوں سے بھی لڑ رہے ہیں اورسب سے بڑے صوبے میں سیاسی جنگ بھی جاری ہے لہٰذا ہم معاشی طور پر تیزی سے گلتے چلے جا رہے ہیں اور دنیا کا کوئی بھی ملک خواہ وہ روس اور امریکا ہی کیوں نہ ہو وہ اتنی لڑائیاں افورڈ نہیں کر سکتا‘
ہم بھی نہیں کر سکیں گے چناں چہ مہربانی فرما کر ہمسایوں کے ساتھ بھی تعلقات ٹھیک کریں اور اندرونی لڑائیاں بھی بند کریں‘ آج افغان بھی ہمارے ساتھ بیٹھنا چاہتے ہیں اور ایرانی اور بھارتی بھی‘ چین اس سلسلے میں ہماری مدد کرنا چاہتا ہے‘ یہ ایران اور سعودی عرب کی طرح پاکستان اور بھارت کو بھی میز پر بٹھانا چاہتا ہے‘ ہمیں اس موقعے کا فائدہ اٹھانا چاہیے‘ مقبوضہ کشمیر اگر دو حصوں میں تقسیم کر کے معاملہ ختم کیا جا سکتا ہے تو ہمیں یہ کر دینا چاہیے‘ افغانستان اور ایران کا بوجھ بھی اب چین اٹھا رہا ہے‘
ہمیں یہ تبدیلی بھی قبول کر لینی چاہیے اور اس کے بعد ہمیں ملک میں بھی چند بڑی سٹرکچرل تبدیلیاں کردینی چاہییں‘ ہم فیصلہ کر لیں الیکشن پانچ سال بعد ہوں گے‘ حکومتیں ٹوٹیں یا اسمبلیاں مگر الیکشن پانچ سال بعد ہی ہوں گے اور مقررہ تاریخ پر ہوں گے‘ ہم ہر قسم کی ایکسٹینشن پر بھی پابندی لگا دیں‘ ملک کے تمام سویلین اور فوجی افسر وقت مقررہ پر ریٹائر ہو جائیں گے اور کسی کو بھی ایکسٹینشن نہیں ملے گی‘
الیکشن کمیشن‘ ایف آئی اے اور نیب کو مکمل طور پر آزادی دے دی جائے اور ملک کے تمام شہری اور ادارے سپریم کورٹ سمیت ان کے سامنے جواب دہ ہوں‘ ملک کی تجارتی‘ صنعتی اور ٹیکس پالیسی بھی ایک ہی بار بنا دی جائے اور کوئی شخص اسے 20 سال تک چھیڑ نہ سکے اور ہم ایک ہی بار پانی‘ بجلی اور گیس کی پالیسی بھی بنا دیں اور یہ بھی ہمیشہ کے لیے لاک کر دی جائے اور پولیس اور جوڈیشری میں بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ریفارمز کر دی جائیں تاکہ ملک میں استحکام اور امن آ سکے‘
عوام سانس لیں اور یہ ملک چل سکے اور تیسرا فیصلہ ہم لڑائیوں سے نکل کر قوم کی کردار سازی کریں‘ ہم 24 کروڑ لوگوں کا ہجوم ہیں‘ اس ہجوم کو ٹریننگ چاہیے اور ہمیں اس کے لیے عملی قدم اٹھانا چاہیے اور ہم اگر اب بھی یہ نہیں کرتے تو پھر یاد رکھیں ہم کسی بھی وقت سوڈان بن جائیں گے‘ وہاں دو جرنیلوں کی لڑائی نے پورا ملک تباہ کر دیا‘ خرطوم میں لاشیں پڑی ہیں اور کوئی شخص انہیں اٹھانے کے لیے باہر نہیں آ رہا‘ ہم نے اگر اب بریک نہ لگائی تو ہمارا اگلاقدم سوڈان میں ہو گا‘ ہم سوڈان بن جائیں گے۔