دنیا میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں جینئس‘ ایوریج اور بلو ایوریج‘ ہماری دنیا میں بلو ایوریج (معمولی لوگوں) اور ایوریج (سطحی لوگوں) کی کوئی کہانی نہیں ہوتی‘ یہ لوگ آتے ہیں‘ زندگی گزارتے ہیں اور اکثر اوقات اپنے جیسے بچے پیدا کر کے چپ چاپ دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں لہٰذا ان کی زندگی پر کوئی کہانی‘ کوئی کالم اور کوئی کتاب لکھی جاتی ہے اور نہ کوئی ڈرامہ یا فلم بنائی جاتی ہے۔
یہ دنیا میں آتے ہیں تو کسی کو پتا نہیں چلتا‘ یہ چلے جاتے ہیں تو بھی کسی کو علم نہیں ہوتاجب کہ جینئس لوگوں کی کہانیاں بھی لکھی جاتی ہیں اور ان پر فلمیں بھی بنتی ہیں اور ان کے ڈرامے بھی بنائے جاتے ہیں‘ میں اپنے سیشنز میں اکثر عرض کرتا ہوں آپ اگر تاریخ میں زندہ رہنا چاہتے ہیں تو کوئی ایسا کام کر جائیں جس پر آنے والے لوگ کتابیں لکھیں اور ڈرامے بنائیں اور آپ اگر یہ نہیں کر سکتے تو پھر جینئس لوگوں کے بارے میں کتابیں لکھیں آپ بھی ان کے ساتھ زندہ رہ جائیں گے ورنہ یہ جیون سفر رائیگاں کے سوا کچھ نہیں‘ یہ ایک بات تھی‘ آپ اب دوسری بات بھی ملاحظہ کیجیے‘ دنیا کے تما ایکسٹرا آرڈنری لوگ ایک جیسی زندگی گزارتے ہیں‘ یہ آج کے دور میں ہوں یا ماضی میں‘ مصیبتیں‘ مشکلیں‘ دھوکے اور بے وفائیاں ان کا مقدر ہوتی ہیں‘ یہ بے چارے پوری زندگی گرم توے پر تیل کی بوند کی طرح اچھلتے کودتے اور سی سی کرتے رہتے ہیں اور پھر ایک دن اچانک تحلیل ہو جاتے ہیں لیکن جاتے جاتے توے پر اپنا نشان ضرور چھوڑ جاتے ہیں۔
ارطغرل ڈرامہ سیریز کا ہیرو بھی ایک ایسا ہی ایکسٹرا آرڈنری‘ ایک جینئس انسان تھا‘ یہ چھوٹے سے خانہ بدوش قبیلے میں پیدا ہوا لیکن قدرت نے اسے ایک لازوال سپہ سالار‘ ایک بڑی ریاست کا معمار اور ایک عالمی سیاست دان بنایا تھا‘ وہ قبیلے سے اٹھ کر دنیا کو دیکھ رہا تھا اور اس کا خیال تھا وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک بڑی اسلامی ریاست بنا سکتا ہے۔
وہ اپنے لوگوں کا مقدر بدل سکتا ہے لیکن پھر اس کے ساتھ وہی ہوا جو دنیا میں سپرجینئس‘ جینئس یا ایکسٹرا آرڈنری لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں ارطغرل ڈرامہ سیریز بنیادی طور پر غیر معمولی لوگوں کی داستان حیات ہے اور یہ داستان ثابت کرتی ہے اگر عقاب پنجرے میں پیدا ہو جائے یا بلی کے بچوں کے درمیان شیر کا بچہ آ جائے تو اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟
اسے منزل تک پہنچنے کے لیے کس کس مرحلے سے گزرنا اور آگ کے کس کس دریا کو تیر کر پار کرنا پڑتا ہے چناں چہ دریلیش ارطغرل صرف ڈرامہ سیریز نہیں یہ کام یابی کی ایک بے مثال داستان‘ ایک شان دار سکسیس سٹوری ہے‘ یہ غیر معمولی لوگوں کا نوحہ بھی ہے لہٰذا آپ اگر زندگی میں کچھ کرنا چاہتے ہیں تو پھر میں آپ کو مشورہ دوں گا آپ دریلیش ارطغرل ضرور دیکھیں‘ نوٹس لیں اور ارطغرل کی طرح مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرنا سیکھیں۔
