آیا صوفیہ کے سامنے دھوپ پڑی تھی‘ آنکھیں چندھیا رہی تھیں‘ میں نے دھوپ سے بچنے کے لیے سر پر ٹوپی رکھ لی‘ آنکھیں ٹوپی کے چھجے کے نیچے آ گئیں اور اس کے ساتھ ہی ماحول بدل گیا‘ آسمان پر باسفورس کے سفید بگلے تیر رہے تھے‘ دائیں بائیں سیکڑوں سیاح تھے اور ان سیاحوں کے درمیان سے میٹرو گزر رہی تھی۔
ہم نے پیدل سفر شروع کر دیا‘ ضیاء الرحمن کے گھٹنے میں درد تھا اور ملک تنویر نے کبھی لمبی واک نہیں کی تھی‘ یہ دونوں سڑک کو دیکھتے تھے‘ پھر ذرا سا مسکراتے اور پھر سر نیچے کر کے چپ چاپ چل پڑتے تھے‘ امینینو کے قریب پہنچ کر دونوں میں سے کسی نے آواز لگائی ”ٹوٹل فاصلہ کتنا ہو گا؟“ میں نے ہنس کر جواب دیا ”کم از کم 15 کلو میٹر“ پیچھے سے آواز آئی ”اور یہ فاصلہ ہم آج ہی طے کریں گے“ میں نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ”بے شک“ ہم پھر چل پڑے لیکن ٹھہریے ہمارے ساتھ گوجرانوالہ کا ایک اور نوجوان بھی تھا فیاض ملک‘ یہ سٹیل مل کے مالک ہیں‘ سریا بناتے اور بیچتے ہیں اور یہ بھی واک کے چکر میں ہمارے ساتھ ساتھ چل پڑے‘ ہم استنبول کے محلوں اور پرانی گلیوں سے گزر رہے تھے‘ ہمارے دائیں بائیں قطار اندر قطار ریستوران‘ کافی شاپس اور کپڑے کی دکانیں تھیں اور ان کے سامنے سے گزرتے حیران پریشان سیاح تھے اور ہم ان سیاحوں کے درمیان سے راستہ ٹٹول رہے تھے‘ باسفورس کے پل پر مچھلیوں کے شکاری پانی میں ڈوریاں لٹکا کر کھڑے تھے۔
یہ لوگ سیکڑوں سال سے یہاں سے مچھلیاں پکڑ رہے ہیں‘ باسفورس کی مچھلیاں سائز میں چھوٹی ہیں لیکن یہ شکاریوں کے لیے لکی ثابت ہوتی ہیں‘ استنبول میں ہزار سال سے روایت چلی آ رہی ہے آپ اگر کسی مسئلے کی وجہ سے پریشان ہیں تو آپ کانٹا لے کر باسفورس چلے جائیں‘ مچھلی پکڑیں اور جوں ہی مچھلی آپ کے کانٹے میں پھنسے گی آپ کی پریشانی دور ہو جائے گی‘ لوگ پل پر دونوں طرف کانٹے لگا کر کھڑے تھے اور ہم ان کے قریب سے گزر کر قاسم پاشا کی طرف چل پڑے۔
قاسم پاشا کا علاقہ ایشیا میں آتا ہے‘ تقسیم سکوائر اسی میں آباد ہے‘ یہ ماضی میں پہاڑی علاقہ تھا‘ لوگ پہاڑ پر آباد ہوتے چلے گئے اور پہاڑ مکانوں‘ گلیوں اور چوباروں میں چھپتا چلا گیا‘ یہ اب اوپر نیچے ایک طویل ضلع ہے‘ آپ کبھی بلندی کی طرف جاتے ہیں اور کبھی نیچے اترائی میں اتر جاتے ہیں‘ چلتے چلتے اچانک ہمارے سامنے پانچ سو سال پرانی عمارت آ گئی۔
یہ کمپاؤنڈ علی پاشا نے بنایا تھا‘ مسجد تھی‘ اس کے ساتھ مدرسہ تھا‘ ساتھ حمام تھا اور ایک متروک محل تھا‘ محل کی دیواریں گر چکی تھیں اور ڈیوڑھیاں ویران ہو چکی تھیں‘ علی پاشا کا مزار کمپاؤنڈ سے ذرا سے فاصلے پر تھا‘ عثمانی بادشاہ اور وزراء اپنے نام کے محلے اور کمپاؤنڈ ضرور بناتے تھے‘ یہ ان کے بعد ان کی نشانی ہوتے تھے۔
علی پاشا کی تمام نشانیاں ختم ہو چکی تھیں لیکن مسجد ابھی تک آباد تھی تاہم مزار بند تھا‘ میں مسجد میں داخل ہوا اور وضو خانے کی سل پر بیٹھ گیا‘ میرے ساتھی واش روم کی طرف نکل گئے‘ وضو خانے کی اس سل میں کچھ تھا‘ اچانک شاں شاں کی آواز آئی اور یادداشت کی پرانی کتاب کھل گئی‘ وہ میرے دوست تھے‘ بزنس مین تھے‘ ارب پتی تھے‘ زندگی سے بھرپور‘ قہقہے لگاتے ہوئے انسان۔
