عیدی امین یوگنڈا کا متنازع ترین صدر تھا‘ وہ 18 سال کی عمر میں فوج میں بھرتی ہوا‘دوسری جنگ عظیم میں اتحادی فوج میں برما میں خدمات سرانجام دیں‘1961ء میں یوگنڈن فوج میں کمیشن حاصل کیا‘1966ء میں آرمی چیف بنا اور1971ء میں اقتدار پرقابض ہو کر صد ربن گیا‘ وہ انتہائی دل چسپ کردار تھا‘ اس نے خود کو سکاٹ لینڈ کا آخری کنگ ڈکلیئر کر دیا‘ وہ فل یونیفارم پہن کر سوئمنگ شروع کر دیتا تھا اور اس نے ایک دن قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی‘وہ اس قدر دل چسپ انسان تھا کہ اس نے ایک دن کھڑے کھڑے 60 ہزارایشیائی باشندوں کو ملک سے نکال دیا‘ ان میں سو سال پرانے ”انڈین سیٹلرز“ بھی شامل تھے‘ وہ کس قدر عجیب وغریب انسان تھا میں آپ کو یہ کہانی کسی اور دن سناؤں گا‘ سردست ہم اس کی زندگی کے ایک حیران کن واقعے کی طرف آتے ہیں۔
عیدی امین ایک دن سوئٹزر لینڈ کے شہر برن پہنچا اور پورے سٹاف کے ساتھ ایک بڑے بینک کے ہیڈ کوارٹر پہنچ گیا‘ وہ سیدھا بینک کے صدر کے دفتر میں داخل ہو گیا‘ صدر یوگنڈا کے صدر کو دیکھ کر پریشان ہو گیا‘ عیدی امین نے کمرے کو اندر سے لاک کیا‘ اپنے بریف کیس سے ایک فہرست نکالی‘ بینک کے صدر کے سامنے رکھی اور فوجی لہجے میں کہا‘ ہماری خفیہ ایجنسی نے طویل تفتیش کے بعد مجھے اطلاع دی آپ کے بینک میں ہمارے ملک کے سوا چار سو لوگوں کے خفیہ اکاؤنٹ ہیں‘ ہمیں ہر صورت ان اکاؤنٹس کی تفصیل چاہیے‘ بینک کے صدر نے احترام سے جواب دیا‘ سر ہم اپنے کسی کلائنٹ کی کوئی تفصیل کسی کو نہیں دیتے‘ عیدی امین نے پیار سے کہا‘ہم نے فیصلہ کیا ہے ہمیں جو شخص یہ تفصیلات فراہم کرے گا ہم اسے 20 فیصد رقم دے دیں گے‘ آپ بتا دو آپ کھڑے کھڑے ارب پتی ہو جاؤ گے‘ صدر نے فوراً ناں میں گردن ہلائی اور کہا‘ سر یہ ہماری پالیسی نہیں‘ میرا بینک کسی اکاؤنٹ ہولڈر کی انفارمیشن مجھے بھی نہیں دیتا‘ عیدی امین نے غصے سے کہا‘ آپ نے اگر میری مدد نہ کی تو میں سوئٹزر لینڈ کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی ختم کر دوں گا‘ آپ کے بینک اور بینک کی سسٹر آرگنائزیشن کے یوگنڈا کے اثاثے بھی ضبط کر لوں گا اور ہم فیوچر میں کسی سوئس کمپنی کے ساتھ کوئی کاروبار بھی نہیں کریں گے حتیٰ کہ ہم آپ کی فلائیٹس بھی اپنی فضاؤں سے نہیں گزرنے دیں گے‘ بینک کا صدر تھوک نگل کر بولا‘ سر آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں لیکن میں اور میرا کوئی کولیگ آپ کو کوئی انفارمیشن نہیں دے گا۔
عیدی امین پوری دنیا میں غصیلا مشہور تھا‘ وہ غصے سے کانپ اٹھا‘ اس نے بریف کیس سے اپنا پستول نکالا‘ پستول ”ان لاک“ کیا‘ صدر کی کنپٹی پر رکھا اور کہا میں تین تک گنوں گا اگر تم نے ہاں نہ کی تو میں تمہیں گولی مار دوں گا‘ صدر کے سر‘ گردن اور کمر سے پسینے کی آبشاریں بہنے لگیں‘ وہ جانتا تھا عیدی امین جو کہتا ہے وہ کرتا ہے‘ یہ اگر تین گنے گا تو یہ تین پرواقعی گولی چلا دے گا‘ عیدی امین نے ایک کہا‘ پستول کا چیمبر ذرا سا گھوما‘ بینک کے صدر نے آنکھیں بند کر لیں‘ عیدی امین کے منہ سے دو نکلا‘ چیمبر معمولی سا مزید آگے کھسکا اور پھر عیدی امین نے تین کہہ کر گولی چلا دی۔