آپ بالآخر کام یاب ہو جائیں گے۔ارطغرل کی ڈرامہ سیریز میں اول روز سے خواری شروع ہوتی ہے‘ اس کے اپنے اور پرائے سب اس کو دکھ دیتے ہیں‘ یہ گھر سے بھی مار کھاتا ہے اور باہر سے بھی‘ یہ بار بار قبیلے سے بے دخل کر دیا جاتا ہے‘ یہ درجنوں بار قید ہوتا ہے‘ اس کا والد‘ اس کی والدہ اور بھائی بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔
اس کا عزیز ترین دوست ترگت بھی اس وقت اس کے پیٹ میں خنجر گھونپ دیتا ہے جب وہ جوش میں اس سے گلے مل رہا ہوتا ہے‘ اس پر روز تلواروں‘ تیروں اور خنجروں سے حملے ہوتے ہیں‘ یہ آغوز قبائل کو اکٹھا کر کے علاقے کی بڑی سیاسی طاقت بنانا چاہتا ہے لیکن قبیلے آپس میں لڑتے رہتے ہیں اور یہ آگے بڑھتا ہے تو پیچھے بغاوت ہو جاتی ہے۔
یہ دوڑ کر واپس آتا ہے تو آگے بیڑا غرق ہو جاتا ہے‘ ڈرامہ سیریز کی پانچ سو قسطوں میں اس کو سکھ کا سانس نصیب نہیں ہوتا‘ اسے اطمینان کی ایک بھی رات نہیں ملتی‘ یہ منگولوں سے بچتا ہے تو عیسائی ٹیمپلرز تلواریں لے کر نکل آتے ہیں‘ یہ ان سے بچتا ہے تو مسلمان اس کے ٹکڑے کرنے کے لیے نکل آتے ہیں‘اس کی زندگی میں اپنے اور پرائے سب برابر ہیں۔
ہر طرف جاسوسوں اور دشمنوں کا جال بچھا ہے‘ کون کس وقت حملہ کر دے یہ نہیں جانتا‘ سوتے ہوئے بھی اسے ایک آنکھ کھلی رکھنی پڑتی ہے‘ یہ ابھی ایک مسئلے سے نکلا نہیں ہوتا تو دوسرا مسئلہ سامنے کھڑا ہوتا ہے‘ ایک سے بچ کر نکلتا ہے تو تھپ تھپ کی آواز آتی ہے اور کوئی دوسرا اس پر حملہ کر دیتا ہے‘ مصیبتوں کے اس عالم میں اس کے صرف چار مدد گار ہوتے ہیں‘ ابن عربی‘ بیوی حلیمہ سلطان‘ والدہ حیمہ اور بچپن کے تین دوست اور بس۔
‘یہ جب انتہائی مجبور ہو جاتا تھا تو ابن عربی اس کے پاس پہنچ جاتے تھے اور وہ قرآن مجید‘ احادیث اور سیرت کے واقعات سنا کر اس کا حوصلہ بلند کرتے تھے‘ بیوی جلتے ہوئے عالم میں جذباتی سہارا تھی‘ ماں اپنے چاروں بیٹوں میں سے صرف اس کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے اور دوست اسے ہر مشکل‘ ہر قید خانے سے نکال لیتے تھے لہٰذا ارطغرل پوری سیریز میں کیچڑ میں پھنسے اس بیل کی طرح محسوس ہوتا ہے جو زور لگا کر گٹھے کو کیچڑ سے باہر نکال رہا ہے لیکن دائیں بائیں موجود لوگ اس گٹھے پر مزید سامان لادتے چلے جارہے ہیں۔
وہ ایک ایسا انسان محسوس ہوتا ہے جو اپنے لوگوں کا واحد سہارا ہے‘ جو اپنے لوگوں کے دکھوں کا مداوا کر سکتا ہے لیکن وہی اپنے لوگ اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے چلے جاتے ہیں‘ وہ ان سب مصیبتوں کا مقابلہ کرتا چلا جاتا ہے لیکن پھر اچانک اس کا واحد جذباتی سہارا بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے‘ اس کی اہلیہ حلیمہ سلطان عین اس وقت انتقال کر جاتی ہے جب اس کا سب سے بڑا بیٹا صرف تین سال‘ دوسرا بیٹا سال اور تیسرا ایک دن کا ہوتا ہے اور یوں ارطغرل کو منگولوں سے مقابلے کے ساتھ ساتھ اپنے بچے بھی پالنا پڑتے ہیں اور تین بچوں میں سے دو دودھ کی عمر میں ہیں۔
آپ المیے پر المیہ دیکھیے یہ جب سلطان علاؤالدین سلجوق سے صغوط کا ذرخیز ترین علاقہ لے لیتا ہے تو اس کے قبیلے کے لوگ وہاں جانے سے انکار کر دیتے ہیں اور وہ انہیں بڑی مشکل سے مناتا ہے‘ اس سے پہلے جب اس کا بڑا بھائی گوندوغدوخراسان کی طرف نقل مکانی کرنا چاہتا ہے اور یہ اسے سمجھاتا ہے اس طرف منگول ہیں۔