ایک دن اچانک پیٹ میں درد ہوا اور مجھے فون کیا ”تم پیٹ کے کسی اچھے ڈاکٹر کو جانتے ہو“ میں نے فوراً ڈاکٹر سے وقت لے دیا‘ اگلا دن ھماکا خیز ثابت ہوا‘ ڈاکٹر نے انہیں شوکت خانم کینسر ہسپتال بھجوا دیا‘ ٹیسٹ ہوئے اور بڑی آنت کا کینسر نکل آیا‘ وہ اگلی فلائیٹ سے کراچی چلے گئے‘ آغا خان میں ٹیسٹ ہوئے تو بڑی آنت کے ساتھ معدے میں بھی کینسر نکل آیا۔
وہ دوسرے دن لندن روانہ ہو گئے‘ ہارلے سٹریٹ کلینک میں داخل ہوئے‘ تیسری مرتبہ ٹیسٹ ہوا تو پتا چلا جگر میں بھی کینسر ہے یوں وہ ایک ہفتے میں زندگی کے محل سے نکل کر موت کے گڑھے تک پہنچ گئے‘ ڈاکٹروں نے انہیں دو آپشن دیے‘ علاج یا دواؤں کے بغیر ایک دو مہینے‘ خاندان نے علاج کا فیصلہ کر لیا‘ خزانوں کے منہ کھول دیے گئے۔
جہاں سے ڈاکٹر ملا یہ لوگ ڈاکٹر لے آئے‘ جس دوا کی ضرورت پڑی‘ بیٹے گئے اور لے آئے‘ لاکھ لاکھ ڈالر کے انجیکشن لگا دیے گئے لیکن حالت بگڑتی چلی گئی‘ہر دن پہلے سے برا ثابت ہو رہا تھا‘ مجھے ایک صبح ان کا فون آیا‘ آواز میں نقاہت اور زبان میں لکنت تھی‘ وہ مجھ سے ملنا چاہتے تھے‘ میں نے دو دن کی مہلت مانگی اور تیسرے دن لندن میں ان کے بیڈ کے ساتھ بیٹھا تھا۔
ان کے پورے جسم سے بال اڑ چکے تھے‘ جلد لٹک گئی تھی اور آنکھیں بجھ چکی تھیں‘ میں دیر تک ان کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھا رہا‘ ان کی ہتھیلی ٹھنڈی اور رگیں پھولی ہوئی تھیں‘ ہاتھ میں خون سرکتا ہوا محسوس ہو رہا تھا‘ وہ بار بار مجھے دیکھتے تھے اور کہتے تھے ”جاوید تم اللہ سے دعا کرو مجھے صرف ایک ماہ صحت مند زندگی مل جائے‘ میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکوں‘ اپنی ٹانگوں پر چل سکوں اور میں جو چاہوں وہ میں کھا سکوں“۔
اور میں نے زور سے آمین کہا‘ انہوں نے چوتھی مرتبہ یہ کہا اور پھر غور سے میری طرف دیکھ کر بولے ”تم بھی بدل گئے ہو“ میں نے حیرت سے عرض کیا ”چودھری صاحب آپ یہ کیوں سوچ رہے ہیں“ وہ بڑی مشکل سے مسکرائے اور بولے ”تم ایسی باتوں پر ہمیشہ کہا کرتے تھے‘ کیوں؟ لیکن آج تم نے ایک بار بھی کیوں نہیں کہا۔۔۔۔کیوں؟“۔
میں بھی ہنس پڑا‘ وہ بولے ”میں جانتا ہوں تم کیوں کہہ کر مجھے مزید پریشان نہیں کرنا چاہتے لیکن میں تمہیں خود ہی بتا دیتا ہوں“ ان کی سانس اکھڑ گئی اور وہ کھانسنے لگے‘ میں نے ہاتھ آگے بڑھا کر ان کی سانس کی نالی ٹھیک کردی“ وہ بولے ”میں بس ایک بار تمہارے ساتھ گھومنا چاہتا ہوں‘ ہم پکڈلی سرکس سے چلیں۔
آکسفورڈ سٹریٹ پہنچیں اور پھر وہاں سے پورا ہائیڈ پارک کراس کر کے بکنگھم پیلس پہنچ جائیں اور پھر آدھ گھنٹہ فوارے کے کنارے بیٹھ کر محل کو دیکھتے رہیں“ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ میں نے شرٹ کے کف سے آنکھیں صاف کیں اور گلوگیر آواز سے عرض کیا ”چودھری صاحب آپ ماضی کو بھول جائیں‘ ماضی ماضی کے سوا کچھ نہیں ہوتا“۔
