میں نے عرض کیا ”آپ ضرور فارغ ہو رہے ہیں“ وزیر صاحب کے چہرے پر ایک رنگ آیا اور چلا گیا‘ جیب ٹٹولی‘ سگریٹ کی ڈبی نکالی‘ سگریٹ ہونٹوں میں دبایا‘ لائیٹر جلایا‘ لمبا کش لیا اور دھواں آسمان کی طرف اڑا کر بولے ”انفارمیشن کا سورس کیا ہے؟“ میں نے عرض کیا ”تبدیلی سے پہلے پورے ملک کو علم ہو جاتا ہے صرف تبدیل ہونے والے کو پتا نہیں چلتا“ وہ ہنسے اور دوسرا کش لگا کر بولے ”لیکن مجھ سے پہلے مراد سعید‘ فیصل واوڈا اور شاہ محمود قریشی جائیں گے اور اگر یہ بچ گئے تو پھر سارے ہی چلے جائیں گے‘ مالک مکان اور کرایہ دار دونوں فارغ“۔
حیرت کی باری اب میری تھی‘ میں نے پریشان ہو کر پوچھا ”مراد سعید‘ فیصل واوڈا اور شاہ محمود قریشی کیوں؟“ وہ رکے‘ چند لمحے سوچا اور پھر سوچ سوچ کر بولے ” اپوزیشن شاہ محمود قریشی کو وزیراعظم بنوانا چاہتی ہے‘میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو دونوں عندیہ دے چکے ہیں‘ قریشی صاحب پیر بھی ہیں اور جاگیر داربھی‘ وکٹ کی دونوں سائیڈوں پر ان کے دوست موجود ہیں‘ بلاول بھٹو کاخیال ہے شاہ محمود قریشی آ گئے تو سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بچ جائے گی جب کہ میاں شہباز شریف سمجھتے ہیں قریشی صاحب کے آنے سے پاکستان تحریک انصاف دو حصوں میں بٹ جائے گی اور ن لیگ وفاق میں وزیراعظم کو سپورٹ کر کے پنجاب واپس لینے میں کام یاب ہو جائے گی‘ شاہ محمود قریشی خود بھی 20 سال سے وزیراعظم بننا چاہتے ہیں‘ وزیراعظم عمران خان بھی انہیں اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں مگر یہ انہیں ہٹا نہیں سکتے تھے‘ شاہ محمود قریشی نے اب خود ہی وزیراعظم کو موقع فراہم کر دیا اور اگر عمران خان نے شاہ محمود قریشی کو ہٹانے کا یہ موقع ضائع کر دیا تو یہ ان کی بہت بڑی سیاسی غلطی ہو گی“ وہ رکے‘ لمبا کش لیا اور بولے ”پورا ملک کشمیر کے ایشو پر جذباتی ہے‘ وزیر خارجہ نے وزیراعظم کویقین دلایا تھا اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں 50 سے زائد رکن ملک کشمیر پر ہماری قرارداد کو سپورٹ کریں گے۔
وزیراعظم نے زوردے کر پوچھا‘ کُل کتنے ملک ہمارا ساتھ دیں گے‘ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جواب دیا 58 ملک ہمارے ساتھ ہیں‘ وزیراعظم خوش ہو گئے اور وزیر خارجہ کو شاباش دی‘ وزیر خارجہ نے 10ستمبرکو یہ ٹویٹ کر دی”آج پاکستان 50 ممالک کے تعاون سے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں تاریخی مشترکہ اعلامیہ پیش کرنے کا اعلان کرتا ہے“ وزیراعظم نے بھی اس ٹویٹ کے بعد12 ستمبر ٹویٹ کر دی”میں ان 58 ممالک کی تعریف کرتا ہوں جنہوں نے 10 ستمبر کو انسانی حقوق کی کونسل میں پاکستان کے اس موقف کا ساتھ دیا جو بین الاقوامی برادری کی جانب سے بھارت کے سامنے رکھا جاتا ہے کہ وہ (کشمیر) میں طاقت کا استعمال ترک کر دے‘ کرفیو اٹھائے اور پابندیوں کو ختم کرنے کے ساتھ کشمیریوں کے حقوق کا احترام اور تحفظ کرے اور ساتھ ہی ساتھ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرے“۔
