اتوار‬‮ ، 29 دسمبر‬‮ 2024 

تبت کیا ہے

datetime 29  مئی‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

تبت میں بودھ مت سے پہلے بادشاہت ہوتی تھی‘ملک میں نیاتری ٹی سینپوسے لینگ ڈراما تک 42 بادشاہ گزرے ہیں‘ ان میں تین بہت اہم ہیں‘ سانگ سٹن گیمپو(33 واں بادشاہ) تری سانگ ڈیٹسن ( 38 واں بادشاہ) اوررال پاکن  (41 واں بادشاہ)‘ تبت کا 33 واں بادشاہ بودھ مت کو علاقے میں لے کر آیا‘ یہ ہندوستان گیا‘ بودھ مت کا مطالعہ کیا اور ہندوستان کے بودھ مبلغین کو تبت کی دعوت دی‘ دنیا میں مہاتما بودھ کے تین اہم ترین مجسمے ہیں‘ یہ تینوں

مجسمے بودھ کی زندگی میں بنائے گئے تھے‘ پہلے دو مجسمے بودھ کے والد نے ان کے بچپن میں تیار کرائے تھے‘ پہلا مجسمہ بودھ کی آٹھ سال کی عمر میں بنایا گیا‘ دوسرا بارہ سال اور تیسرا ان کی 80 سال کی عمر میں تیار کیا گیا‘ 12 سال کا مجسمہ نیپال اور 8 سال کا بت چین کے شاہی خاندان کے پاس تھا جبکہ 80 سال کا مجسمہ بودھ کے آبائی شہر بودھ گیا میں رکھا تھا‘ بادشاہ گمپو یہ مجسمے لہاسا لانا چاہتا تھا چنانچہ بادشاہ نے مجسموں کےلئے نیپال اور چین کے شاہی خاندانوں میں شادیاں کر لیں اور یوں دونوں ملکائیں جہیز میں دونوں مجسمے لے آئیں‘ بودھ گیا کا مجسمہ کسی شخص یا خاندان کی ملکیت نہیں تھا چنانچہ وہ تیسرا مجسمہ لہاسا نہیں لا سکا‘گمپونے دونوں مجسموں کےلئے الگ الگ عبادت گاہیں تعمیر کرائیں‘ پہلی اور سب سے مشہور عبادت گاہ کا نام جوکنگ ٹمپل ہے‘ یہ جگہ چین کی ملکہ نے منتخب کی ‘ وہ روحانی علوم کی ماہر تھی‘ اس کا کہنا تھا یہ دنیا انسانی بدن کی طرح ہے‘ اس بدن میں گیارہ ٹمپل ہیں‘ جوکنگ 12 واں ٹمپل ہو گا اور یہ دل کی جگہ بنے گا‘ ملکہ نے ان 12 ٹمپلز کے بدن کی تصویر بھی بنوائی‘ یہ تصویر آج بھی جوکنگ ٹمپل میں موجود ہے‘گمپو نے ملکہ کی ہدایت کے مطابق ٹمپل بنوایا اور پھر مہاتما بودھ کا مجسمہ ٹمپل کے اندر رکھوا دیا یوں جوکنگ ٹمپل بودھوں میں مقدس عبادت گاہ سمجھی جانے لگی‘ عبادت گاہ کے گرد تین سرکل ہیں‘ بیرونی سرکل‘ درمیانی سرکل اور اندرونی سرکل‘ بیرونی سرکل بارہ کلو میٹر طویل ہے‘ بودھ فجر کے وقت اس سرکل میں پیدل چلنا شروع کرتے ہیں اور دعائیں پڑھتے

