میرے ایک دوست پنجاب اسمبلی کے رکن ہیں‘ پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھتے ہیں‘ یہ کل مجھ سے ملنے اسلام آباد تشریف لائے‘ شکل سے پریشان دکھائی دے رہے تھے‘ میں نے وجہ پوچھی تو یہ ہنس کر بولے ’’مہنگائی بہت ہے گزارہ نہیں ہوتا‘‘ میں بڑی دیر تک ان کی شکل دیکھتا رہا‘ وہ واقعی سیریس دکھائی دے رہے تھے‘ میں نے ان سے عرض کیا ’’آپ لوگوں نے 30 نومبر کوپنجاب اسمبلی سے ڈیلی کنوینس الائونس تین ہزار سے پانچ ہزار روپے‘ اکاموڈیشن الائونس تین سے
پانچ ہزار روپے اور ایڈیشنل الائونس تین لاکھ سے چھ لاکھ روپے کرنے کا مطالبہ کیا تھا‘ یہ قرارداد اسمبلی میں موجود دس سیاسی جماعتوں نے مشترکہ پیش کی تھی‘ کیا وجہ ہے؟‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’آپ نے شاید قرارداد نہیں پڑھی‘ اس میں وجہ تحریر ہے‘ ہم نے لکھا تھا‘ ہمارے الائونسز میں اضافہ مہنگائی کے تناسب سے کیا جائے‘ مہنگائی اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ ہم موجودہ الائونسز میں گزارہ نہیں کر سکتے‘‘ میں نے غور سے ان کے چہرے کی طرف دیکھا اور پھر عرض کیا ’’آپ زمین دار بھی ہیں‘ حکومت کا دعویٰ ہے ہم نے زرعی شعبے میں چار سو ارب روپے انجیکٹ کر دیے ہیں‘ کسان اب خوش حال ہو چکا ہے لیکن آپ اس کے باوجود رو رہے ہیں‘‘ وہ ہنسے اور دیر تک ہنستے چلے گئے پھر خاموش ہوئے‘ لمبا سانس لیا اور بولے ’’کیا کسان کے لیے ڈالر100 روپے کا ہے‘کیا ہمیں پٹرول پر سبسڈی مل رہی ہے؟ ن لیگ کے دور میں کھاد کی جو بوری 4400روپے میں ملتی تھی آج اس کی قیمت دس ہزار روپے ہے‘ بیج اور کیڑے مار ادویات کھاد سے بھی مہنگی ہیں‘ ٹریکٹر اور جنریٹر بھی مہنگے ہو چکے ہیں اور فصل پکنے کے بعد کٹائی کے آلات اور فصل کو منڈی تک پہنچانے کے اخراجات بھی دو تین گنا زیادہ ہیں چناں چہ اناج مہنگا ہونے کے باوجود ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہو رہااور زرعی شعبے میں 400 ارب روپے ڈالنے کے باوجود زمین داروں اور کسانوں کی حالت خراب ہے‘ میں زمین دار کی حیثیت سے بھی پس رہا ہوں اور ایم پی اے کی پوزیشن سے بھی‘ لوگ ہمارے پاس آتے ہیں‘ ہمیں انہیں چائے بھی پلانا پڑتی ہے اور کھانا بھی کھلانا پڑتا ہے‘ آپ یقین کریں ہمارے لیے ڈیرے چلانا مشکل ہو چکے ہیں‘ میں سیاست چھوڑنے کا منصوبہ بنا رہا ہوں‘ یہ سیدھی سادی خواری‘ ٹینشن اور خرچہ ہے‘ آپ جب تک شوگر مل کے مالک نہ ہوں آپ کے لیے سیاست مشکل ہے‘‘ وہ خاموش ہوئے تو میں نے عرض کیا ’’لیکن وزیراعظم دعویٰ کر رہے ہیں پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے اور وزیراطلاعات فواد چودھری پرسوں بھی فرما رہے تھے پاکستان پورے خطے میں سستا ملک ہے‘‘ وہ ہنس پڑے اور ہنستے ہنستے بولے ’’میں پی ٹی آئی کا حصہ ہوں‘ عمران خان اور فواد چودھری میرے لیڈر ہیں لیکن یہ لوگ نہ جانے کس پاکستان کی بات کر رہے ہیں‘ ہم جس ملک کے شہری ہیں اس میں ہر چیز مہنگی بھی ہے اور نایاب بھی‘ آپ کنسٹرکشن مٹیریل دیکھ لیں‘ یہ ایک سال میں دگنا ہو چکا ہے‘ آٹا‘ دالیں‘ چینی اور کوکنگ آئل میں بھی دو تین گنا اضافہ ہو چکا ہے جب کہ لوگوں کی آمدنی تیس چالیس فیصد نیچے آ چکی ہے‘ میں وزیراعظم سے مل کر وہ پاکستان دیکھنا چاہتا ہوں جو آج بھی پوری دنیا میں سستا ہے‘ وہ پاکستان شاید وزیراعظم ہائوس اور منسٹرز کالونی میں رہتا ہو گا وہ کم از کم سڑکوں اور گلیوں میں نہیں ملتا‘‘۔
