دو دن بہاولپور میں

2  جنوری‬‮  2020

ڈاکٹر اطہر محبوب اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور کے وائس چانسلر ہیں‘ یہ پاکستان کی تاریخ کے دوسرے نوجوان ترین وی سی ہیں‘ بہاولپور یونیورسٹی سے پہلے یہ خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی رحیم یار خان کے وائس چانسلر رہے اور دو یونیورسٹیوں کی سربراہی کے باوجود ابھی ان کی عمر صرف 48 سال ہے‘ مجھے چند دن قبل ان کی طرف سے یونیورسٹی کے وزٹ اور طالب علموں سے گفتگو کی دعوت ملی‘ میں یہ پیغام سن کر سکتے میں آگیا‘ کیوں؟ کیوں کہ میں نے اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور سے ایم اے جرنلزم کیا تھا۔

میں شعبہ صحافت کا پہلا گولڈ میڈلسٹ بھی تھا مگر میری یونیورسٹی نے مجھے کبھی ”اون“ نہیں کیا تھا‘ مجھے سینکڑوں تعلیمی اداروں نے بلایا‘ میں بیرون ملک بھی یونیورسٹیوں میں گیا اور شاید ہی پاکستان کی کوئی بڑی یونیورسٹی ہو گی مجھے جس کے طالب علموں سے گفتگو کا اعزاز حاصل نہ ہوا ہو مگر میری یونیورسٹی مجھے ہر دور میں ”اگنور“ کرتی رہی تاہم میں اس میں اپنی کوتاہی سمجھتا تھا‘ میں یونیورسٹی کا باغی طالب علم تھا‘ میرے اساتذہ بھی مجھ سے خوش نہیں تھے اور کلاس فیلوز بھی چناں چہ ایسے شخص کو ”اون“ کرنے کے لیے اعلیٰ سطح کی اعلیٰ ظرفی چاہیے ہوتی ہے اور یہ شاید ماضی کے وائس چانسلرز میں نہیں تھی چناں چہ جب ڈاکٹر اطہر محبوب کا فون آیا تو میں نے ان سے دوبار پوچھا ”آپ اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور کی ہی بات کر رہے ہیں “ اور وہ ہنس کر بولے ”جی سر آپ کی اپنی یونیورسٹی“ بہرحال میں نے 27 دسمبر کو بہاولپور آنے کا وعدہ کر لیا اور میں دھند اور فلائیٹس کی تاخیر کے باوجود 27 دسمبر کو وہاں پہنچ گیا۔ڈاکٹر صاحب نے مین آڈیٹوریم میں میری گفتگو کا اہتمام کیا تھا‘میں ہال میں موجود طالب علموں کو دیکھ کر حیران رہ گیا‘نوجوان سیڑھیوںاور دروازوں تک میں بیٹھے تھے‘ مجھے اس ریسیپشن نے بھی حیران کر دیا‘ میں کھلاڑی ہوں اور نہ ہی اداکار‘ دنیا عموماً یہ ریسیپشن چاکلیٹی اداکاروں اور کھلاڑیوں کو دیتی ہے‘ میرے جیسے عام سے اخباری لکھاری یا ٹیلی ویژن شو ہوسٹ کے لیے نوجوانوں کا آنا اور دیر تک بیٹھے رہنا یہ واقعی اچنبھے کی بات تھی‘ میں نے ڈرتے ڈرتے نوجوانوں سے بات شروع کی اور ان کے جوش نے مجھے حیران کر دیا۔

میں ان کے سوالوں سے بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا‘ مجھے نوجوانوں کے ساتھ گپ لگاتے وقت محسوس ہوا ہماری نوجوان نسل میں سیکھنے کی بے انتہا پیاس ہے‘ شاید یونیورسٹیاں صرف ان کی تعلیمی ضروریات پوری کر رہی ہیں‘ یہ انہیں صرف نمبر حاصل کرنے‘ ڈگریاں لینے اور اسائنمنٹ تیار کرنے کا طریقہ بتا رہی ہیں لیکن سکل کیسے سیکھنی چاہیے‘ پروفیشن کیا ہے اور زندگی میں آگے بڑھنے کاکیا طریقہ ہے ہماری یونیورسٹیاں شاید طالب علموں کو یہ نہیں سکھا پا رہیں ۔

