نجم سیٹھی بہرحال پوری قوم کی طرف سے مبارکباد کے حق دار ہیں‘ پاکستانی کرکٹ دوبارہ زندہ ہو رہی ہے‘ ہمیں کرکٹ کے اس ”ری وائیول“ کا کریڈٹ کبھی نہ کبھی ان کو دینا ہو گا‘ ہم چاہے انہیں لاکھ گالیاں دے لیں‘ ہم چاہے انہیں 35 پنکچرز کا ذمہ دار قرار دے دیں لیکن ہمیں کھلے دل سے ان کی کوششوں کا اعتراف کرنا ہو گا‘میں نے کل اکیلے کھڑے ہو کر نجم سیٹھی کےلئے پورے دس منٹ تالیاں بجائیں ‘میں سمجھتا ہوں یہ اس سے
زیادہ کے حق دار ہیں‘کیوں؟ ہم اس طرف آنے سے پہلے کرکٹ ٹیم کی فتح کا جشن منائیں گے۔پاکستان کے نوجوان کھلاڑیوں نے کمال کر دیا‘ ملک میں 2010ءکے بعد کرکٹ تقریباً انتقال کر گئی تھی‘ سٹیڈیم رنڈوے ہو گئے تھے اور بورڈ بیوہ‘ پاکستانی کرکٹ ٹیم نے ان سات برسوں میں لاکھوں دل توڑے‘ دنیا کی شاید ہی کوئی ایسی سیریز ہو گی جس کے آخر میں لوگوں نے ٹیلی ویژن زمین پر نہ مارے ہوں‘ پاکستانی کھلاڑیوں کو گالیاں نہ دی ہوں اور ٹیم کو منہ چھپا کر واپس نہ آنا پڑا ہو‘ دنیا نے ان سات برسوں میں یہ سوچ لیا تھا پاکستانی ٹیم جب بھی میدان میں اترے گی یہ ضرور اور ضرور ہارے گی‘ پاکستانی کھلاڑیوں پر میچ اور سپاٹ فکسنگ کے مقدمے بھی بنے‘ ملک کے بے شمار شاندار کھلاڑی ان مقدموں کی نذر بھی ہوئے‘ بھارت بھی اس دوران پاکستان کی ٹیم کا کفن سیتا رہا‘ پاکستان کرکٹ بورڈ بھی سازشوں کی آماجگاہ بنا رہا اور مصباح الحق‘ یونس خان اور شاہد آفریدی جیسے کھلاڑی بھی ریٹائر ہو گئے چنانچہ پاکستان میں کرکٹ پاکستان پیپلز پارٹی بنتی چلی گئی‘ ان حالات میں آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی آ گئی‘ یہ کرکٹ میں ورلڈ کپ کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا ٹورنامنٹ ہوتا ہے‘ یہ آٹھ بہترین ٹیموں کے درمیان کھیلا جاتا ہے‘ پاکستان آٹھویں اور ویسٹ انڈیز نویں نمبر پر تھا‘ پاکستان کےلئے اپنی آخری اور آٹھویں پوزیشن برقرار رکھنے کےلئے ویسٹ انڈیز کو ہرانا ضروری تھا‘ 7 اپریل کو میچ ہوا‘ پاکستان پہلا میچ ہار گیا‘ 9 اپریل کو دوسرا میچ ہوا‘ پاکستان 74 رنز سے کامیاب ہو گیا اور
پاکستان نے 11 اپریل کو تیسرے میچ میں بھی ویسٹ انڈیز کو چھ وکٹوں سے شکست دے دی یوں پاکستان نے اپنی آٹھویں پوزیشن کنفرم کر لی‘ پاکستانی ٹیم کے زیادہ تر کھلاڑی نئے اور ناتجربہ کار تھے‘ محمد حفیظ اور شعیب ملک سینئر ترین کھلاڑی تھے اور یہ بھی اچھی فارم میں نہیں تھے لہٰذا دنیا کا خیال تھا یہ ٹیم آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گی‘ یہ شروع ہی میں ڈھیر ہو جائے گی‘ قوم کو بھی زیادہ توقعات نہیں تھیں‘ یہ توقعات پہلے میچ میں درست ثابت ہوئیں‘
پہلا میچ پاکستان اور بھارت کے درمیان تھا‘ پاکستان کی ناتجربہ کار ٹیم بھارت کے گھاک کھلاڑیوں کے پریشر میں آ گئی‘ بھارت کے ہاتھوں خوفناک شکست ہوئی‘ کرکٹ کے لاکھوں مداحوں کے دل ٹوٹ گئے‘ کرکٹ کے ماہرین نے اس شکست کا تجزیہ کیا تو پتہ چلا سرفراز احمد نے فخرزمان کو ٹیم میں شامل نہ کر کے غلطی کی‘ عماد وسیم کو دوسرا اوور دینا بھی غلطی تھی‘ ہمارا کپتان شاید یہ نہیں جانتا تھا بھارتی کھلاڑی سپنرز کوبھی بہت اچھا کھیلتے ہیں اور وکٹ بھی سپنرز کےلئے زیادہ اچھی نہیں ‘
