انیس سو ساٹھ کی دہائی میں سیالکوٹ میں ایک نوجوان وکیل تھا‘ امریکا سے پڑھ کر آیا تھا‘ ذہنی اور جسمانی لحاظ سے مضبوط تھا‘ آواز میں گھن گرج بھی تھی اور حس مزاح بھی آسمان کو چھوتی تھی‘ یہ بہت جلد کچہری میں چھا گیا‘ وکیلوں کے ساتھ ساتھ جج بھی اس کے گرویدا ہو گئے‘ اس دور میں ایک لطیفہ مشہور ہوا‘ یہ نوجوان وکیل کیس لڑ رہا تھا‘ مخالف وکیل بہت سینئر تھا‘ وہ دلائل دیتے وقت اپنی پیٹھ پر مسلسل خارش کر رہا تھا‘ نوجوان وکیل کو یہ حرکت بہت بری لگ رہی تھی چناں چہ یہ اپنی جگہ سے اٹھا اور اس کی کمر پر خارش کرتے ہوئے بولا ”باجوہ صاحب میں آپ کی پیٹھ پر خارش کرتا ہوں‘ آپ صرف دلائل پر توجہ دیں“۔
پوری عدالت میں قہقہہ لگا اور وہ سینئر وکیل اس کے بعد پورے سیالکوٹ میں کھرک مشہور ہو گیا‘ نوجوان وکیل کا فیوچر بہت برائیٹ تھا‘ یہ تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کر رہا تھا لیکن پھر ایک واقعہ پیش آیا اور نوجوان وکیل نے زندگی بھر کے لیے کالا کوٹ اتار دیا‘ وہ واقعہ کچھ یوں تھا‘ یہ ایک مظلوم شخص کی پیروی کر رہا تھا‘ مقدمہ مضبوط تھا‘ مدعی کا حق ہر لحاظ سے ثابت تھا‘ نوجوان وکیل پراعتماد تھا لیکن فیصلے کاوقت آیا تو جج نے دوسرے فریق کے حق میں فیصلہ دے دیا‘ نوجوان وکیل حیران رہ گیا‘ جج اس کا دوست تھا چناں چہ یہ اس کے چیمبر میں پہنچ گیا‘ جج نے کھلے دل کے ساتھ تسلیم کیا ”فیصلہ آپ کے مو¿کل کے حق میں ہونا چاہیے تھا لیکن پھر فلاں سیاست دان کا فون آ گیا اور میں مجبور ہو گیا“ یہ اعتراف نوجوان وکیل کے لیے حیران کن تھا‘ اس نے اسی وقت جج کے سامنے سیاہ ٹائی اور سیاہ کوٹ اتارا‘ قہقہہ لگایا اور کہا ”چودھری صاحب پھر مجھے وکالت میں جھک مارنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں وہ کیوں نہ بنوں جس کے ایک فون پر آپ جیسے لوگ فیصلے بدل دیتے ہیں“ نوجوان جج کے چیمبر سے نکلا‘ سیدھا اپنے گاﺅں گیا‘ سیاست شروع کی اور پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا‘ جی ہاں اس نوجوان وکیل کا نام انورعزیز چودھری تھا۔انور عزیز چودھری 89 سال کی متحرک اور شان دار زندگی گزار کر 22 نومبر کو انتقال فرما گئے‘ یہ میرے بزرگ بھی تھے اور محسن بھی‘ گجروں کے بارے میں کہا جاتا ہے ان کی نانیاں ایک ہوتی ہیں۔
چودھری صاحب کا میرے ساتھ ایسا کوئی تعلق نہیں تھا‘ شکر گڑھ اور لالہ موسیٰ کی نانیوں میں بہت فاصلہ تھا لیکن اس کے باوجود میرا ان کے ساتھ گہرا تعلق تھا‘ یہ میرے سسر کرنل ظفر اقبال کے دوست تھے اور مجھے کرنل صاحب پہلی بار ان کے پاس لے کر گئے تھے‘ میں ہر صورت صحافی بننا چاہتا تھا جب کہ میرا خاندان میرے بارے میں مختلف سوچ رہا تھا‘ اس کا خیال تھا مجھے سی ایس ایس مکمل کرنا چاہیے‘ میں انکاری تھا لہٰذا کرنل صاحب مجھے پکڑ کر چودھری صاحب کے پاس لے گئے۔
چودھری صاحب اس وقت لاہور میں تھے‘ ان کے ڈرائنگ روم میں ایک انتہائی بے ہنگم شخص صوفے میں دھنسا ہوا تھااور آنکھیں بند کر کے اپنے کان میں ماچس کی تیلی پھیررہا تھا‘ یہ کارنامہ سرانجام دیتے وقت اس کے چہرے پر گہرا سکون‘ گہری طمانیت تھی‘ وہ یقینا اس کام کو دل و جان سے انجوائے کر رہا تھا‘ وہ کبھی کبھی آنکھ کھولتا تھا‘ ماچس کی تیلی کان سے نکال کر میل کی مقدار چیک کرتا تھا‘ تیلی کو قمیض پر رگڑ کر صاف کرتا تھا اور دوبارہ آنکھیں بند کر کے اپنے کام میں مشغول ہو جاتا تھا۔
