نوول کرونا سے لڑنے کے اب تک دو ماڈل سامنے آئے ہیں‘ چینی ماڈل اور اٹالین ماڈل‘ ہم سب سے پہلے چینی ماڈل کی طرف آتے ہیں‘ دنیا میں نوول کرونا کا پہلا مریض دسمبر 2019ء میں چین کے شہر ووہان میں سامنے آیاتھا‘ ڈاکٹر لی وین لیانگ دنیا کے پہلے طبی ماہر تھے جنہوں نے نوول کرونا دریافت کیا‘ اس کی علامتوں کا جائزہ لیا اور اپنے ساتھی ڈاکٹروں کو مطلع کرنا شروع کیا‘ وین لیانگ نے بتایا”ووہان میں ایک نئی وبا پروان چڑھ رہی ہے اور یہ چند دنوں میں پورے چین اور پھر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لی گی“۔
چینی حکومت نے ڈاکٹر وین لیانگ کی وارننگ کو سیریس نہ لیا‘ ڈاکٹر بار بار کہتا رہا مگر کسی کے کان پرجوں تک نہ رینگی‘ وین لیانگ وبا کے بھیانک نتائج سے واقف تھا‘ وہ وارننگ دیتا رہا یہاں تک کہ اسے پولیس نے بلایا اور قانونی کارروائی کی دھمکی دے دی مگر وہ اپنے موقف پر بھی ڈٹا رہا اور مریضوں کا علاج بھی کرتا رہا‘ وین لیانگ علاج کے دوران خود بھی وائرس کی زد میں آ گیا‘ نوول کرونا نے اس پر وار کیا‘ اسے ہسپتال داخل کر دیا گیا اور وہ 7 فروری کو دوران علاج انتقال کر گیا‘ دنیا آج اسے انٹرنیشنل ہیرو قرار دے رہی ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ وہ اگر چینی حکومت کے دباؤ میں آ جاتا‘ وہ اگر دنیا کو کرونا وائرس کے بارے میں نہ بتاتا تو آج دنیا کی ایک چوتھائی آبادی مرچکی ہوتی‘ ہر ملک کی گلیوں میں لاشیں پڑی ہوتیں اور کوئی یہ لاشیں اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوتا‘آپ کرونا کی سپیڈ ملاحظہ کیجیے‘ چین میں 26جنوری تک صرف دو ہزار مریض تھے‘ اگلے دس دنوں میں مریضوں کی تعداد25 ہزارہو گئی اور پھر ہر آنے والے دن میں یہ تعدا بڑھتی چلی گئی‘ لوگ تیزی سے مرنے بھی لگے‘ حکومت ایکٹو ہوئی‘ اس نے فوری طور پر صورت حال کی سنگینی کا اندازہ کیا اور ووہان کا مکمل اور چین کا جزوی لاک ڈاؤن کر دیا‘ ووہان شہر اور صوبے ہوبی میں کوئی شخص‘کوئی گاڑی‘کوئی ٹرین حتیٰ کہ پرندہ تک داخل ہو سکتا تھا اور نہ باہر آ سکتاتھا۔
پولیس اڑتے پرندوں تک کو گولی ماردیتی تھی‘ پانی اور سیوریج بھی ووہان سے دوسرے علاقوں کی طرف نہیں جانے دیا گیا اور حکومت نے چین کی تمام فضائی اور بحری حدود بھی بند کر دیں‘ چین میں کوئی جہاز آ سکتا تھا اور نہ نکل سکتا تھا‘ یہ پہلا مرحلہ تھا‘ دوسرے مرحلے میں حکومت نے پورے ملک سے وبائی ماہر اکٹھے کیے‘دن رات ماسک‘ گلوز اور سینی ٹائزرز کی فیکٹریاں چلائیں اور ووہان کے ہر گھر اور ہر شخص کو سینی ٹائزرز‘ ماسک اور گلوز فراہم کر دیے۔
چین بھر کے وبائی ماہر بھی ووہان پہنچا دیے گئے‘ خوراک کے ڈھیر بھی لگا دیے گئے‘ بجلی‘ پانی اور گیس کی سپلائی بھی بڑھا دی گئی‘ لوگوں کے اکاؤنٹس اور کریڈٹ کارڈز میں رقمیں بھی ڈال دی گئیں اورووہان شہر میں 10دنوں میں ہزاربستروں کا عارضی ہسپتال بھی بنا دیا گیا‘ دوسرا ہسپتال 12دنوں میں بنایا گیا اور اس میں سولہ سو بستر تھے‘ پورے ملک سے وینٹی لیٹرز بھی جمع کر کے ووہان پہنچا دیے گئے اور اس کے بعد شہریوں کو گھروں تک محدود کر دیا گیا۔