ہمیں اناطولیہ کے پرامن اور زرخیز علاقوں کی طرف جانا چاہیے تو بڑا بھائی اسے قبیلے سے نکال دیتا ہے اور یہ تھوڑے سے ساتھیوں کے ساتھ اناطولیہ جانے پر مجبور ہو جاتا ہے چناں چہ یہ پوری ڈرامہ سیریز مصائب اور مشکلوں کے ستائے ایک جینئس‘ ایک ایکسٹرا آرڈنری انسان کی داستان حیات ہے‘ ایک ایسے انسان کی جیون کتھا جسے سکھ کا ایک بھی دن نہیں ملتا۔
میری ارطغرل دیکھتے ہوئے کئی بار ہنسی نکل گئی‘ کیوں؟ کیوں کہ ابھی اس نے ایک ایشو نبٹایا ہے‘ ابھی کسی ایک دشمن سے جان چھڑائی ہے اور ایک نیا ایشو نکل آیا‘ کسی اور نے کسی طرف سے خط لکھ مارا یا تیر چلا دیا اور نیا سلسلہ شروع ہو گیا‘ ایک سین میں وہ ہانلی بازار کے سرائے میں کھڑا ہو کر بازنطینی سازش کا مقابلہ کر رہا ہے۔
اپنے لوگوں کو سمجھا رہا ہے یہ نہ کرنا ورنہ ہم پھنس جائیں گے‘ وہ جاتے ہیں تو دوسری طرف سے بیوی منہ لٹکا کر آ جاتی ہے‘ بیوی کا خیال ہوتا ہے دوسرے قبیلے کے سردار نے اسے اپنی بیٹی سے نکاح کی پیش کش کی ہے اور یہ مجھے جان بوجھ کر نہیں بتا رہا اور وہ بے چارگی سے کبھی بیوی کی طرف دیکھتا ہے اور کبھی جاتے ہوئے لوگوں کو اور میری ہنسی نکل جاتی ہے۔
ارطغرل ڈرامہ سیریز سے یہ سبق بھی ملتا ہے آخری فتح بہرحال برداشت‘ حوصلے اور مسلسل لڑنے والے ہی پاتے ہیں‘ ارطغرل کیوں کہ پوری سیریز میں گیواپ نہیں کرتا‘ وہ کسی قسم کے حالات میں مایوس نہیں ہوتا‘ پیچھے نہیں ہٹتا‘ وہ ڈرتا نہیں‘ بکتا نہیں‘ کمپرومائز نہیں کرتا اوروہ اللہ کے سوا کسی کے سامنے نہیں جھکتا چناں چہ وہ آخر کارتمام مصیبتوں پر قابو پالیتا ہے۔
بازنطینی شہنشاہ ہو‘ سلجوق سلطان ہو یا پھر منگولوں کا خان اعظم اوغدائی خان ہو وہ سب اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور یوں چھوٹے سے قبیلے کا نوجوان چرواہا اپنے وقت کی تمام سپر پاورز کو متاثر کرلیتا ہے‘ وہ صغوط جیسی چھوٹی سی وادی میں تاریخ کی سب سے بڑی سلطنت اور خلافت کا بیج بونے میں بھی کام یاب ہو جاتا ہے۔
میں بچپن سے علامہ اقبال‘ مولانا روم اور حضرت محی الدین ابن عربی کو پڑھ رہا ہوں‘ یہ تینوں پوری زندگی مرد مومن اور مرد مجاہد کا پرچار کرتے رہے جس کی نگاہ بلند‘ سخن دل نواز اور جان پرسوز ہو اور جو قہاری‘ غفاری‘ قدوسی اور جبروت بھی ہو‘ جو اپنی ٹھوکر سے کاخ امراء کے درودیوار ہلا دے اور جو شیر کا دل اور شاہین کی آنکھ کا مالک بھی ہو۔
میں نے ارطغرل دیکھا تو مجھے محسوس ہوا بنانے والوں نے اس ڈرامہ سیریز کے ذریعے ابن عربی‘ مولانا روم اور علامہ اقبال کے مرد مومن کے تصور کی ڈرامائی تشکیل کی ہے‘ ترک اسلامی تاریخ کی کتابوں میں چھپے مومن کو سکرین پر لے آئے ہیں اور انہوں نے کیمرے‘ لائیٹس اور مائیک کے ذریعے دنیا کو بتا دیا ہم مسلمان اصل میں یہ ہیں۔
ہم رزم حق وباطل میں فولاد اور حلقہ یاراں میں بریشم کی طرح نرم ہوتے ہیں چناں چہ دنیا اگر ہمیں فولاد دیکھنا چاہتی ہے تو یہ حق وباطل کی رزم بچھا لے اور یہ اگر ہمیں ریشم کی طرح محسوس کرنا چاہتی ہے تو پھر اسے ہمارے حلقہ یاراں میں آنا ہوگا اور بس۔ارطغرل کی داستان ختم ہو گئی‘اب کورونا ہوگا اور ہم ہوں گے دوستو!۔