کرنل صاحب نے میری طرف اشارہ کر کے چودھری صاحب سے کہا ”ایس منڈے نو سمجھاﺅ اے صحافی بننا چاہندا اے“ چودھری صاحب نے چمکتی ہوئی آنکھوں سے میری طرف دیکھا‘ پھر صوفے میں دھنسے ہوئے شخص کی طرف دیکھا اور قہقہہ لگا کر بولے ”وہ دیکھ اس صوفے پر بھی ایک صحافی پڑا ہے‘ آٹھ بندے مل کر اس کی شراب پوری نہیں کر پاتے“ وہ اس کے بعد رکے‘ دایاں ہاتھ ناں ناں میں ہلایا اور کہا ”اوپتر صحافی نہ بننا‘ بھکا مر جاویں گا“ (بیٹا صحافی نہ بننا بھوکا مرجاﺅ گے) میں خاموش بیٹھا رہا۔
وہ تھوڑی دیر میری طرف دیکھتے رہے اور پھر کرنل صاحب کی طرف مڑ کر بولے ”کرنل صاحب یہ لڑکا ہم دونوں سے زیادہ گجر لگتا ہے‘ یہ باز نہیں آئے گا‘ مرنے دیں اسے بھوکا“ انہوں نے اس کے بعد صوفے میں درج شخص کی طرف دیکھا اور مجھ سے مخاطب ہوئے ”دیکھ پتر تو بے شک صحافی بن جا مگر میری دو باتیں یاد رکھنا‘ ایک شراب نہیں پینا اور دوسرا کان میں ماچس کی تیلی نہیں پھیرنی اور اگر پھیرنی پڑ جائے تو میل قمیض کے ساتھ صاف نہیں کرنی“ میرا قہقہہ نکل گیا۔
تیلی والے صحافی نے آنکھیں کھولیں‘ تیلی کان سے نکالی‘ اس کی میل چیک کی اور ہنس کر بولا ”جناب چودھری صاحب‘ ہم تو آپ سے بے عزتی کرانے کے لیے آتے ہیں“ چودھری صاحب نے ہنس کر جواب دیا ”یار تم یہ نہ کہا کرو‘ سارا لاہور مل کر بھی تمہاری بے عزتی نہیں کر سکتا کیوں کہ بے عزتی کے لیے عزت کا ہونا ضروری ہوتا ہے اور تمہارے اور میرے دونوں کے پاس یہ نہیں ہے“ میری ایک بار پھر ہنسی نکل گئی‘ مجھے آج بھی جب تیلی والا وہ صحافی ملتا ہے تو مجھے بے اختیار چودھری صاحب کی نصیحت یاد آ جاتی ہے۔
وہ بڑے انسان تھے‘ وہ بڑے طریقے سے مجھے زندگی کے دوسبق دے گئے تھے‘ صحافی رہنا ہے تو زندگی میں کوئی کم زوری نہیں ہونی چاہیے اور دوسرا انسان کو غیر مہذب نہیں ہونا چاہیے‘ تہذیب اور تمدن دونوں زندگی گزارنے کا قرینہ ہیں۔انور عزیز چودھری کی ذات میں سیاست کے ساتھ ساتھ آرٹ‘ کلچر‘ موسیقی اور ادب بھی گندھا تھا‘ اختری بائی اور ملکہ پکھراج سے لے کر نور جہاں مہدی حسن اور شوکت علی تک ملک کے تمام بڑے گلوگار چودھری صاحب کے ذاتی دوست تھے۔
یہ ان سے ملتے بھی رہتے تھے اور وہ ان کے مہمان بھی رہتے تھے‘ فیض احمد فیض اور حبیب جالب سے لے کر احمد فراز اور منیر نیازی تک تمام نامور شاعر بھی ان کے دوست اور مہمان تھے‘ پوری زندگی کتابیں ان کی دوست رہیں‘ زندگی کی کوئی ایک رات ایسی نہیں گزری جس میں چودھری صاحب نے کتاب نہ پڑھی ہو‘ کتاب اگر اچھی ہوتی تھی تو یہ دن رات ایک کر دیتے تھے اور کتاب مکمل کر کے ہی باہر نکلتے تھے‘ ریسرچ کی عادت تھی‘ لائیو سٹاک اور بیجوں پر بے انتہا ریسرچ کی۔
سارے زرعی سائنس دانوں کا ڈیٹا ازبر تھا‘ دنیا جہاں سے بیج منگوا کر اگاتے تھے اور پھر یہ بیج مختلف دوستوں میں تقسیم کرتے تھے‘ بکریوں اور گائیوں کا چھوٹا سا فارم ہاﺅس بھی بنا لیا‘ اچھی نسل کی بکریاں اور گائے پیدا کیں اور لوگوں میں تقسیم کر دیں‘ کھجور‘ مالٹا اور انجیر اگائی اور لوگوں کو یہ اگانے کا طریقہ بھی سکھاتے رہے‘ جوانی میں ایتھلیٹ رہے تھے‘ تیراکی کا آخری سانس تک شوق رہا‘ واک نہیں کرتے تھے‘ کھانے میں بھی پرہیز نہیں کرتے تھے لیکن اس کے باوجود 89 سال تک ایکٹو زندگی گزاری‘ کیا وجہ تھی؟۔