بیٹنگ کےلئے سازگار وکٹ پر ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کرنا بھی سیدھی سادی خودکشی تھی اور سرفراز احمد نے یہ خودکشی بھی کرلی اور پاکستان کی فیلڈنگ بھی خراب تھی چنانچہ انڈیا نے 319 رنز کا پہاڑ کھڑا کردیا‘ بارش کی وجہ سے میچ41 اوورز تک محدود ہو گیا‘ پاکستان نے 41 اوورز میں 289 رنز بنانے تھے لیکن ٹیم 164 رنز پر ڈھیر ہو گئی یوں پاکستان 124 رنز کے بڑے مارجن سے شکست کھا گیا‘ یہ ہار پاکستان کےلئے ”ناک آﺅٹ“ بن گئی‘ پاکستان کےلئے اب جنوبی افریقہ اور سری لنکا کو ہرانا ضروری تھا اور یہ تقریباً ناممکن تھا لیکن پاکستان نے یہ کر دکھایا‘
پاکستان کے ناتجربہ کار کھلاڑیوں نے 7 جون کو جنوبی افریقہ کو ڈھیر کر دیا‘ فخرزمان اس میچ کی پیداوار تھے‘ سری لنکا کے ساتھ 12 جون کو میچ تھا‘ محمد عامر‘ فہیم اشرف‘ حسن علی اور جنید خان نے اس میچ میں کمال کر دیا‘ جنید خان اور حسن علی نے تین تین جبکہ محمد عامر اور فہیم اشرف نے دو‘دوکھلاڑیوں کو آﺅٹ کیا اور سری لنکا کو 236 رنز تک محدود کر دیا‘ پاکستان کے بلے بازوں اظہر علی اور فخرزمان نے اس کے بعد کمال کر دیا‘ یہ دونوں اوپنرز تھے‘
ان دونوں نے 74 رنز کا سٹارٹ دیا لیکن بعد ازاں آنے والے بیٹسمین اس سٹارٹ کا فائدہ نہ اٹھا سکے اور پاکستان کی وکٹیں یکے بعد دیگرے گرتیں رہیں لیکن پھر محمد عامر اور سرفراز احمد نے کمال کیا‘ ان دونوں کے درمیان 75 رنز کی شاندار پارٹنر شپ ہوئی جس نے پاکستان کو سیمی فائنل میں پہنچا دیا‘ یہ معجزے سے کم نہیں تھا‘ پاکستان کا سیمی فائنل کرکٹ کے بانی انگلینڈ کے ساتھ تھا‘ محمد عامر میچ سے پہلے زخمی ہو گئے‘ رومان رئیس کو موقع ملا‘ یہ دو وکٹیں لے گئے‘
دو وکٹیں جنید خان نے حاصل کیں اور تین حسن علی نے لیں‘ فخر زمان اور اظہر علی نے جارحانہ بیٹنگ شروع کی اور ٹیم کو ایک بار پھر104 رنز کا شاندار آغاز فراہم کر دیا‘ پاکستان اس شاندار آغاز کی بدولت انگلینڈ کو 8 وکٹوں سے ہرا کر فائنل میں پہنچ گیا‘ دوسری طرف بھارت بنگلہ دیش کو 9 وکٹوں سے شکست دے کر فائنل میں آ گیا اور پھر 18 جون کو پاکستان اور بھارت دونوں روایتی حریف اوول کرکٹ گراﺅنڈ میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہو گئے۔یہ فائنل صرف فائنل نہیں تھا‘
یہ خوشیوں کےلئے ترستے پاکستان کےلئے آکسیجن ٹینٹ بھی تھا‘ یہ پاکستان میں کرکٹ کا ”کم بیک“ بھی تھا‘ یہ پاکستان کی انا‘ پاکستان کی عزت نفس کی بحالی بھی تھا اور یہ بھارت کی ثقافتی یلغار کا جواب بھی تھا ‘ یہ ساری ذمہ داریاں پاکستان کی نئی‘ نوجوان اور ناتجربہ کار ٹیم کے کندھوں پر تھیں ‘ پاکستان کے نوجوان کھلاڑیوں نے یہ ذمہ داریاں نبھا کر ایک نئی تاریخ رقم کر دی‘ انہوں نے کمال کر دیا‘ ہم نے فائنل میں بھارت کو باﺅلنگ‘ بیٹنگ اور فیلڈنگ تینوں شعبوں میں آﺅٹ کلاس کر دیا‘ بیٹنگ کی تو فخرزمان نے 114‘ اظہر علی نے 59‘ بابراعظم نے 46 اور محمد حفیظ نے 57 رنز کی شاندار اننگز کھیلیں‘ بھارت کو 338 سکورز کا ٹارگٹ دے دیا ‘ باﺅلنگ کی باری آئی تو محمد عامر نے کرکٹ کی تاریخ کا شاندار سپیل کیا‘