یہ 48 گھنٹوں میں ایک بار صرف گروسری کے لیے گھر سے نکل سکتے تھے‘ شہر میں کوئی شخص ماسک اور گلوز کے بغیر کسی کے سامنے نہیں آ سکتا تھا‘ ہر شخص 15منٹ بعد ہاتھ دھونے کا پابند بھی تھا‘ کوئی کسی کے سامنے چھینک سکتا تھا اور نہ کھانس سکتا تھا‘ چین کے اس لاک ڈاؤن کا یہ نتیجہ نکلا آج پچھلے تین دن سے چین میں کرونا وائرس کا کوئی مریض سامنے نہیں آیا‘ ووہان میں بھی وائرس کنٹرول ہو چکا ہے اور یہ شہر اب کھل چکا ہے‘ لوگ یہاں آ اور جا رہے ہیں۔
چین وائرس سے بڑی تیزی سے محفوظ بھی ہوتا چلا جا رہا ہے‘ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا خیال ہے یکم اپریل تک چین کو مکمل محفوظ قرار دے دیا جائے گا یوں یہ دنیا کا واحد ملک ہو گا جو سب سے پہلے کرونا سے متاثر ہوا اورسب سے پہلے محفوظ بھی ڈکلیئر کر دیا گیا‘ یہ تھا چینی ماڈل‘ مکمل لاک ڈاؤن۔ہم اب اٹالین ماڈل کی طرف آتے ہیں‘ اٹلی میں 31 جنوری 2020ء کو کرونا کا پہلا کیس سامنے آیا‘ اگلے 25 دنوں میں مریضوں کی تعداد صرف ساڑھے چارسو اور انتقال کرنے والوں کا عدد 12تھا لہٰذا حکومت مطمئن رہی۔
صدر سرگیومیٹاریلانے ٹیلی ویژن پر انٹرویو دیا اور اس انٹرویو میں کہا ”ہم چین نہیں ہیں‘ ہم اٹلی ہیں اور حالات مکمل طور پر ہمارے قابو میں ہیں‘ گھبرانے کی کوئی بات نہیں“ لیکن لوگ گھبرا رہے تھے‘ اپوزیشن‘ میڈیا‘ یونینز اور سوشل پریشر گروپس حکومت سے لاک ڈاؤن کا مطالبہ کرنے لگے مگر صدر سرگیومیٹاریلاہمارے وزیراعظم عمران خان کی طرح ضد کے پکے اور بااعتماد ہیں‘ یہ بھی اپوزیشن کے سامنے جھکنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔
حکومت نے پاکستان کی طرح سکولز‘ مالز اور سٹیڈیم بند کر دیے مگر فیکٹریاں‘ ریستوران‘ بار اور کافی شاپس کھلی رہیں اور لوگ ہماری طرح پبلک ٹرانسپورٹ اور ٹیکسیاں بھی استعمال کرتے رہے اور پھر دنیا نے اس ہٹ دھرمی‘ اس ضد اور اس بے وقوفانہ اعتماد کا نتیجہ دیکھا‘ کرونا نے اٹلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی‘ 59ہزارلوگ بیمار ہوئے اور30دنوں میں ساڑھے پانچ ہزارلوگ ہلاک ہو گئے‘ روزانہ سات سات سو‘ آٹھ آٹھ سو لوگ مرتے چلے گئے۔
لاشیں تک اٹھانے کا بندوبست نہیں تھا‘ حکومت نے8 مارچ کو آدھا اٹلی اور10 مارچ کو پورا ملک لاک ڈاؤن کیا لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی چناں چہ اٹلی اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مرد بیمار بن چکا ہے‘پوری دنیا اسے دہشت بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے‘ ایران نے بھی اٹلی جیسی غلطی کی تھی‘ 19 فروری کوقم میں پہلا کیس سامنے آیا تو ایرانی حکومت نے وبا کا قوت ایمانی کے ذریعے مقابلہ کرنے کی کوشش شروع کر دی‘ نتیجہ پوری دنیا کے سامنے تھا۔
ایران کے اندر بھی لاشوں کے انبار لگ گئے اور یہ لوگ جہاں جہاں گئے وہاں بھی تباہی آ گئی‘ زائرین نے خانہ کعبہ اور مسجد نبوی تک بند کرا دی‘ آج پاکستان بھی اس ایمانی قوت کا نتیجہ بھگت رہا ہے اور عراق‘ شام‘ افغانستان‘ ترکی اور عرب امارات بھی‘ ایرانی زائرین جہاں جا رہے ہیں وہاں لاشیں بچھتی چلی جا رہی ہیں۔ہمارے پاس تینوں مثالیں ہیں‘ چین نے مکمل لاک ڈاؤن کے ذریعے کرونا کو شکست دے دی‘ اٹلی فیکٹریاں‘ تجارت اور دیہاڑی دار مزدور بچاتے بچاتے موت کی کھائی میں جا گرا جب کہ ایران نے قوت ایمانی کا امتحان لیتے لیتے اپنی اور اپنے ہمسایوں کی مت مار دی۔