چناں چہ طالب علموں کو اگر کسی جگہ میرے جیسے تنکے بھی مل جاتے ہیں تو یہ شہتیر سمجھ کر ان کے ساتھ بھی لپٹ جاتے ہیں اور یہ ان سے پوچھنا شروع کر دیتے ہیں” ہم کیا کریں اور ہمیں کیا کرنا چاہیے“ مجھے بہاولپور کے طالب علموں میں بھی یہ تھرسٹ محسوس ہوئی‘یہ تربیت چاہتے تھے‘ میں بات آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں ”تربیت کیا ہوتی ہے؟“ ۔ہم انسان اللہ تعالیٰ کی دل چسپ مخلوق ہیں‘ ہم باقی تمام جان داروں سے مختلف ہیں لہٰذاکتے‘ بلیاں اور گیدڑ اپنے بچوں کو پالتے ہیں‘ شیر‘ چیتے اور ریچھ اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہیں جب کہ انسان اپنے بچے کی تربیت کرتا ہے۔

یہ انہیں زندگی گزارنے‘ پروفیشن اڈاپٹ کرنے اور اپنی ذات میں سکون‘ اطمینان اور سکھ پیدا کرنے کا طریقہ سکھاتا ہے لیکن شاید ہم نے اپنے بچوں کی تربیت بند کر دی ہے اور ہم اب ان کی پرورش کر رہے ہیں یا پھر انہیں پال رہے ہیں چناں چہ ہمارے بچے اپنی ذات میں خلا محسوس کر رہے ہیں‘ ہم میں سے زیادہ تر والدین اپنے بچوں کو چالاک بنا دیتے ہیں‘ یہ انہیں زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے‘ زیادہ سے زیادہ سمیٹنے کا طریقہ بتاتے رہتے ہیں لہٰذا ان کے بچے بڑے ہو کر چالاک بن جاتے ہیں۔

یہ اچھے انسان نہیں رہتے جب کہ زندگی گزارنے کا شان دار طریقہ یہ ہے آپ اچھے ہو جائیں‘آپ زندگی میں جتنے اچھے ہوتے جاتے ہیں زندگی آپ کے لیے اتنی ہی مہربان‘ پرسکون‘ مطمئن اور شاد ہو جاتی ہے‘ مجھے اپنے تعلیمی نظام میں ہر دور میں دو چیزیں مسنگ محسوس ہوئیں‘ تربیت اور تکنیکس‘ ہمارے تعلیمی ادارے نوجوانوں کو نمبروں کی ریٹ ریس پر لگا دیتے ہیں اور یہ بے چارے چوہوں کی طرح نمبروں کا ڈھیر لگاتے چلے جاتے ہیں‘یہ ان کی تربیت نہیں کرتے۔

دوسرا ہمارے نوجوان جب یونیورسٹیوں سے نکلتے ہیں تو ان کے ہاتھ میں کوئی فن‘ کوئی آرٹ نہیں ہوتا‘ یہ کاغذ کا ایک ٹکڑا لے کر مارکیٹ میں آ جاتے ہیں اور پھر مدت تک دھکے کھاتے رہتے ہیں‘ میں نے 1992ءمیں صحافت میں ایم اے کیا تھا‘ میں گولڈ میڈلسٹ بھی تھا لیکن آپ یقین کیجیے مجھے اس وقت تک صحافت کی الف ب بھی معلوم نہیں تھی‘ میں نے جو کچھ سیکھا وہ میں نے یونیورسٹی کے بعد عملی میدان میں آ کر سیکھا چناں چہ میری شدید خواہش ہے ہم تعلیم وتربیت کی ترتیب بدل کر اسے تربیت و تعلیم کر دیں۔