پاکستان کے پاس19 ستمبر تک انسانی حقوق کونسل میں قرارداد جمع کرانے کی مہلت تھی لیکن جب وقت آیا تو پتا چلا قرارداد جمع کرانے کے لیے 47 میں سے صرف 16 رکن چاہیے تھے اور ہمارے پاس 16 رکن بھی نہیں تھے یوں پاکستان قرار داد جمع نہیں کرا سکا‘ وزیراعظم نے شاہ محمود قریشی سے پوچھا ”ہمارے حامی وہ 58 رکن کہاں ہیں“ شاہ محمود قریشی نے وضاحت کی لیکن وزیراعظم مطمئن نہیں ہوئے‘ عمران خان اس حرکت کو اپنے‘ ملک اور کشمیریوں تینوں کے ساتھ دھوکا سمجھ رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے بنیادی کارکن اور وزیر بھی ناراض ہیں لہٰذا عمران خان نیو یارک سے واپسی پر ٹھیک ٹھاک نوٹس لیں گے‘ وزیراعظم شاہ محمود قریشی کے بار بار ملتان جانے اورکونسلروں سے ملنے پر بھی خوش نہیں ہیں‘ لاوا پک چکاہے‘ یہ اب نکلے گا“ وہ خاموش ہو گئے۔میں نے پوچھا ”لیکن مراد سعید اور فیصل واوڈا کا کیا قصور ہے“ وہ ہنس کر بولے ”چین کی حکومت مراد سعید کے رویے سے خوش نہیں‘ یہ لوگ صاف صاف کہہ چکے ہیں ہم اس کے ساتھ نہیں چل سکتے۔
مراد سعید کا واحد ڈیفنس وزیراعظم تھے مگر اب یہ بھی نرم پڑ گئے ہیں‘ ہمارا خیال ہے مراد سعید سے مواصلات کا چارج لے لیا جائے گا اور ان کے پاس پوسٹل سروسز کی وزارت رہ جائے گی“ میں نے پوچھا ”وزیراعظم کیوں نرم پڑ رہے ہیں“ وہ بولے ”چین اور پاکستان کے تعلقات کا ایشو بھی ہے اور کابینہ کے تجربہ کار وزراءبھی فیصل واوڈا اور مراد سعید کے خلاف ہیں“ وہ رکے‘ سگریٹ کا ایک اور کش لیا‘ آسمان کی طرف منہ کر کے دھواں اگلا اور بولے ”وزیراعظم کو مفاد پرستوں نے گھیر رکھا ہے‘ یہ عمران خان کو نامکمل معلومات دے کر بڑے بڑے فیصلے کرا لیتا ہے اور یہ فیصلے بعدازاں باﺅنس بیک کر جاتے ہیں۔
فیصل واوڈا اور مراد سعید دونوں ان فیصلوں کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں“ وہ خاموش ہو گئے‘ میں نے پوچھا ”مثلا“ وہ بولے ”مثلاً آپ جی آئی ڈی سی کا ایشو دیکھ لیجیے‘ یہ ایشو عمر ایوب وزیراعظم کے پاس لے کر گئے تھے‘ وزیراعظم کو بتایا حکومت کے 420 ارب روپے پھنسے ہوئے ہیں‘ ہم اگر آدھی رقم کو کمپنیوں کے ٹیکس میں ایڈجسٹ کر لیں تو ہمیں فوری طور پر 200 ارب روپے بھی مل جائیں گے اور ہم وکلاءاور مقدموں کے اخراجات سے بھی محفوظ ہو جائیں گے۔
وزیراعظم کو یہ تجویز مناسب لگی چناں چہ انہوں نے ”ڈن“ کہہ دیا‘ یہ ایشو میڈیا میں آیا تو مراد سعید اور فیصل واوڈا دونوں نے کابینہ میں شور کر دیا‘ وزیراعظم انہیں روکتے رہ گئے مگر یہ نہیں رکے اور وزیراعظم کو فیصلہ واپس لینے پر مجبور کر دیا‘ جی آئی ڈی سی سے فائدہ اٹھانے والے لوگ کابینہ میں بیٹھے ہیں‘ یہ 280 ارب روپے سے محروم ہو گئے لہٰذا یہ ان دونوں کے خلاف ہو گئے‘ دوسرا سولر پینلز اور سولر آلات کے 1200 کنٹینرز کا ایشو تھا۔
عبدالرزاق داﺅد نے پرانی تاریخوں میں ایس آر او جاری کرا دیا‘ لوگوں کے 1200 کنٹینر پھنس گئے‘لوگ محل سے فٹ پاتھوں پر آگئے‘ یہ ایشو فیصل واوڈا نے کابینہ میں اٹھایا اور عبدالرزاق داﺅد کو ہزیمت اور نقصان دونوں اٹھانا پڑ گیا‘ فیصل واوڈا آبی وسائل کے وفاقی وزیر ہیں اور عبدالرزاق داﺅد کی کمپنی ڈیسکون نے مہمندڈیم کا ٹھیکا لے رکھا ہے‘ یہ 309ارب روپے کا کنٹریکٹ ہے‘ یہ دونوں مل کر ڈیم بنا رہے ہیں مگر ان کے درمیان ”ٹاکنگ ٹرمز تک نہیں ہیں لہٰذا اب عبدالرزاق داﺅد رہیں گے یا پھر فیصل واوڈا اور میرا خیال ہے وزیراعظم کے پاس عبدالرزاق داﺅد کو ہٹانے کے اختیارات نہیں ہیں‘ فیصل واوڈا کی وزارت بدل جائے گی“۔