اس نے روہت شرما‘ ویرات کوہلی اور شیکھر دھون جیسے ورلڈ کلاس کھلاڑیوں کو اڑا کر بھارت کی جیت ناممکن بنا دی‘ ویرات کوہلی بھارت کی آدھی ٹیم ہیں‘ یہ جب تک کریز پر موجود رہتے ہیں بھارت کو اس وقت تک ہرانا مشکل ہوتا ہے‘ کوہلی کے آﺅٹ ہونے کے بعد بھارتی وکٹوں کی لائین لگ گئی‘ محمد عامر اور حسن علی نے تین تین وکٹیں لیں یوں پاکستان نے چیمپیئنز ٹرافی جیت لی اور دنیا بھر میں موجود پاکستانی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے گھروں سے باہر نکل آگئے‘
ہماری اس جیت نے ثابت کر دیا انسان اگر ٹھان لے تو دنیا میں کوئی چیز ناممکن نہیں ہوتی۔میں اب حکومت پاکستان اور پاکستان کرکٹ بورڈ دونوں سے دو درخواستیں کرنا چاہتا ہوں‘ ورلڈ کپ 2019ءمیں ہو گا‘ ہمیں ابھی سے اس کی تیاری شروع کر دینی چاہیے‘ کھلاڑیوں کو مصروف رکھیں‘ ملک کے اندر میچز کراتے رہیں‘ باقی ٹیموں پر نظر رکھیں‘ ان کی پریکٹس اور تکنیکس کا تجزیہ کرتے رہیں اور بین الاقوامی کوچز کی مدد لیتے رہیں‘ دو‘ ہماری ٹیم کی ناکامی کی بڑی وجہ سمارٹ فونز اور سوشل میڈیا ہے‘
ہمارے کھلاڑی رات دیر تک سوشل میڈیا پر ایکٹو رہتے ہیں یوں ان کی نیند بھی پوری نہیں ہوتی اور یہ جذباتی حادثوں کا شکار بھی رہتے ہیں‘ یہ ڈیپ ویب اور ڈارک انٹرنیٹ کے ذریعے بکیز کے قابو بھی آ جاتے ہیں چنانچہ حکومت فوری طور پر کرکٹ ٹیم کے سمارٹ فونز اور سوشل میڈیا پر پابندی لگا دے‘ یہ میچز کے دوران سمارٹ فونز استعمال کر سکیں اور نہ ہی سوشل میڈیا پر آئیں‘ حکومت آئی بی کو ان کے سوشل میڈیا کی ریکی کا ٹاسک دے دے‘ یہ پاکستانی کھلاڑیوں کی سوشل میڈیا سرگرمیوں پر نظر رکھے‘
یہ فیصلہ ہماری ٹیم کو مضبوط بنائے گا‘ کھلاڑیوں کی نیند بھی پوری ہو گی‘ یہ بکیز سے بھی بچے رہیں گے اور یہ جذباتی حادثوں سے بھی محفوظ رہیں گے یوں انشاءاللہ ورلڈ کپ بھی ہمارا ہو جائے گا۔ہم اب نجم سیٹھی کی طرف آتے ہیں‘ چیمپیئنز ٹرافی میں فخرزمان‘ حسن علی‘ شاداب خان اور رومان رئیس نے کمال کر دیا‘ یہ چاروں کھلاڑی پی ایس ایل کی پیداوار ہیں‘ فخرزمان مردان سے تعلق رکھتے ہیں‘ یہ لاہور قلندر کی طرف سے کھیلتے رہے‘ جنوبی افریقہ کے خلاف میچ میں ون ڈے کیریئر کا آغاز کیا‘ ملک کو بڑے عرصے بعد فخرزمان جیسا جارحانہ اوپنر ملا‘ حسن علی منڈی بہاﺅالدین کے رہنے والے ہیں‘
2020یہ پشاور زلمی کا حصہ تھے‘ حسن علی نے چیمپیئنز ٹرافی میں سب سے زیادہ وکٹیں لیں اور پلیئر آف دی ٹورنامنٹ بنے‘ یہ بھی پی ایس ایل سے نکلے تھے اور رومان رئیس کراچی سے تعلق رکھتے ہیں ‘ انہوں نے بھی اسلام آباد یونائیٹڈ سے کیریئر کا آغاز کیا تھا چنانچہ میں سمجھتا ہوں نجم سیٹھی اگر پی ایس ایل شروع نہ کرتے‘ یہ اگر خوفناک مخالفت کے باوجود ڈٹے نہ رہتے تو شاید ہم کامیابی کا یہ پہلا مرحلہ عبور نہ کر پاتے‘ ہمیں عید سے قبل یہ عیدی نہ ملتی اور شاید یہ نئی تاریخ بھی رقم نہ ہوتی چنانچہ تالیوں کے اس بازار میں نجم سیٹھی بھی تالیوں کے حق دار ہیں‘ ایک تالی ان کےلئے بھی ہونی چاہیے۔