یہ اس وقت کرونا سے متاثر ہونے والا تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے‘ ہلاکتوں کی تعداد 1685 ہو چکی ہے چناں چہ ہمیں ایران اور اٹلی دونوں کی حماقتوں سے سیکھنا چاہیے‘ہمارے پاس اب دو ماڈل ہیں‘ چینی ماڈل اور اٹالین اور ایرانی ماڈل‘ عقل کہتی ہے ہمیں چینی ماڈل سے فائدہ اٹھانا چاہے لیکن ہماری حکومت کیوں کہ جب تک سو جوتے اور سو پیاز پورے نہ کر لے اس وقت تک اس کی آنکھ نہیں کھلتی لہٰذا صاف نظر آ رہا ہے یہ لوگ اس بار بھی گند کر کے رہیں گے۔
م لوگ اس بار بھی حماقت کا ڈھیر لگا کر اس پر بیٹھ کر ہی رہیں گے‘ آپ یقین کریں یہ لوگ یوٹرن کی علت کا شکار ہو چکے ہیں‘ یہ جب تک ایکسٹریم پوزیشن نہ لے لیں اور پھرخود کو بڑالیڈر ثابت کرنے کے لیے اس ایکسٹریم پوزیشن سے نیچے چھلانگ نہ لگا لیں اس وقت تک ان کے دل کو قرار نہیں آتا‘ آپ کو اگر میری بات پر یقین نہ آئے تو آپ وزیراعظم کی دونوں تقریریں سن لیں‘ یہ پہلی مرتبہ 17 مارچ کو قوم کے سامنے آئے اور ہمیں بتایا کرونا ہوتا کیاہے اور ہمیں معلومات فراہم کر کے واپس چلے گئے اور یہ دوسری مرتبہ اتوار کو تشریف لائے اور قوم کو ”لاک ڈاؤن کیا ہوتا ہے“ کا بھاشن دے کر چلے گے۔
قوم کو وزیراعظم کی دونوں تقریروں سے خون کی بو آ رہی تھی‘ محسوس ہورہا تھا حکومت دو چار ہزار لاشیں دیکھنا چاہتی ہے‘ آپ وزیراعظم کی منطق ملاحظہ کیجیے‘ دیہاڑی دار مزدور کیا کریں گے؟ کاش وزیراعظم کو کوئی بتائے لوگ جب باہر ہی نہیں آ رہے‘ جب سکول‘ فیکٹریاں‘ بازار‘ دفتر‘ منڈیاں‘ ٹرینیں اور ائیر پورٹس بند ہیں تو مزدور اور ٹیکسی ڈرائیور کو دیہاڑی کہاں سے ملے گی؟ یہ لوگ پہلے ہی سے بے روزگار ہو چکے ہیں بس کرونا لگنا باقی ہے اور حکومت کی بے وقوفی سے انہیں جب کرونا لگ گیا تو یہ دنیا سے رخصت ہو جائیں گے۔
کاش کوئی وزیراعظم کو بتائے مزدوری نہ ملنا اتنا خطرناک نہیں ہوتا جتنا خطرناک بے روزگاری اور غربت کے ساتھ کرونا ہوتا ہے چناں چہ آپ مہربانی فرما کر لوگوں کی زندگیاں بچائیں‘ ملک کو مکمل لاک ڈاؤن کریں اور بیماری کو پھیلنے سے روکیں‘ اگر زندگی بچ گئی تو روزگار بھی مل جائے گا اور ان لوگوں کی دیہاڑیاں بھی واپس آ جائیں گی لیکن اگر حکومت کی حماقت سے یہ لوگ اور ان کے اہل خانہ کرونا کا شکار ہو گئے تو دیہاڑی بچے گی اور نہ دیہاڑی دار لہٰذا آپ عوام پر رحم کریں‘ صدر شی پنگ اور مراد علی شاہ بنیں‘ لاک ڈاؤن کریں۔
آپ اٹلی کے صدر سرگیومیٹاریلاجیسی غلطی نہ کریں‘ اگر لاک ڈاؤن کا وقت گزر گیا تو پھر قوم کو آپ کے یوٹرن کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا‘ آپ یہ بھی ذہن میں رکھیں ہم اس قدر نالائق ہیں کہ اگر خدانخواستہ لوگ مرنا شروع ہو گئے تو ہم لاشیں بھی نہیں سمیٹ سکیں گے لہٰذا عقل کو ہاتھ ماریں‘ خدا خوفی کریں اور اس بار یوٹرن سے پہلے یوٹرن لے لیں۔