ٹھاہ کی آواز آئی اور بینک کا صدر فرش پر گر گیا‘ گولی کی گونج ختم ہوئی تو کمرے میں عیدی امین کا قہقہہ گونج رہا تھا‘ صدر فرش پر گر کر ایڑیاں رگڑ رہا تھا‘ یہ سلسلہ چند سیکنڈ جاری رہا پھر اچانک بینک کے صدر کو محسوس ہوا وہ زندہ بھی ہے اور سلامت بھی‘ گولی اس کے کان کے قریب سے گزر گئی تھی‘ وہ اٹھ کر سیدھا کھڑا ہوا اور خوف سے عیدی امین کو دیکھنے لگا‘ عیدی امین نے ہنستے ہنستے پستول بریف کیس میں رکھا اور مسکرا کر بینک کے صدر سے بولا”میں صرف یہ دیکھ رہا تھا‘ تم اور تمہارا بینک دونوں کتنے ٹرسٹ وردی ہیں‘ پلیز فارم منگواؤ میں تمہارے بینک میں خفیہ اکاؤنٹ بھی کھلوانا چاہتا ہوں اور اس میں دو بلین ڈالر بھی جمع کرانا چاہتا ہوں“۔
میں دعوے سے یہ نہیں کہہ سکتا یہ واقعہ سچا تھا یا پھر یہ بھی عیدی امین کے خلاف برطانوی پروپیگنڈے کا حصہ تھا تاہم یہ سچ ہے سوئس بینکس اصول کے پکے ہوتے ہیں‘ یہ کسی قیمت پر اپنے کسی کھاتے دار کی انفارمیشن کسی شخص کو نہیں دیتے خواہ وہ شخص ان کا صدر ہی کیوں نہ ہو اور یہ وہ اصول ہے جس نے ان بینکوں کو ٹرسٹ وردی بنا دیا اور دنیا جہاں کی بلیک منی سیدھی سوئس بینکوں میں جاتی ہے اور یہ وہاں پارک ہو جاتی ہے‘ آپ سوئس بینکوں کا ٹرسٹ دیکھیے دنیا بھر کے کرپٹ لیڈر اپنے بچوں‘ اپنے دوستوں اور اپنے وفادار ساتھیوں پر اتنا اعتبار نہیں کرتے تھے جتنا اعتبار یہ سوئس بینکوں پر کرتے تھے اور یہ اس اعتبار کا نتیجہ ہے سوئس بینک پوری دنیا میں باقاعدہ محاورہ بن گئے ہیں۔
میں بات آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو دو مزید مثالیں دوں گا‘ دنیا میں سب سے بڑا جاسوسی اور عسکری نیٹ ورک امریکا میں ہے‘ امریکی جاسوس اور امریکی فوجی ملک کے نام پر آگ میں بھی کود جاتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ امریکا کی روایت ہے یہ کسی دوسرے ملک کی سرزمین پر اپنے کسی فوجی کی لاش نہیں چھوڑتا‘ یہ پوری بٹالین مروا دیں گے لیکن اپنے زخمی اور اپنے شہید اٹھا کر لائیں گے اور یہ انہیں امریکی سرزمین پر دفن کریں گے۔
امریکا کے دوسری جنگ عظیم میں 9387جوان یورپ میں مارے گئے تھے‘ امریکا اتنی لاشیں واپس نہیں لا سکتا تھا چناں چہ اس نے فرانس سے زمین خریدلی‘ اس زمین کو امریکا کا حصہ ڈکلیئر کیا اور اپنے فوجی وہاں دفن کیے‘ دوسرا امریکی اپنا کوئی جاسوس کسی دوسرے ملک کی حراست میں نہیں چھوڑتے‘ امریکا نے 2011ء میں پاکستان کے ساتھ اپنے 60سالہ تعلقات داؤ پر لگا دیے تھے لیکن یہ ریمنڈ ڈیوس کو واپس لے کر گیا‘ آپ دیکھ لیجیے گا یہ شکیل آفریدی کو بھی بہت جلد امریکا لے جائے گااور یہ وہ ٹرسٹ ہے جو امریکا کے ہر جاسوس اور ہر فوجی کو دنیا کے کسی بھی خطے میں کودنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
یہ لوگ جانتے ہیں ہمارے پیچھے پوری قوم کھڑی ہے اور یہ ہمارے لیے ایٹم بم تک چلا دے گی‘ آپ ایک اور حقیقت بھی ملاحظہ کیجیے‘ پوری دنیا میں امریکا‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا اور ناروے کے لوگ دوسرے ملکوں میں پراپرٹی نہیں خریدتے‘ یہ پوری دنیا سے پیسہ کمائیں گے لیکن یہ رقم سیدھی اپنے ملکوں میں لے کر جائیں گے‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ سمجھتے ہیں ہمارا سرمایہ جتنا ہمارے اپنے ملکوں میں محفوظ ہے یہ دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں ہو سکتا اور یہ وہ ٹرسٹ ہے جس نے امریکا کو امریکا‘ کینیڈا کو کینیڈا‘ آسٹریلیا کو آسٹریلیا اور ناروے کو ناروے بنایا۔