وہ چلے گئے لیکن یہ سوال پیچھے چھوڑ گئے پاکستان میں آج اگر ایم پی ایز اور ایم این ایز کا گزارہ نہیں ہو رہا‘ یہ بھی اگر مہنگائی کے تناسب سے الائونس میں اضافے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو پھر ملک میں گزارہ کس کا ہو رہا ہے‘ سکھی کون ہے؟ دنیا میں مہنگائی کو ماپنے کے تین طریقے ہیں‘ ایکسچینج ریٹ‘ ڈالر آج 181 روپے میں بھی نہیں مل رہا‘ یہ پاکستان کا بلند ترین ایکسچینج ریٹ ہے‘ فی کس آمدنی‘ آج پاکستان کی فی کس آمدنی 1190ڈالر ہے‘ ہم اس لحاظ سے دنیا میں 159ویںنمبر پر ہیں‘ سارک کے سات ملکوں میں ہم چھٹے نمبر پر ہیں اور انفلیشن ریٹ‘ پاکستان میں آج انفلیشن9.5فیصد ہے جب کہ بھارت 5.3 فیصد‘بنگلہ دیش5.40‘سری لنکا6.20اورمالدیپ میں مہنگائی کی شرح 2.27فیصدہے چناں چہ آپ کسی
بھی اشاریے سے ماپ لیں‘ پاکستان مہنگائی کے آسمان کو چھو رہا ہے لیکن حکومت دعویٰ کر رہی ہے ہم دنیا کے سستے ترین ملک ہیں اور حکومت یہ فرماتے ہوئے اکانومسٹ کی مہنگائی کی رپورٹ کو بھی فراموش کر دیتی ہے جس میں پاکستان چوتھے نمبر پر ہے‘ ارجنٹینا دنیا کا مہنگا ترین‘ ترکی دوسرے‘ برازیل تیسرے اور پاکستان چوتھے نمبر پر ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ملک سے گیس بھی غائب ہے اور بجلی اور پٹرول کے نرخ بھی ناقابل برداشت ہیں اور بے روزگاری کی شرح بھی 5فیصد تک پہنچ
چکی ہے اور ہم نے اوپر سے برادر اسلامی ملک سعودی عرب سے 4 فیصد سود پر 3 بلین ڈالرز بھی لے لیے ہیں‘ ہم یہ رقم خرچ نہیں کر سکتے صرف سسٹم میں رکھ سکتے ہیں اور ہم سسٹم میں رکھنے کا سود بھی چار فیصد ادا کریں گے اور برادر اسلامی ملک کسی بھی وقت 72 گھنٹے کے نوٹس پر یہ رقم واپس بھی لے سکتا ہے اور ہم اس کی بنیاد پر بینک کرپٹ بھی ہو سکتے ہیں لیکن حکومت اس کے باوجود صورت حال کو آئیڈیل قرار دے رہی ہے‘ ملک واقعی خوف ناک دور سے گزر رہا ہے لیکن اس سے
زیادہ خوف ناک المیہ صورت حال کی نزاکت سے بے پرواہی ہے یوں محسوس ہوتا ہے پاورفل شخصیات‘ طبقے اور عہدیداروں کے لیے یہ صورت حال کوئی معانی نہیں رکھتی‘ یہ اس سے لاتعلق ہو کر مزے سے زندگی گزار رہے ہیں اور یہ لوگ کسی دن وزیراعظم اور صدر سمیت چپ چاپ بوریا بستر گول کریں گے اور کسی دوسرے ملک کی طرف نکل جائیں گے اور عوام آگے اور پیچھے دیکھتے