بتاتے تھے ”میں ایکٹو رہتا ہوں‘ نوجوانوں کو دوست بناتا ہوںاور خوش رہتا ہوں“ ملک کے بڑے اور نامور صحافیوں کے ساتھ بھی بڑا گہرا تعلق تھا‘ میں اس فہرست میں شامل نہیں تھا‘ میں کبھی ان کی محفل کا حصہ نہیں بن سکا لیکن زندگی کے ہر اہم موڑ پر ان کا فون ضرور آیا‘ میرا ایک بار ایک جونیئر اینکر سے جھگڑا ہو گیا‘ میں اسے اپنی غلطی سمجھتا ہوں‘ مجھے ایک شخص کو اتنا موقع نہیں دینا چاہیے تھا کہ وہ میرے گلے پڑ جاتا‘ میں نے اس واقعے سے سیکھا تھا آپ زندگی میں کبھی دوسرے کے اتنا قریب نہ جائیں کہ آپ کی قدر ختم ہو جائے۔
اس واقعے کے بعد پہلا فون حافظ سعید صاحب کا آیا تھا اور دوسرا چودھری انور عزیز کا‘ ان کا کہنا تھا ”تم اچھے بھلے سمجھ دار ہو‘ تم نے یہ کیا کیا“ میں نے عرض کیا ”یہ واقعی میری بے وقوفی تھی‘ مجھے غصہ کنٹرول کرنا چاہیے تھا“ وہ قہقہہ لگا کر بولے ”اوئے چودھری‘ کیا تمہیں بھی غصہ آتا ہے“ میں نے ہنس کر جواب دیا ”جی ہاں کبھی کبھی“ وہ ہنس کر بولے ”پھر اس چوزے پر کیوں آیا تھا“ میں نے کہا ”اس نے مجھے گالی دے دی تھی اور گالی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی“ وہ فوراً بولے ”پھر تم نے پھینٹا کم تو نہیں لگایا“۔
میری ہنسی نکل گئی۔ یہ تھے انور عزیزچودھری‘ دانیال عزیز ان کے صاحب زادے ہیں‘ یہ ن لیگ کے دور میں مولا جٹ بنے ہوئے تھے اور یہ اینکرز تک سے لڑ پڑتے تھے‘ یہ ایک پروگرام میں میرے ساتھ بھی الجھ پڑے‘ ان کا بلڈ پریشر سٹوڈیو کی چھت کو چھو رہا تھا‘ اس دوران فون سکرین مسلسل چمکنے لگی‘ یہ کال کاٹتے رہے لیکن کال مسلسل آتی رہی‘ وقفہ ہوا‘ دانیال عزیز نے کال سنی ”اوکے“ کہا اور لمبی لمبی سانسیں لینے لگے‘ پروگرام سکون سے گزر گیا۔
پروگرام کے بعد انہوں نے انکشاف کیا‘ چودھری صاحب کا فون تھا‘ انہوں نے مجھے دھمکی دی‘ تم نے اگر اس کے ساتھ بدتمیزی کی تو میں تمہاری ٹانگیں توڑ دوں گا اور میں باقی پروگرام میں اپنی ٹانگیں بچاتا رہ گیا۔چودھری صاحب بے انتہا ذہین انسان بھی تھے‘ یہ1973ءمیں ذوالفقار علی بھٹو سے ملے تو ایک ہی ملاقات میں بھٹو صاحب جیسے ذہین انسان کوبھی اپنا گرویدا بنا لیا‘ کیسے؟ یہ بتاتے تھے‘ میں نے جب بھٹو صاحب سے بات شروع کی تو میں نے ہم کا صیغہ استعمال کیا” ہم یہ کریں گے‘ ہمیں یہ کرنا چاہیے‘ ہمیں پارٹی کے منشور میں یہ تبدیلی کرنی چاہیے“ وغیرہ وغیرہ۔
جب کہ باقی تمام لوگ میں میں کر رہے تھے‘ اس کے بعد انہوں نے بتایا‘ یاد رکھو تم جب بھی کسی بااختیار اور بااقتدار شخص سے ملو تو میں میں نہ کرو کیوں کہ وہ شخص خود میں میں ہوتا ہے اور اسے دوسروں کی میں میں بری لگتی ہے‘ تم جب بھی کہو ہم کہو تاکہ اسے احساس ہو آپ اس کی میں کو اون کر رہے ہیں‘ وہ تمہاری عزت کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔یہ تھے انور عزیزچودھری‘ ہمارے بڑے چودھری صاحب اور ہمیں اب اپنے اس بڑے چودھری صاحب کے بغیر زندگی گزارنی ہو گی‘ ایک بے کیف اور بلیک اینڈ وائیٹ زندگی کیوں کہ زندگی کے سارے رنگ تو وہ اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