آج بھی پوری دنیا کے خوش لوگ اپنے سارے سرمائے کے ساتھ آسٹریلیا‘ کینیڈا اور امریکا جاتے ہیں؟ کیوں؟ کیوں کہ یہ سمجھتے ہیں ہمارا سرمایہ ہمارے اپنے ملکوں ملک کی بجائے کینیڈا اور آسٹریلیا میں زیادہ محفوظ رہے گا اور یہ عدم تحفظ کا وہ احساس ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے لیڈروں سے لے کر پرچون فروش اور پراپرٹی ڈیلرز تک اپنا سرمایہ دوسرے ملکوں میں شفٹ کرتے ہیں‘ہم نے کبھی سوچا بھٹو فیملی کا سرمایہ ملک سے باہر کیوں گیا؟اس کے پیچھے بھی عدم تحفظ کا احساس تھا۔
ہم ذوالفقار علی بھٹو پر سینکڑوں الزامات لگا سکتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے وہ کرپٹ نہیں تھے چناں چہ وہ جب پھانسی چڑھے اور ان کا خاندان ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہوا تو یہ لوگ دربدر ہو گئے‘ یہ لوگ کرنل قذافی اور حافظ الاسد سے امداد لینے پر مجبور ہو گئے تھے‘ یہ خواری کے وہ 9سال تھے جنہوں نے بھٹو فیملی کو ملک سے باہر سرمایہ کاری پر مجبور کر دیا تھا‘ شریف فیملی نے بھی اپنی پہلی حکومت کے خاتمے اور کرپشن کے الزامات لگنے کے بعد 1993ء میں لندن میں پہلی بار فلیٹس خریدے تھے اور کمپنیاں بنائی تھیں اور پھر لائین لگ گئی۔
آج ملک کے ٹاپ بیورو کریٹس ہوں‘ جنرل پرویز مشرف جیسے جرنیل ہوں‘ بزنس مین‘ کھلاڑی یا پھر پراپرٹی ڈیلرز ہوں یہ اپنے سرمائے کا 80 فیصد ملک سے باہر منتقل کر دیتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ نہیں جانتے کل کون سی حکومت اور کون سا صدارتی آرڈر آ جائے اور یہ اپنی ساری جمع پونجی سے محروم ہو جائیں چناں چہ یہ لوگ ایک خاص حد کے بعد اپنا کاروبار بھی ملک سے باہر شفٹ کر دیتے ہیں اور یہ اپنی گروتھ بھی روک دیتے ہیں۔
ہمارے وزیراعظم‘ ہماری حکومت اگر سرمائے کی پرواز روکنا چاہتی ہے‘ یہ اگر چاہتی ہے لوگ اپنا سرمایہ ملک کے اندر لے آئیں تو یہ پھر لوگوں کو صرف ٹرسٹ دے دے‘ یہ انہیں صرف اتنا اعتماد دے دے آپ کوئی بھی ہیں اور ملک میں اگر آپ کا ایک پیسہ بھی موجود ہے تو دنیا کی کوئی طاقت آپ سے وہ پیسہ نہیں چھین سکے گی‘ آپ اگر کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کریں‘ آپ بے شک وارن بفٹ بن جائیں دنیا کی کوئی طاقت آپ کا راستہ نہیں روک سکے گی اور آپ خواہ جنرل مشرف ہیں‘ نواز شریف ہیں یا پھر آصف علی زرداری ہیں‘ملک میں آپ کے خلاف کوئی جھوٹا کیس نہیں بنے گا۔
آپ نے جو جرم کیا ہے آپ کو صرف اس کی سزا ملے گی اور بس اور آپ اس کے بعد کمال دیکھیے گا‘ ٹرمپ بھی اپنا سرمایہ پاکستان شفٹ کر دے گا اور ہم اگر یہ نہیں کرتے تو پھر مجھے خطرہ ہے گورنر سٹیٹ بینک بھی اپنی تنخواہ پاکستان میں نہیں رکھے گا‘ یہ بھی ہنڈی کے ذریعے اپنے پیسے دوبئی شفٹ کر لے گا چناں چہ اعتماد کا فقدان یہ ہمارا سب سے بڑا ایشو ہے‘ ہم نے جس دن یہ حل کر لیا ہم اس دن پٹڑی پر آ جائیں گے ورنہ پھر اللہ ہی اللہ۔