پڑھتے یہ سرکل مکمل کرتے ہیں‘ بعض بودھ بارہ کلو میٹر کا یہ فاصلہ زمین پر لیٹ کر سجدہ کرتے ہوئے بھی پورا کرتے ہیں‘ بودھ سجدہ بھی بہت دلچسپ ہے‘ یہ لوگ ہاتھ جوڑتے ہیں‘ جڑے ہوئے ہاتھ ماتھے‘ ہونٹوں اور سینے پر لگاتے ہیں اور منہ کے بل زمین پر لیٹ جاتے ہیں‘ ہاتھ سر کی طرف آگے بڑھاتے ہیں‘ دونوں کو گھما کر سائیڈوں پر لاتے ہیں اور پھر سیدھے کھڑے ہو جاتے ہیں‘ یہ ایک مشکل عمل ہوتا ہے لیکن یہ لوگ دن میں درجنوں مرتبہ یہ عمل کرتے ہیں‘

شدت پسند بودھ ان سجدوں میں بارہ بارہ کلومیٹر کا سفر بھی طے کر جاتے ہیں‘ درمیانی سرکل جوکنگ ٹمپل کی بیرونی دیواروں کے گرد ہے‘ یہ ایک کلو میٹر طویل ہے‘ یہ ڈیڑھ ہزار سال پرانی گلیوں اور دکانوں کے درمیان سے گزرتا ہے‘ ہزاروں لوگ روزانہ اس سرکل سے بھی گزرتے ہیں اور تیسرا سرکل ٹمپل کے اندر ہے‘ یہ مقدس ترین سرکل ہے‘ یہاں بہت کم لوگوں کو طواف کی سعادت نصیب ہوتی ہے‘ٹمپل کا صحن بھی اہم ہے‘ یہاں دلائی لامہ سینئر بھکشوﺅں کا امتحان لیتا تھا اور انہیں لامہ کی ڈگری دیتا تھا‘

دلائی لامہ کا تخت آج بھی صحن کے کونے میں پڑا ہے‘ بادشاہ تری سانگ ڈیٹسن  (38 واں بادشاہ) بھی بہت مشہور ہوا‘ تری سانگ نے تبتی زبان تخلیق کرائی اور بودھ مت کو ریاست کا سرکاری مذہب بنایا جبکہ 41 ویں بادشاہ رال پاکن نے بودھ لاموں کو ریاست کا مختار اور مالک بنا دیا‘ یہ بادشاہ بعد ازاں اپنے شہزادے کے ہاتھوں قتل ہو گیا جس کے بعد تبت میں خانہ جنگی شروع ہو گئی‘ وہ تاریخ کا سیاہ ترین دور تھا‘ اس دور کے آخر میں بادشاہت ختم ہو گئی اور دلائی لامہ ریاست کا وارث بن گیا۔

بادشاہ گمپو سے رال پاکن تک تبت میں بودھ مت کے چار فرقے پیدا ہوئے‘ پہلا فرقہ ریڈہیٹ (سرخ ٹوپی) تھا‘ یہ لوگ سر پر سرخ ٹوپی پہنتے تھے‘ یہ فاقہ کشی اور مراقبے پر یقین رکھتے تھے‘ ان کے بعد ”بلیک ہیٹ“ آئے‘ یہ سیاہ رنگ کی ٹوپی پہنتے تھے اور یہ مراقبے کے ساتھ علم پر یقین رکھتے تھے‘ خانہ جنگی کے دوران ”وائیٹ ہیٹ“ (سفید ٹوپی) کا فرقہ ظاہر ہوا‘ یہ لوگ امن کےلئے جنگ پر یقین رکھتے تھے اور خانہ جنگی کے آخر میں ییلو ہیٹ (پیلی ٹوپی) والے لوگ سامنے آئے‘

یہ مضبوط ترین فرقہ تھا‘ یہ اب تک موجود ہے‘ دلائی لامہ اسی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں‘ یہ لوگ مراقبے کے ساتھ علم‘ مارشل آرٹ‘ آرام دہ پر آسائش زندگی اور حکومت سازی پر بھی یقین رکھتے ہیں‘ دلائی لامہ تبت کا سرکاری‘ روحانی اور مذہبی عہدہ ہوتا ہے‘ دلائی لامہ شادی نہیں کرتا چنانچہ یہ لوگ سمجھتے ہیں ایک دلائی لامہ اپنی جسمانی عمر پوری کرنے کے بعد کسی نئے بدن میں دوبارہ پیدا ہو جاتا ہے لہٰذا انتقال کرتا ہوا دلائی لامہ انتقال سے قبل خط میں اگلے دلائی لامہ کا مقام پیدائش‘ والدین کا نام اور جسمانی نشانیاں بیان کر جاتا ہے‘