ہم سکول لیول پر اپنے بچوں کو تربیت زیادہ دیں اور تعلیم کم اور ہم یونیورسٹیوں میں انہیں ڈگریوں کے بجائے سکل دیں تاکہ یونیورسٹی سے نکلنے والا ہر طالب علم اپنے شعبے کا ماہر ہو‘ یونیورسٹی اسے پالش کر کے مارکیٹ میں اتارے بجائے اس کے کہ طالب علم مارکیٹ میں اپنی پالش تلاش کرتا رہے‘ دوسرا یونیورسٹیوں کے اندر کیریئر کونسلنگ کا باقاعدہ شعبہ ہونا چاہیے‘ یہ نوجوانوں کو بتائے ان کے اندر کون کون سا ٹیلنٹ چھپا ہوا ہے اور نوجوان کس شعبے میں کس طرح کام کر کے کہاں تک پہنچ سکتے ہیں‘ یہ گریٹ سروس ہو گی۔

https://docs.google.com/forms/d/e/1FAIpQLSeVjVL4AN-dvPKf7cKZl5jq2hNbHGzxfPKRMNMLJRg1cAERnw/viewform

ہمیں یونیورسٹیوں میں عملی شعبے بھی بڑھا دینے چاہئیں‘ ہمارے ہر طالب علم کے پاس کوئی نہ کوئی عملی فن بھی ضرور ہونا چاہیے تاکہ یہ جب مارکیٹ میں آئے تو یہ اپنی روزی روٹی کا بندوبست کر لے‘ ہمارے85 فیصد طالب علم صرف نوکری کے لیے ڈگری لیتے ہیں اور آج کے زمانے میں نوکری سے بڑی بے وقوفی کوئی نہیں‘ ہم اگر آج سوشل میڈیا کے ہوتے ہوئے بھی نوکری تلاش کر رہے ہیں تو پھر ہمیں احمق کہنا چاہیے لہٰذا ہماری یونیورسٹیوں کو چاہیے یہ طالب علموں کو بتائے آپ نے ڈگری کے بعد نوکری تلاش نہیں کرنی اپنا کوئی بزنس کرنا ہے‘ یہ سوچ ملک کو بدل دے گی۔

میں 17 سال بعد یونیورسٹی آیا تھا‘ 2002ءمیں شاید ڈگری یا گولڈ میڈل لینے آیا تھا اور اس کے بعد 2019ءمیں آیا‘ ان 17 برسوں میں بہاولپور اور یونیورسٹی دونوں بدل گئے‘ کیمپس زیادہ خوب صورت لگا‘ نیو کیمپس بغداد الجدید کہلاتا ہے‘ یہ شروع میں صحرا کے قریب تھا‘ ہم بڑی مشکل سے وہاں پہنچے تھے لیکن اب یہ گل وگل زار ہو چکا ہے‘ ڈاکٹر اطہر محبوب خود بھی صفائی پسند اور باذوق ہیں‘ ان کا ذوق اور صفائی پسندی دونوں کیمپس میں دکھائی دیتے ہیں۔

اسلامی یونیورسٹی نے ”سٹڈی پارکس“ کے نام سے ایک دل چسپ تجربہ کیا‘ خواتین کے ہاسٹلوں کے سامنے ایریا مختص کر دیا گیا ہے‘ اس ایریا میں جاگنگ ٹریکس بھی ہیں‘ باسکٹ بال کورٹ بھی‘ ایک چھوٹی سی جھیل بھی اور بڑے بڑے لانز بھی‘ یہ علاقہ صرف خواتین کے لیے مختص ہے‘ طالبات دن کے اوقات میں یہاں بیٹھ کر سٹڈی بھی کر سکتی ہیں‘ کھیل بھی سکتی ہیں اور واک بھی‘ کوئی مرد اس ایریا میں داخل نہیں ہو سکتا‘ یہ ایک اچھی سکیم ہے۔

ہمارے زنانہ ہاسٹلز جیل کی طرح ہوتے ہیں‘ بچیاں ہاسٹلوں میں محصور ہو کر رہ جاتی ہیں‘ یہ شہر بھی نہیں جا سکتیں اور گھوم پھر بھی نہیں سکتیں لہٰذا سٹڈی پارکس کی وجہ سے انہیں سانس لینے کا موقع مل جاتا ہے‘ یہ کھلی فضا میں بیٹھ اور چل پھر لیتی ہیں‘ کیمپس میں بے تحاشا پھول اور درخت بھی لگ چکے ہیں‘ ہمارے دور میں یہاں ریت کے ٹیلے ہوتے تھے لیکن اب کسی جگہ ریت نظر نہیں آتی‘ بہاولپور کے آخری نواب سر صادق محمد خان عباسی ایک روشن خیال اور انقلابی شخصیت تھے۔