وہ رکے اور لمبی سانس لی‘ میں نے پوچھا ”آپ کا کیا بنے گا“ وہ ہنس کر بولے ”ملک میں اتنے بڑے بڑے وزراءمحفوظ نہیں ہیں تو پھر میں کیا اور میرا شوربا کیا‘ میری تو وزارت ہی چھوٹی سی ہے‘یہ اگر چلی بھی جائے یا پھر یہ فیصل واوڈا کو دے دی جائے تو کیا فرق پڑتا ہے“ وہ رکے‘ سگریٹ کا آخری کش لیا اور بولے ”مگر میری ایک بات نوٹ کر لیں‘ چھ چھ ماہ بعد کوچوان تبدیل کرنے سے تانگا بھی نہیں چلتا اور ہم حکومت چلانا چاہ رہے ہیں۔
ہم بری طرح ناکام ہو جائیں گے“ میں نے قہقہہ لگا کر کہا ”ناکام ہو جائیں گے سے کیا مطلب‘ آپ تو!“ وہ ہنس پڑے اور ہاں میں سر ہلا کر بولے ”یس یو آر رائیٹ‘ہم ناکام ہو چکے ہیں بس مولانا کی دیر ہے‘ یہ اگر نکل آئے تو ہم سب فارغ ہو جائیں گے‘ ہماری حکومت مولانا کے ایک لاکھ بندوں کا بوجھ بھی برداشت نہیں کر سکے گی‘ ہمیں پھر کشمیر کا حساب بھی دینا ہو گا اور معیشت کا بھی“ میں نے پوچھا ”کیا حکومت کو اس نزاکت کا احساس ہے“ وہ بولے ”ہم میں سے ایک ایک شخص اس حقیقت سے واقف ہے‘ مولانا فضل الرحمن ہمارے لیے خطرہ بن چکے ہیں‘ ہم اگر انہیں روکتے ہیں تو یہ آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل جائیں گے اور ہم اگر انہیں آنے دیتے ہیں تو یہ اسلام آباد میں بیٹھ جائیں گے اور ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے“۔
میں نے پوچھا ”مقابلے سے کیا مطلب؟“ وہ بولے ”پولیس اور بیورو کریسی ہمارے کنٹرول میں نہیں اور فوج اور رینجرز تلاوت کرتے بچوں کو روکے گی نہیں لہٰذا ہم پھنس جائیں گے“ وہ رکے اور ہنس کر بولے ”مولانا کی تشریف آوری سے پہلے وزارت داخلہ کا قلم دان بھی کسی سیاستدان کے پاس چلا جائے گا“ میں چونک اٹھا اور پوچھا ”وہ کیوں؟“ وہ بولے ”وزیر داخلہ اعجاز شاہ دبنگ اور بہادر انسان ہیں لیکن یہ ریٹائرڈ بریگیڈیئر ہیں‘ کابینہ کا خیال ہے مولانا کے آزادی مارچ کے دوران وزیر داخلہ کو سخت فیصلے لینا پڑیں گے جس سے فوج کا امیج خراب ہو گا چناں چہ ہمیں یہ عہدہ کسی سیاستدان کے حوالے کر دینا چاہیے تاکہ یہ فیصلے کابینہ کے ہاتھ میں بھی رہیں اور فوج کی عزت پر بھی حرف نہ آئے“۔
میں نے عرض کیا اور میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کا کیا بنے گا“ وہ ہنس کر بولے ”ہم اس ایشو پر بھی ٹریپ ہو گئے ہیں‘ ہمیں لوگ کہتے رہے‘ یہ دونوں پانچ پانچ سو ارب روپے دینے کے لیے تیار ہیں‘ ہم نے انسانی حقوق کونسل میں 58 ارکان کی طرح یہ بھی اناﺅنس کر دیا‘ وزیراعظم پچھلے دنوں ڈان کی ٹیم سے ملے تھے‘ یہ وہاں بھی کہہ بیٹھے یہ 5 سو ارب روپے دے رہے ہیں مگر ہم 7 سو ارب مانگ رہے ہیں‘ ہم ہر جگہ این آر نہیں دیں گے جیسے دعوے بھی کرتے رہے جب کہ حقائق ان دعوﺅں کے برعکس نکلے‘ ہماری جیلوں میں گرمیاں مشکل ہوتی ہیں‘آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف نے یہ مشکل دن جیل میں گزار دیے۔
سردیوں کا موسم شروع ہو چکا ہے‘ یہ باقی ماہ بھی مزے سے جیل میں گزار لیں گے‘ یہ دونوں این آر او تو دور ضمانت تک نہیں کرا رہے‘ یہ جیل میں بیٹھ کر ہمارا تماشا دیکھنا چاہتے ہیں چناں چہ ہم یہاں بھی پھنس چکے ہیں“۔وہ رکے‘ سگریٹ سڑک پر پھینکا‘ ایڑی تلے رگڑا اور بولے ”ہم اگر ان تمام ایشوز سے بچ بھی گئے تو بھی کشمیر ہمیں کہیں کا نہیں رہنے دے گا اور یہ وہ ایشو ہے جس پر سلیکٹر بھی ہماری کوئی مدد نہیں کر سکیں گے‘ ہم اس دلدل میں ڈوب کر رہیں گے“میں نے ہاں میں سر ہلایا اور عرض کیا ”حالات خراب ہیں بس کسی ایک بحران کی دیر ہے اور جس نے بھی اس ستون کو سپورٹ دینے کی کوشش کی وہ بھی اس کے نیچے دب جائے گا“۔