یہ لوگ نئے دلائی لامہ کےلئے مطلوبہ مقام اور گھر کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں‘ نیا دلائی لامہ پیدا ہوتا ہے‘ یہ اس میں مطلوبہ نشانیاں دیکھتے ہیں اور یہ پھر اسے پوٹالہ محل لے آتے ہیں‘ نئے دلائی لامہ کی ایک مذہبی رہنما اور بادشاہ کی طرح تربیت کی جاتی ہے‘ یہ جوان ہو کر عنان اقتدارسنبھال لیتا ہے‘ تبت کے 14 ویں دلائی لامہ 1959ءمیں تبت میں شورش کے دوران بھارت چلے گئے‘ یہ اس وقت 24سال کے تھے‘ انہوں نے بھارت میں جلاوطن حکومت بنا رکھی ہے‘

نوبل کمیٹی نے انہیں 1989ءمیں نوبل انعام سے نوازہ‘ تبتی زبان میں لامہ گرو اور دلائی گیان کا سمندر ہوتا ہے‘ بودھوں کے تیسرے دلائی لامہ نے منگولوں کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کئے‘ منگولوں نے بودھ مت اختیار کر لیا‘ چوتھا دلائی لامہ منگولوں میں سے تھا‘ پانچواں اور چھٹا دونوں دلائی لامہ اہم تھے‘ پانچویں دلائی لامہ نے ملک میں چار بڑی مونیٹسریز اور بودھوں کی دوسری مقدس ترین عبادت گاہ پوٹالہ محل بنوایا‘ پوٹالہ پہاڑ پر 13 منزلہ خوبصورت عمارت ہے‘

عمارت کے ہزار کمرے اور ہزار کھڑکیاں ہیں‘ 9 منزلوں کا رنگ سفید اور چار کا سرخ ہے‘ سفید منزلوں میں حکومت کے دفاتر ہوتے تھے جبکہ چار منزلیں مذہبی ہیں‘ ان چار منزلوں میں 8 دلائی لامہ مدفون ہیں‘ یہ لوگ دلائی لامہ کی ممی بنا کر اس پر سٹوپا یا سونے کا گنبد بنا دیتے ہیں‘ ایک ایک دلائی لامہ کے سٹوپا پر دو دو ارب روپے کا سونا اور جواہرات لگے ہیں‘میں نے ایک دلائی لامہ کے سٹوپا پر 3714 کلو گرام خالص سونے کا بورڈ پڑھا‘ آپ اس سے سٹوپاز کی مالیت کا اندازہ لگا لیجئے‘

بودھ دلائی لامہ کے شاگردوں کی لاشیں جلا کر ان کی راکھ کا سٹوپا بنا دیتے ہیں اور یہ ان سے کم تر درجے کے لاماﺅں کی لاشیں چھوٹے چھوٹے حصوں میں کاٹ کر زائرین میں تقسیم کر دیتے ہیں اور زائرین لاشوں کے ٹکڑوں کو برکت کےلئے اپنے بدن پر مل لیتے ہیں‘ پانچویں دلائی لامہ نے پوٹالہ محل بھی بنوایا اور درس گاہیں بھی‘ یہ محل کی تعمیر کے دوران انتقال کر گیا‘ اس کے مرید خاص نے انتقال کی خبر چھپالی‘ اس کا خیال تھا خبر عام ہو گئی تو محل کی تعمیر رک جائے گی‘