وہ خاموش ہو گئے‘ میں جانتا تھا وہ ایک سال پہلے سردیوں کے اس دن کو یاد کر رہے ہیں‘ ہم جب پکڈلی سرکس سے پیدل چلے تھے‘ وہ واک نہیں کرنا چاہتے تھے‘ وہ مجھے بار بار روکتے تھے‘ ٹیکسی کی طرف دھکیلتے تھے لیکن میں چلتا رہا‘ وہ آکسفورڈ سٹریٹ پہنچ کر ناراض ہو گئے‘ ٹیکسی میں بیٹھے اور ہوٹل واپس چلے گئے‘ میں ہائیڈ پارک سے ہوتا ہوا بکنگھم پیلس پہنچ گیا۔
میں نے ہوٹل پہنچ کر جب انہیں اپنی واک کے بارے میں بتایا تو وہ دیر تک قہقہے لگاتے رہے‘ ان کا کہنا تھا تم زندگی میں کبھی مڈل کلاس کمپلیکس سے باہر نہیں آ سکو گے‘ تم لوگوں نے اپنی کنجوسی کو اپنا ایوارڈ بنا لیا ہے اور میں ناراض ہو کر کمرے سے باہر چلا گیا تھا‘ وہ اس واک کو مس کر رہے تھے‘ وہ تھوڑی دیر رکے اور پھر بولے‘ میں تمہارے ساتھ پیرس‘ تبلیسی‘ بڈاپسٹ اور استنبول بھی جانا چاہتا ہوں اور دمشق اور طنجہ بھی اور سارا سارا دن پیدل پھرنا چاہتا ہوں۔
تم سچ کہتے تھے اپنے پاؤں پر چلنا اور جگہ جگہ سے ایک ایک لقمہ چکھنا‘ چائے کافی پیتے رہنا اور اجنبی لوگوں سے کان ٹیکٹ کرنا زندگی میں اس سے بڑی کوئی لذت نہیں اور میں اس لذت کے بغیر دنیا سے رخصت ہو رہا ہوں‘ تم پلیز کوئی ایسا بندہ تلاش کرو جو مجھ سے میرا سب کچھ لے لے اور مجھے صحت مند زندگی کا بس ایک مہینہ دے دے“ میرے منہ سے ہچکی نکل گئی‘ میں نے ہاتھ چھڑایا‘ باہر آیا اور کوریڈور میں بیٹھ کر رونے لگا۔
علی پاشا کے وضو خانے کے پتھر میں کوئی چیز تھی جس نے مجھے ہارلے سٹریٹ کی وہ شام یاد کرا دی‘ میرے ساتھی واپس آ گئے اور ہم ایک بار پھر قاسم پاشا کی گلیوں میں اتر گئے‘ لوگ گلیوں میں چل رہے تھے‘ قہوہ خانوں میں قہوہ سامنے رکھ کر بیٹھے تھے اور خوش گپیوں میں مصروف تھے‘ ہمارے چاروں طرف زندگی تھی اور مجھے اس زندگی میں بار بار اپنا وہ دوست یاد آ رہا تھا۔
ہم کتنے بدقسمت لوگ ہیں‘ ہم عطر لینے نکلتے ہیں اور خالی بوتلیں جمع کرتے رہتے ہیں‘ ہمیں دولت کمانے اور اکٹھی کرنے کا باولا پن کہیں کا نہیں چھوڑتا‘ ہم چیونٹیوں کی طرح پوری زندگی اپنے وزن سے بڑے دانے جمع کرتے رہتے ہیں لیکن جب کھانے کا وقت آتا ہے تو برسات کا موسم شروع ہو جاتا ہے اور ہماری عمر بھر کی کمائی پانی میں ڈوب جاتی ہے۔
ہم زندگی بھر زندگی کی تلاش میں مرتے رہتے ہیں‘ ہم اپنے پاؤں‘ اپنی ٹانگوں اور اپنے ذائقوں کی زکوٰۃ ادا کیے بغیر دنیا سے چلے جاتے ہیں‘ کاش ہم لوگ جان جائیں زندگی آنے والے کل کا نام نہیں‘ زندگی گزرے کل کا نام بھی نہیں‘ زندگی بس آج ہے اور جس کا آج ضائع ہو گیا دنیا میں اس سے بڑا خسارے کا کوئی سوداگر نہیں۔
ہم رکے اور لمبا سانس لیا‘ گلی کے دائیں جانب ایک پرانا مکان تھا‘ مکان کے صحن میں انگور کی بیلوں کے ساتھ ایک چھوٹا سا قہوہ خانہ تھا‘ ہم اس قہوہ خانے میں گھس گئے‘ ٹیرس کے آگے انگور کی بیلیں تھیں اور بیلوں کے نیچے لوگ بیٹھے تھے۔