نواب صاحب نے انگریزوں کے دور میں انگریزی سکول اور کالجز بنوانا شروع کر دیے تھے‘یونیورسٹی کی بنیاد بھی نواب صاحب نے رکھی تھی‘ اولڈ کیمپس کی چھتیں‘ برآمدے اور گنبد آج بھی نواب صاحب کے وژن کی داد دیتے ہیں‘ یہ زراعت میں بھی خصوصی دل چسپی لیتے تھے‘ فرانس‘ بیلجیئم اور جرمنی سے ماہرین منگوائے اور جھیلیں اور نہریں کھود کر علاقے کو ہرا بھرا کر دیا‘ تقسیم سے پہلے دہلی سے کراچی کا مختصر ترین ریلوے روٹ بہاولپور سے ہو کر گزرتا تھا۔

یہ ٹریک آج بھی موجود ہے لیکن اس پر ٹرین نہیں چلتی‘ ڈیڑھ سو سال پرانے سٹیشن اپنی کسمپرسی اور ہماری نالائقی کا نوحہ پڑھتے نظر آتے ہیں‘ لوگ ان کی اینٹیں تک اکھاڑ کر لے جا رہے ہیں‘ حکومت اگر توجہ دے تو یہ اس ٹریک پر سفاری ٹرین چلا کر علاقے میں سیاحت بھی پروموٹ کر سکتی ہے اور کروڑوں روپے کا ریونیو بھی حاصل کر سکتی ہے‘ یہ ٹریک بھارت کی سرحد تک جاتا ہے‘ درمیان میں لال سوہانرا کا نیشنل پارک بھی آتا ہے‘ یہ پارک جنگلی حیات کا بہت بڑا ڈپو ہے۔

آپ کو یہاں نیل گائے بھی نظر آتی ہیں‘ مور بھی‘ سانپ بھی اور ہرن بھی‘ یہ علاقہ ونٹر ٹورازم کے لیے آئیڈیل ہے‘ بہاولپور میں نواب صاحب کے بے شمار محلات موجود ہیں‘ یہ محل اگر ہوٹلوں میں تبدیل کر دیے جائیں‘ سفاری ٹرین چلا دی جائے اور اگر تھوڑی سی سیاحتی سہولتیں دے دی جائیں تو میرا خیال ہے دریائے ہاکڑا کی سولائزیشن پوری دنیا کے لیے کھل جائے گی‘ عوام کو روزگار بھی ملے گا اور پاکستان میں سیاحت بھی فروغ پائے گی۔

حکومت یہ ذمہ داری اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور کو بھی سونپ سکتی ہے‘ٹرین بھی یونیورسٹی کو دے دی جائے اور سفاری پارک بھی‘ یونیورسٹی یہ کام ٹھیک ٹھاک سرانجام دے دے گی‘ میری جوان اور متحرک وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب سے درخواست ہے یہ یونیورسٹی میں سیاحت کا شعبہ بھی کھول دیں‘ یہ ٹورازم میں طالب علموں کو ڈگری کروائیں۔(باقی کل ملاحظہ کیجیے



کالم



مشہد میں دو دن (دوم)


فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…

ہم بھی کیا لوگ ہیں؟

حافظ صاحب میرے بزرگ دوست ہیں‘ میں انہیں 1995ء سے…

مرحوم نذیر ناجی(آخری حصہ)

ہمارے سیاست دان کا سب سے بڑا المیہ ہے یہ اہلیت…

مرحوم نذیر ناجی

نذیر ناجی صاحب کے ساتھ میرا چار ملاقاتوں اور…

گوہر اعجاز اور محسن نقوی

میں یہاں گوہر اعجاز اور محسن نقوی کی کیس سٹڈیز…