رہ جائیں گے اور یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب بنگلہ دیش اپنی 50 ویں سالگرہ پر 50 بلین ڈالرز کی ایکسپورٹ تک پہنچ گیا ہے‘ اس کے مالیاتی ذخائر48بلین ڈالرز کو چھو رہے ہیں اور یہ دنیا کی 37ویںبڑی معیشت بن چکا ہے جب کہ ہم کیچڑ میں دھنسے ہاتھی کی طرح پیچھے سے پیچھے کھسکتے چلے جا رہے ہیں۔ہم نے کسی دن سوچا ہم اس حالت تک کیوں اور کیسے پہنچے ہیں؟ ہم نے اگر ماضی میں نہیں سوچا تو ہم آج اس دن ہی سوچ لیں جب 50 سال پہلے مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا تھا‘
وہ تاریخ کا عجیب دن تھا‘ جب اکثریت نے اقلیت کو چھوڑ دیا تھا‘ دنیا میں ہمیشہ اقلیت اکثریت سے الگ ہوتی ہے لیکن بنگالی اکثریت میں ہوتے ہوئے بھی ہم سے جدا ہو گئے تھے‘ کیا آج ہم ان کے فیصلے کو غلط قرار دے سکتے ہیں؟ بنگالی غریب تھے‘ کم زور تھے‘ منحنی اور کالے کلوٹے تھے جب کہ ہم خوب صورت‘ لمبے تڑنگے‘ شیں جوان اور امیر تھے لیکن آج ہم کہاں کھڑے ہیں اور وہ کہاں ہیں؟
آج بھارت بھی کہاں کھڑا ہے؟ آج وہاں 237بلینئر ہیں اور بھارتی دنیا کی تمام بڑی ٹیک کمپنیوں کے سی ای اوز بھی بن چکے ہیں‘یہ گلوبل پاور بن رہا ہے اور ہم ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں‘ آج امریکا بھی ہم سے ناراض ہے‘ روس بھی اور چین بھی ہمیں پریشانی کے عالم میں دیکھ رہا ہے‘ پورے ملک میں مظاہرے بھی چل رہے ہیں اور صوبے صوبوں سے لڑنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں
مگر ہم اس کے باوجود آنکھ کھولنے اور ہوش کے ناخن لینے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ ہم آج بھی مہنگائی کے ستائے ہوئے لوگوں کو بتا رہے ہیں ’’نہیں تمہیں غلط فہمی ہو رہی ہے‘ ہمارا ملک تو دنیا کا سستا ترین ملک ہے‘‘ ہم آخر کس کو دھوکا دے رہے ہیں‘ ہم کس کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔مجھے کل ایک صاحب بتا رہے تھے‘ ہمارے لیڈر عمران خان نے دعویٰ کیا تھا ’’میں ملک کو قائداعظم کا پاکستان بنائوں گا ‘‘آپ دیکھ لیں ہم نے ملک کو قائداعظم کا پاکستان بنا دیا‘ قائداعظم کے زمانے میں بھی بجلی‘
گیس اور پٹرول نہیں تھا‘ لوگ بے گھر تھے‘ ٹرانسپورٹ نہیں ملتی تھی‘ ڈالر ناپید تھا‘ انڈسٹری بند پڑی تھی‘ سرکاری اہلکاروں کی تنخواہوں کے لیے رقم نہیں تھی اور دفتروں میں کامن پن کی جگہ کیکر کے کانٹے استعمال ہوتے تھے‘ آج بھی حالات ویسے ہی ہیں لہٰذا قائداعظم کا پاکستان بن چکا ہے بس اب ریاست مدینہ باقی ہے جس دن یہ بھی بن جائے گی اس دن کپتان کا خواب پورا ہو جائے گا‘ وہ یہ فرما کر ہنس پڑے لیکن میں انہیں سنجیدگی سے دیکھتا رہا اور پھر ان سے کہا
’’ بھائی جان کیا آپ کو واقعی حالات کی نزاکت کا احساس نہیں‘‘ وہ ہنسے اور پھر سنجیدگی سے بولے’’ نہیں کیوں کہ ذمہ دار ہم نہیں ہیں وہ ہیں جو ہمیں لائے تھے اور جن کی وجہ سے ہم آج بھی یہاں ہیں‘‘ میں نے ان سے عرض کیا ’’آپ یہ یاد رکھیے گا ایکسیڈنٹ کا ذمہ دار ہمیشہ ڈرائیور ہوتا ہے‘ مینوفیکچرر نہیں‘ تاریخ کا بوجھ بہرحال آپ ہی کو اٹھانا پڑے گا‘‘وہ ہنسے ‘ کندھے اچکائے اورکہا’’ہم وہ بوجھ بھی اٹھا لیں گے‘ وہ آخر کتنا بھاری ہو گا؟‘‘۔