دلائی لامہ کے انتقال کا اعلان ہوا تو چھٹا دلائی لامہ اس وقت تک بڑا بھی ہو چکا تھا اور یہ زندگی کی لذتوں سے بھی واقف ہو چکا تھا‘ یہ جب محل میں لایاگیا تو یہ دن کو زائرین کو زیارت کراتا اور رات کو محل سے نکل کر موج مستی میں مصروف ہو جاتا‘ دلائی لامہ کے استاد اسے روکتے رہے لیکن یہ باز نہ آیا یہاں تک کہ یہ ایک دن محل سے فرار ہو گیا‘ یہ بعد ازاں نیپال کے بارڈر کے قریب فوت ہوا اور وہیں دفن ہوا چنانچہ پوٹالہ محل میں چھٹے دلائی لامہ کا سٹوپا یا مقبرہ موجود نہیں‘ تبت میں بودھوں کی چار عظیم درسگاہیں ہیں‘

درپنگ  شہر کے مضافات میں ہے‘ اس میں کبھی دس ہزار بھکشو ہوتے تھے‘ 14ویں دلائی لامہ نے جلاوطنی کے بعد یہ درس گاہ بھارت میں بنا لی تاہم اصل درسگاہ آج بھی تبت میں موجود ہے‘ سیرا دوسری درسگاہ ہے‘ یہ بھی مضافات میں موجود ہے اور اس کی بھی دو شاخیں بھارت میں موجود ہیں‘ سیرا کے بھکشو روز تین بجے میدان میں بیٹھ کر لاجک کا مقابلہ کرتے ہیں جبکہ تاشی لمپو مونیٹسری تبت کے دوسرے بڑے شہر شی گیٹسی  میں قائم ہے‘ یہ پہلے دلائی لامہ نے 1447ءمیں بنائی تھی‘

بودھوں کی مذہبی کتاب تپی تاکا دنیا کی طویل ترین مذہبی کتاب ہے‘ اس کی 225 جلدیں ہیں اور ہر جلد پانچ سو سے ہزار صفحوں پر مشتمل ہے‘ اس کی زبان مشکل اور مفہوم انتہائی مشکل ہے‘ یہ کتاب صرف لامہ سمجھ سکتے ہیں چنانچہ درسگاہوں میں شروع میں مذہبی کتاب کی زبان کی تعلیم دی جاتی ہے اور پھر اس کے مفہوم سمجھائے جاتے ہیں‘ بھکشوﺅں کو یہ سمجھتے سمجھتے ستر سال لگ جاتے ہیں چنانچہ یہ اس لحاظ سے دنیا کی طویل ترین مذہبی تعلیم سمجھی جاتی ہے‘

یہ لوگ اپنے ٹمپلز میں دیسی گھی کے چراغ جلاتے ہیں‘ آپ کو ہر ٹمپل میں منوں کے حساب سے دیسی گھی ملتا ہے‘ یہ گھی زائرین لے کر آتے ہیں‘ ٹمپلز میں ہزاروں قیمتی مورتیاں ہیں‘ یہ لوگ زندگی سے بڑھ کر ان مورتیوں کی حفاظت کرتے ہیں‘ درسگاہوں میں زیر تعلیم بھکشو شادی نہیں کرتے‘ یہ اگر شادی کر لیں تو انہیں درسگاہ سے نکال دیا جاتا ہے تاہم یہ اگر اپنا تعلیمی سلسلہ دوبارہ جوڑنا چاہیں تو یہ گھر بار چھوڑ کر واپس آ سکتے ہیں‘ یہ عنابی رنگ کی دو چادریں پہنتے ہیں‘

ایک سے نچلا دھڑ ڈھانپتے ہیں اور دوسری سے اوپری بدن‘ یہ ہاتھ میں تسبیح رکھتے ہیں اور کندھے پر تھیلا‘ یہ خوشبو استعمال نہیں کرتے چنانچہ ان کے قریب سے ناگوار سی بو آتی ہے‘ یہ منہ ہی منہ میں وظیفے بھی کرتے رہتے ہیں۔مجھے ان میں چھ دن گزارنے کا موقع ملا۔



کالم



صدقہ


وہ 75 سال کے ’’ بابے ‘‘ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت…

کرسمس

رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…